دینِ مبیں کا حکم ہے کہ اپنے
انداز و اطوار اور شباہت میں دوسروں کی پیروی مت کرو اور ہر حالت میں اپنی
انفرادیت بر قرار رکھو ۔ چودہ سو سال ہوئے ہیں جب مدینہ ا لنبی میں اسلامی
تہذیب و تمدن اور معاش و معاشرت کی بنیاد ڈالی گئی اور آقا ﷺ نے اپنے ا
قوال و افعال او ر اعمال کے ذریعے اپنی امّت کی قدم قدم پر رہنمائی فرمائی
۔یہ میرے نبی کا اعجاز ہے کہ انہوں نے ہماری معاشی و معاشرتی زندگی کے کسی
ایک پہلو کو بھی تشنہ نہیں رہنے دیا ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا ہم سنتِ نبوی
پر عمل پیرا ہیں؟ ۔۔۔۔ بلا خوفِ تردید نہیں ۔۔۔۔ہر گز نہیں اور یہی نہیں
بلکہ ہم نے تو اپنی تہذیب و معاشرت میں بھی غیروں کی پیروی کو افضل گردانا
اور آج ہم غیروں کے تہوار بھی اسی جوش و جذبے سے مناتے ہیں جیسے یہ بھی
ہماری تہذیب ہی کا حصہ ہوں۔ انہی تہواروں میں ایک ”اپریل فول“ بھی ہے لیکن
شاید انگلیوں پہ گنے چند لوگ ہی جانتے ہوں کہ یہ یہودیوں کا تہوار ہے جسے
بہار کی دیوی کو خوش کرنے کے لئے منایا جاتا ہے ۔
برِ صغیر میں پہلی بار انگریزوں نے اپریل فول 1857 ءکی جنگِ آزادی کے بعد
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے ساتھ رنگون جیل میں منایا ۔ ایک بڑے تھال
پر کپڑا ڈال کر کچھ انگریز قیدی بادشاہ کے پاس گئے اور کہا ”لو اپنا ناشتہ
کر لو“ ۔ بہادر شاہ ظفر نے تھال سے کپڑا ہٹایا تو اندر اس کے بیٹے کا کٹا
ہوا سر پڑا تھا ۔ شاہ کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں اور قید خانے کے
در و دیوار انگریزوں کے قہقہوں سے گونج اٹھے ۔ اسی وقت کسی ستم ظریف نے کہا
”بادشاہ ! بُرا نہ ماننا آج اپریل فول ہے“۔ خالصتاََ یہودیوں سے سمگل شُدہ
یہ تہوار جو بِلا شبہ برِ صغیر کے مُنہ پر تمانچہ ہے ، آج ہمارے معاشرے میں
ناسور کی طرح پھیل چُکا ہے اور مغرب زدہ معاشرے کے پڑھے طبقے میں اسے منانے
کے لئے باقاعدہ تیاری کی جاتی ہے
حیرت ہوتی ہے کہ یہودیوں کے اس تہوار کو عیسائی بھی بھر پور طریقے سے مناتے
ہیں لیکن شاید وہ بھی بے خبر ہیں کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو گرفتار
کرکے رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو وہاں حضرت عیسیٰ کا مذاق اُڑایا گیا ۔
انہیں پہلے یہودی سرداروں کی عدالت میں پیش کیا گیا اور وہاں مذاق اڑانے کے
بعد رومی حاکم ”پیلاطس“ کے پاس بھیج دیا گیا ۔ وہاں سے انہیں ”پیروڈیٹس“ کی
عدالت میں لے جایا گیا اور پھر تفریحاََ دوبارہ ”پیلاطس“ کے پاس بھیج دیا
گیا ۔ توما کی انجیل کے مطابق یہودی آپ کی آنکھیں بند کرکے آپ کے مُنہ پر
تمانچے رسید کرتے ہوئے کہتے ”اب اپنے الہام سے بتا تجھے کس نے مارا“ حضرت
عیسیٰ کو مختلف عدالتوں میں بھیجنے کا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا اور مذاق
اڑانا تھا اور یہ سب کچھ اپریل ہی کے مہینے میں ہوا تھا ۔
” انسائیکلوپیڈیا لاروس“ کے مطابق اہلِ یہود در اصل یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ
کو تکلیف پہنچانے اور مذاق اُڑانے کی یاد گار کے طور پر مناتے ہیں ۔ دینِ
مبین میں تو تمام انبیاءعلیہ اسلام برابر ہیں اور اگر کوئی بد باطن ایسی
گستاخانہ حرکت کرتا ہے تو فوراََ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں
بلکہ دینِ مبیں میں تو کسی ”عامی“ کو نشانہ تضحیک بنانا بھی انتہائی قبیح
فعل تصّور کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے ”زیادہ نہ ہنسا کرو ۔ زیادہ
ہنسنے سے دل مُردہ ہو جاتا ہے “ جب کہ حضرت علیؓ کا فرمان ہے ”بے موقع مزاح
دشمنی پیدا کرتا ہے“ لیکن یہاں تو مزاح کی صورتِ حال یہ ہے کہ اسے اللہ کے
پاک نبی کی بے حرمتی کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی سمجھ
میں نہیں آتا کہ عیسائی برادری اس تہوار کو کیسے مناتی اور برداشت کرتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سترھویں صدی سے قبل سال کا آغاز بجائے جنوری کے اپریل میں
ہوتا تھا ۔ موسمِ بہار بھی اسی ماہ میں ہوتا ہے ۔ اس لئے اسی مناسبت سے لوگ
اپنی خوشی کا اظہار ہنسی مذاق سے کرتے تھے ۔ بعد ازاں اسی کو ”اپریل فول“
کا نام دیا گیا ۔ یہ ”اپریل فول“ پاکستان میں یکم اپریل کو منایا جاتا ہے ۔
اس دن کو بیوقوفوں کے دن سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ہر عمر کے لوگ اپنے عزیز
و اقارب اور دوست احباب کو جھوٹے پیغام بھیج کر بیوقوف بنانے میں خوشی
محسوس کرتے ہیں کچھ لوگ تو اپنی بیویوں کو طلاق تک دے دیتے ہیں حالانکہ
طلاق تو نشے کی حالت میں بھی ہو جاتی ہے چہ جائیکہ انسان ہوش و حواس میں
ایسا بھونڈا اور خالصتاََ غیر شرعی مذاق کر کے یہ کہہ دے کہ ”میں نے تو
اپریل فول منایا“ حد تو یہ ہے کہ کچھ لوگ اس قسم کا مذاق کر جاتے ہیں جو
دوسروں کے لئے جان لیوا بھی ہو سکتا ہے ۔ ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے
کو جی چاہتا ہے جو بنا سوچے سمجھے ایسے بے تُکے تہواروں کو بڑے فخر سے
مناتے ہیں جس میں مسلمانوں کی تذلیل کی جاتی ہے ۔ |