یکم اپریل کی آمد کا چرچا چہار
دانگِ عالم میں گونج رہا ہے ، دنیا میں چہار سو نت نئے طریقوں سے جھوٹ کو
فروغ دینے کی تیاریاں عروج پر ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال کوئی
نیا، انوکھا اور دلچسپ جھوٹ گھڑنے کی دوڑ میں ہر ایک دوسرے پر سبقت لے جانا
چاہتا ہے دل میں یہ تمنا ، آرزو اور حسرت لیے کہ گنیز بک آف ولڈ رکارڈمیں
عالمی جھوٹا ہونے کا اعزاز کس طرح حاصل کیا جائے ۔ شکاریوں نے اپنے شکار کو
ابھی سے تاک میں رکھنا شروع کردیا ہے اور تمسخر اڑانے والے ٹولے کی رکنیت
سازی مہم کا آغاز بھی زوروں پر ہے !
” اپریل“ لاطینی زبان کے لفظ ” اپریلس “ Aprills یا اپرائر Aprire سے ماخوذ
ہے ۔ جس کا معنی کونپلیں پھوٹنا ، پھولوں کا کھلنایعنی موسم ِ بہار کی آمد
۔ فیرز اللغات میں اپریل فول کا معنی ” پہلی اپریل کو دوسرے کو احمق بنا نے
کی رسم “ لکھا ہے۔ رومیوں کی قدیم قوم آمد ِ بہار کے موقع پر شراب کے دیوتا
کی پرستش کرتی ، اور اس دیوتا کو مسرت پہنچانے کی خاطر رومی مخلوط محفلیں
جماتے ، دھوم دھڑا کا کرتے، خوب جم کر شراب نوشی کی جاتی ۔ شراب کے نشے سے
سرشار یہ لوگ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کے لیے جھوٹ کا بے دریغ استعمال کرتے ۔
اسی طرح رفتہ رفتہ جھوٹ اپریل فول کا ایک غالب حصہ بن گیا ۔انٹر نیشنل
انسائیکلو پیڈیا کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن
قرار دیاجاتا ہے ۔ اس روز ہر قسم کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور
جھوٹے مذاق کوسہارے کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا
ہے۔
واقعی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، جب کوئی شخص ”بے پرکی اڑاتا “ہے اس وقت یہ
کہاوت بولی جاتی ہے ۔ تو یکم اپریل کو بھی اسی طرح بے پر کی اڑائی جاتی ہے
لیکن بے پرکی اڑانے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ پر کے بغیر کوئی چیز اڑنے کی
صلاحیت نہیں رکھتی ۔ تو یکم اپریل کو ” اپریلی نوجوان “ بھی اسی طرح ’‘بے
سرو پا “ خبریں اور افواہیں اڑاتے پھرتے ہیں اور مخلوق خدا کو اذیت
وپریشانی میں مبتلا کر کے خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں ، بلکہ اسے ایک کمال
گردانتے ہیں ، جوشخص جتنی چابکدستی اور صفائی سے دوسرے کو جنتا بڑا دھوکہ
دے ، اتنا ہی اسے لائق تعریف اور یکم اپریل سے فائدہ اٹھانے والا سمجھتے
ہیں۔ یہ ننگ ، ڈھرنگ اور بے تکی خبریں مختلف طریقوں سے ٹارگٹ کیے گئے شخص
کو پہنچائی جاتی ہیں ۔ فون کال کے ذریعے ، ایس ایم ایس کے ذریعے ، گھر پر
کسی بچے کو بھیج کر ، اور مختلف طور طریقے اپنا کر یہ رسم ِ بد منائی جاتی
ہے ۔ لیکن بے خبرے نوجوانوں کو یہ معلوم نہیں کہ جھوٹ بولنا ، کسی کو تکلیف
پہنچانا ، اذیت میں مبتلاءکرنا اسلام میں انتہائی مذموم عمل تو ہے ہی لیکن
ساتھ ساتھ اس منافقانہ رسم کا تاریخی پہلو بھی انتہائی شرمناک ہے۔جن سے اس
نوخیز نسل کو آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اس رسم کی ابتداءکیسے ہوئی ؟ اس بارے میں مورخین کی آراء مختلف ہیں،
انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں اس کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ فرانس میں
سترھویں صدی سے پہلے سال ِ نو کا آغاز جنور ی کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا
تھااور رومیوں کے ہاں اس مہینے کو احترام وتقدس کی نگاہ سے دیکھا جاتا
کیونکہ اس کی نسبت ان کی دیوی وینس (Venus)کی طرف تھی ۔ توا س طرح یکم
اپریل سے سال کا آغاز بھی ہوتا اور دیوی کی نسبت سے بھی اس دن کو خاص اہمیت
حاصل تھی اسی وجہ سے رومی اس دن کو یادگار کے طور پر مناتے ، جھومتے ، گاتے
، دھوم دھڑاکا ، ناؤ نویشی اور طرح طرح کی لغویات کرتے حتیٰ کے جھوٹ بول کر
اور دوسروں کو دھوکہ دے کر بھی خوشی کا اظہار کیا جاتا ۔ رفتہ رفتہ اس دن
کو عام معافی کا دن سمجھا جانے لگا اور جھوٹ اس دن کا خاصہ بن کر رہ گیا!
اس رسم کی دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مارچ کے آخری عشرے میں چونکہ
موسم میں تغیرات و تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیںجس کی بناءپر بعض لوگوں نے
یہ خیال ظاہر کیا کہ (نعوذ باﷲ) قدر ت ہمارے ساتھ تمسخر کر رہی ہے اور ہمیں
احمق بنا رہی ہے لہٰذا اس دور میں لوگوں نے بزعم خود اس کا عملی جواب اس
انداز سے دیا کہ ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔
یکم اپریل کو جشن کی طرح منانے والے مسلمان ذرا تاریخی کتب کی بھی ورق
گردانی کریں اور غور وخوض کریں کہ وہ صرف خوشی ، مسرت وشادمانی کے چند
لماحات کے حصول کی خاطر اپنی تاریخ کی درد وکرب بھری داستان پر خود ہی
قہقہے لگارہے ہیں ؟ آٹھ سو سال تک اسپین پر مسلمانوں نے بڑی شان وشوکت کے
ساتھ حکومت کی ۔ وہاں کی خوبصورت مساجد اور فلک بوس عمارتیں آج بھی اس
دورحکومت کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں، لیکن مسلم حکمرانوں کی دین سے دوری ،
دنیاوی رغبت ، عیش وعشرت ، نازو نخروں نے ہمیشہ مسلم حکمرانی کے تخت کو
زمین بوس کیا ہے اور غیروں کی حکمرانی کے پائے مضبوط کیے ہیں ۔
عیسائی افواج نے جب اسپین پر دوبارہ چڑہائی کی اور وہ فاتح قوم کی حیثیت سے
اسپین میں داخل ہوئے تو اس وقت مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں ، ہر
طرح سے مسلمانوں پر ظلم وتشدد کیا گیا ،بے شمار مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا
،ان کی املاک لوٹی گئیں ، عصمت دری کی گئی ، ان کے جوانوں کو قتل کیا گیا ،
عورتوں کو حوس کا نشانہ بنایا گیا ، سروں کے مینار کھڑے کیے گئے ۔اور رفتہ
رفتہ اسپین کی تمام ریاستیں ایک ایک کر کے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلتی چلی
گئیں ۔ پہلے طلیطلہ پھر اشبیلہ پھر قرطبہ اور آخر میں غرناطہ جو آخری مورچہ
تھا وہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔اور مسلم حکمراں ابو عبداﷲ نے
”الحمراء“ کی چابیاں کلیسا کے حوالے کردیں۔قابض افواج کو جب یہ یقین ہوگیا
کہ اب اسپین میں کوئی مسلمان بھی زندہ نہیں بچا تو انہوں نے طے شدہ معاہدے
کے تحت مسلمانوں کے گرفتار فرمانروا کو بمع اہل وعیال غرناطہ سے بیس کلو
میٹر دور ایک پہاڑی پر چھوڑ دیا اور اسے یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندا ن
سمیت واپس مراکش چلا جائے۔ جہاں سے اس کے آباواجداد آئے تھے۔
ملک میں مکمل عیسائی تسلط کے بعد پورے ملک میں جاسوسی کا جال بچھایا گیا کہ
کہیں کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے قتل کر دیا جائے۔جو مسلمان زندہ بچ گئے
تھے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں اپنا مسکن بنا بیٹھے اور وہاں
جانے کے بعداپنے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں، اپنے نام تک بدل ڈالے اور عیسائی
نام رکھ لیے ۔ اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا ۔مگر
جاسوس خبر دے رہے تھے کہ مسلمانوں نے علاقے بدل ڈالے ، نام بدل ڈالے ، اپنی
شناخت تک مٹا ڈالی لیکن اب بھی ملک میں مسلمان موجود ہیں ۔ مخبروں کی اس
اطلاع کے بعد مسلمانوں کو باہر نکالنے کی تراکیب سوچی جانے لگیں ۔اور پھر
ایک منصوبے کے تحت پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان
غرناطہ میں جمع ہوجائیں تاکہ انہیں ان کے پسندیدہ ممالک بھیجا جاسکے۔اب
چونکہ صورت حال قابو میں تھی، قتل وغارت گری کا بازار تھم چکا تھااور ملک
میں امن قائم ہوچکا تھالہٰذا مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس
نہیں ہوا۔مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے ۔ الحمراءکے قریب بڑے بڑے
میدانوں میں خیمے نصب کر دیے گئے ، جہاز بندر گاہ پر آکر لنگر انداز ہوتے
گئے ۔ غرض مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا
جائے گا۔ جب مسلمانوں کو یقین ہو چلا کہ اب انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا تو
مسلمانوں نے آپس میں خفیہ روابط شروع کردیے ۔ ادھر جاسوسوں نے مسلمانوں کا
روپ دھار کر انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ حکومتی سرپرستی میں انہیں بحفاظت
منزل مقصود تک پہنچایا جائے گا۔ اور جاسوس مسلمانوں کی ترغیب کے لیے خیموں
میں جمع ہونا شروع ہوگئے ۔ اور حکومتی کارندوں کی جانب سے ان کی خوب خاطر
مدارت کی جانے لگی ۔ ان کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی غرناطہ میں اکھٹے ہونا
شروع ہوگئے ۔ اس طرح حکومت نے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان کی خوب
خاطر تواضع کی ۔
پانچ سو برس سے بھی زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اس واقعہ کو جب یکم اپریل کے دن
اسپین کے تمام مسلمانوں کو بحری جہازوں میں بٹھایا گیا، مسلمان جان بخشی کی
خوشی میں ترک وطن کا غم سہنے کو تیار ہوگئے ۔ ساحل سمند ر پر الوداعی گیت
گائے گئے ،اس انداز میں جرنیلوں نے مسلمانوں کو رخصت کیااور جہاز وہاں سے
چل دیے ۔ دوسری جانب عیسائی حکمران اپنے محلوں میں جشن منانے لگے ۔ جب جہاز
سمندر کے عین وسط میں پہنچے تو منصوبہ بندی کے تحت عیسائی بادشاہ
فرڈینینڈکے گماشتوں نے جہازوں میں بارود سے سوراخ کیے اور دراڑیں ڈال دیں ۔
خود حفاظتی کشتیوں کے ذریعے بچ نکلے ۔ چشم ِ زدن میں سارے جہاز مسافروں سے
سمیت گہرے پانی میں ڈبو دیے گئے اور تمام مسلمان سمندرمیں ابدی نیند سوگئے۔
فرڈینینڈ کی شرارت اور مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد میں اس اندوھناک واقعہ کے
بعد اسپین بھر میں جشن منایاگیا ۔مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی حکمت عملی
تیار کرنے پر بادشاہ کو داد دی گئی ۔ اس روز یکم اپریل تھا ۔ پھر یہ دن
اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا اور اسے
انگریزی میں First April Fool کا نام دیاگیا ہے یعنی ” یکم اپریل کے بیوقوف
“ آج بھی عیسائی دنیا اس دن کی یاد بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے اور لوگوں
کو جھوٹ بول کر بیوقوف بنایا جاتا ہے ۔
ماقبل میں ذکر کیے گئے واقعات کی قطعی طور پر نہ تو تصدیق کی جا سکتی ہے نہ
تکذیب ۔ لیکن اگر اپریل فول کے پس منظر میں یہ واقعات نہ بھی ہوں تو تب بھی
کسی مسلمان کے لیے اس رسم ِ بد کا منانا کسی طور جائز نہیں ہوسکتا!
نہ شرعاً ۔۔۔!نہ ُعرفاً۔۔۔! نہ عقلاً۔۔۔!
کیونکہ نہ تو شریعت جھوٹ بولنے ، کسی کو دھوکہ دینے ، تکلیف پہنچانے کی
اجازت دیتی ہے ، نہ ہی عُرفِ عام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی عقل اس بات
کو اچھا تسلیم کرتی ہے !
قرآن پاک میں اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ہے “
۔ تو خود کو اﷲ کی لعنت کا مستحق کیوں قرار دیتے ہو؟
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” جو لوگ ایمان والے مردوں اورایمان والی
عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذاءپہنچاتے ہیں وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا
بوجھ اٹھاتے ہیں “۔ (الاحراب:58)
سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ” منافق کی تین نشانیاں ہیں ۱۔جب
بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ۲۔ جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے ۳۔
جب اس کے پاس امانت رکھوائی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔ (الحدیث)
آپ کا ارشاد ہے : ”دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں ان کے
متعلق حدیث شریف میں آتا ہے ” تباہی ہے ایسے شخص کے لیے جو دوسروں کو
ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے“۔(ابو داؤد)
دوسری حدیث میں آپ کا ارشاد ہے : ” جو ہمیں دھوکہ دے وہ مسلمان نہیں “
(مسلم )
اپریل فول کی ہلاکت خیزیاں اور تباہ کاریاں ہر سال نو کو پہلے سے بڑھ
اخبارات ورسائل کی زینت بنتی ہیں لیکن شور وغل میں منہمک ،اپریل فول منانے
کی دھن میں مگن یہ لاشعور ٹولہ ڈھیر سارے گناہوں کا بوجھ کندھوں پر لاد کر
، قرآ ن وحدیث میں وارد وعیدات کا خود کو مستحق قرار دے کر بھی اس قبیح فعل
کا ارتکاب کرتا ہے ۔ خدار ا مغربی طرز زندگی کی اندھی تقلید مت کرو!جھوٹ کے
اس رواں سیلاب کو روکنے کی کوشش کرو اس کے ہم رکاب ہونے کی نہیں۔کتنے گھر
اجاڑ ڈالے اس جھوٹ کے طوفان نے ؟ کتنی زندگیاں چھین لیں اس جھوٹ کی یلغار
نے ؟کتنے انسانوں کے دل چیر ڈالے اس گناہ بے لذت نے ؟کبھی اس پر بھی ٹھنڈے
دل و دماغ سے سوچ لیجئے ۔ |