یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں انصاف، ایمان، پارسائی، اخلاقیات کا
بنیادی اوراعلیٰ جذبہ نہیں ہوتا وہ معاشرہ خیر سے خالی ہوجاتا ہے اس معاشرے میں
صرف خرابیوں کا جنم ہوتا ہے اور معاشرہ طرح طرح کے جرائم کے بھنور میں پھنس
جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی یا
تنزلی میں نوجوان نسل کا ایک بہے اہم کردار ہوتا ہے اور نوجوان نسل کسی قوم کا
سرمایہ ہوتی ہے۔اور اگر یہ نوجوان نسل ذہنی غلامی میں مبتلا ہوجائے تو پوری قوم
تباہی اور بربادی کے اندھیرے میں گم ہوجاتی ہے، آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر
ڈالتے ہیں تو حد درجہ بگڑی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر دل کڑھ کر رہ جاتا ہےاور
انتہائی رنج ہوتا ہے۔ آج کیبل کلچر کی بدولت ہماری نوجوان نسل نہ صرف مختلف
برائیوں کا شکار ہوچکی ہے بلکہ اس نے تہزیب مغرب سے متاثر ہو کر متعدد ایسی
عادات اپنا لی ہیں جو ہماری تہذیب و رمدن اور روایات کے منافی ہیں۔ آج ہمارا
نوجوان ابلیسی تہذیب کی چکا چوند کا شکار ہوکر بے راہ روی میں مبتلا ہوگیا
ہے،اس مغربی ابلیسی کلچر کے باعث اخلاق سوز رجحانات روز بروز فروغ پا رہے ہیں
شرافت اور حیا داری کو خیر باد کہہ کر اخلاقی قدرونکو پائمال کیا جارہا ہے۔آج
ہمارے محلوں، گھروں، تعلیمی اداروں، پارکوں، تفریح گاہوں، یہاں تک کہ سڑک اور
بس اسٹاپز تک بے راہ روی اور حیا سوز حرکات کا چلن عام ہوگیا ہے،آج کوئی دیندار
گھرانہ، یا شریف آدمی اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ کسی تفریح گاہ میں نہیں
جاسکتا،اور یہ چیز اتنی عام ہوگئی ہے کہ اب لوگوں نے اس کا نوٹس بھی لینا چھوڑ
دیا ہے۔ اور عالم لوگوں میں بے حسی اور بے عملی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ کھلے
بندوں بے حیائی کو ارتکاب ہوتا دیکھتے ہیں اور اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں کے بے راہ روی کی طرف پوری پلاننگ کے ساتھ دھکیلا جارہا ہے۔اس
سلسلے میں کیبل کلچر، سی ڈیز، کے ساتھ ساتھ اس وقت سب سے بری برائی موبائل فون
کا غلط استعمال ہے۔اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ موبائل فون کو عام کیا جارہا
ہے، اس کے کال ریٹس کم کیے جارہے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رات بارہ بجے
سے لیکر صبح سات تک موبائل کمپنیوں نے مختلف پیکجز کے نام پر کال ریٹ تقریباً
مفت کردیے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان موبائل فون کمپنیوں کےاشتہارات بھی انتہائی
بے ہودہ،لچر، اور ہماری تہذیب اور ثقافت سے متصادم ہیں،اور ہم یہ بھی کہیں گے
کہ اس میں سب سے زیادہ ہاتھ ٹیلی نور کمپنی کا ہے اس کے اشتہارات میں سوائے
لڑکا لڑکی کے ناجائز تعلقات کو فروغ دینے کے کوئی اور بات نہیں ہوتی ہے اور
قارئین کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ وہی ناروے کی کمپنی ہے کہ جس ملک نے
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ صلیٰ اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے خاکے شائع کیے تھے۔
جس طرح ٹیلی نور نے سوائے جنسیت کو فروغ دینے کے کچھ اور نہیں کیا اسی طرح کا
حا ل دوسری موبائل کمپنیوں کا بھی ہے نوجوانوں کے اخلاق کی دشمن دوسری چیز نیٹ
کیفے ہیں۔ راقم الحروف ذاتی طور پر ایسے کئی نیٹ کیفز سے واقف ہے کہ جہاں نیٹ
کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔نیٹ کیفے اور سی ڈیز سے پہلے فحش فلمیں اتنی عام نہیں
تھیں لیکن اب کھلے عام اور ٹھیلوں پر فحش سی ڈیز بکتی ہیں۔اور نیٹ کیفیز میں تو
یہ حال ہے کہ نیٹ کیفے مالکان سرور پر فلمیں کاپی کرکے رکھتے ہیں،اور گھنٹے کے
حساب سے یہ فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔اگر ایک کیبن میں صرف ایک ہی فرد بیٹھ کر فلم
دیکھے گا تو اس کے چارجز تیس روپے گھنٹہ ہوتے ہیں اور اگر دو یا تین افراد ملکر
بیٹھیں گے تو اس کے چارچز چالیس تا پچاس روپے گھنٹہ تک لیے جاتے ہیں۔انتظامیہ
اس ساری صورتحال سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے اور نوجوانوں کے اخلاق کا بیڑا
غرق ہورہا ہے۔ لیاقت آباد سی ایریا میں مین روڈ کی طرف آمنے سامنے واقع دو
کیفیز میں سوائے نیٹ کے سبھی کچھ ہوتا ہے اور راقم الحروف کو کئی بار ضرورت کے
باعث وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور ہر دفعہ یہی جواب ملا کہ نیٹ کی سہولت دستیاب
نہیں ہے تو پھر نیٹ کیفے کا کیا مقصد ہے؟
مغربی ابلیسی تہزیب کے زیر اثر آج کا نوجوان دین سے دور ہوگیا ہے،اسے جہاد اور
دہشت گردی کا فرق نہیں معلوم اسے بزرگوں کا احترام کرنا نہیں آتا، وہ اخلاقیات
سے دور ہے، رات ہوتے ہی نوجوانوں کی اکثریت موبائل فون کانوں سے لگائے کسی عزیز
ہستی سے راز و نیاز میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ان کی یہ مشغولیت فجر کی اذانوں
تک جاری رہتی ہے۔ میں اپنے نوجوانوں کی خدمت میں یہ اشعار پیش کرنے کے بعد
اجازت چاہوں گا۔
آج کے نو جوان سن لے میری فغاں
آج کے نو جوان سن لے میری فغاں
میں نے مانا کہ گانوں میں بھی ہے کشش
عاشقی کے فسانوں میں بھی ہے کشش
پر بتا کیا اذانوں میں بھی ہے کشش
یاد کرتا ہے تجھ کو مالکِ دو جہاں
آج کے نو جوان سن لے میری فغاں
تُو جو حیلہ بناتا ہے حالات کا
میں تو قائل نہیں ان خیالات کا
تجھ کو علم نہیں شاید اس بات کا
اہلِ دل خود بناتے ہیں اپنا جہاں
آج کے نو جوان سن لے میری فغاں |