بسنت

جشن ہے ۔۔۔! شرافت وانسانیت کا لباس اُتار پھینکنے کا
تماشا ہے ۔۔۔! پارسائی وپاکدامنی کی دھجیاں اڑانے کا
جنازہ ہے ۔۔۔!محبت کے پاکیزہ جذبوں کا

ہر قوم کی اپنی شناخت ہوتی ہے ۔ ہر مذہب کے اپنے تہوار ہوتے ہیں ۔ ہر قبیلے کی اپنی زبان ہوتی ہے ۔ ہر برادری کے الگ سے رسم ورواج ہوتے ہیں ۔ ہر علاقے کی اپنی پہچان ہوتی ہے ۔ اگر کوئی قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے ، اپنے مذہب کے تہوار بھول جائے ، اپنے قبیلے کی زبان نہ بول سکے ، اپنی برادری کے رسم ورواج کو یاد نہ رکھ سکے ، اپنے علاقے کی پہچان اور نقوش کو زائل کردے تو ایسی قوم کو دیگر اقوام کس زاویے سے دیکھتی ہیں ؟ جس قوم کے قدم ابتدائے سفر میں ہی لڑکھڑانے لگیں، جو قوم اپنے ڈگمگاتے خواہشات پر ہی قابو نہ پاسکے اور ان خواہشات کی تکمیل کو ہی تسکین قلب وجاں سمجھ بیٹھے ایسی قوم کا انجام تاریخ میں عبرتناک ہوتا ہے !

نہ جانے زمین سے کوئی وباکا لاوا اُبلا ہے یا آسمان سے کوئی سحاب عذاب برسا ہے کہ ہم نے اپنی ثقافت و شناخت کی ساری چیزیں بصد خوشی بھلادیں اور ہمیں پروابھی نہیں ۔ ہر گزرتے دن کوئی نیا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے ۔ ہر آنے والے نئے سال کی آمد پرپچھلے سال سے بڑھ چڑھ کر ”نیو ایئر نائٹ “ کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں ۔ اور اس میں جو عیاشی ، بدمعاشی اور فضول خرچی کی جاتی ہے شریف آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ” نیو ایئر نائٹ“ تو تماشا ہے ۔۔۔! پارسائی وپاکدامنی کی دھجیاں اُڑا نے کا! کبھی ”ویلنٹائن ڈے“ جیسے بے حیائی کے پیغامات پھیلانے والے دن کو منانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ ”ویلنٹائن ڈے“ تو جنازہ ہے۔۔۔!محبت کے پاکیزہ جذبوں کا! تو کبھی ”بسنت جیسے ہندوانہ تہوار کو مناکر گستاخ رسول سے ہمدردی کا اظہار بلکہ اسے خراج تحسین پیش کی جاتی ہے ۔ ”بسنت “ توجشن ہے ۔۔۔! شرافت وانسانیت کا لباس اتار پھینکنے کا!امت مسلمہ کے نوخیز مسلمانوں!یقین جانویہ ایک کفریہ سازش ہے جس کے تحت چڑھتی جوانی کے خمار میں مست منچلوں کو پس ِ پردہ درحقیقت کفر کی دعوت دی جارہی ہے اور جوانی کے نشے سے سرشار یہ مدہوش ٹولہ انجانے میں راہِ خطاکی طرف گامزن ہے ۔ یہ تو چند باتیں ہیں جو نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر آگئیں۔ اس کے علاوہ کتنے بے شمار مسائل ہیں اور ہر ایک ہی پورا قصہ غم ہے ۔ ہزاروں حسرتیں ایسی کہ ہر حسرت پہ دم نکلے۔۔۔ہماری استدعا صرف اتنی ہے کہ ہمیں اپنے مذہب اور دین سے اتنی محبت اور والہانہ فدائیت ہو کہ ہم دوسروں کے سامنے اس پر فخر کریں ۔ اس کے ہر حکم ، ہر شعار ، ہر طور وطریق ، ہرنام وہر کام کو کرتے ہوئے خود کو مسلمان تصور کریں ۔ بہت زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی تو ضرور ہوجتنی غیروں اور باطل مذاہب کے پیروں کاروں کو اپنے طور وطریق سے ہے ۔ ندامت اور شرمندگی کے اس احساس کو شاید آپ محسوس کریں گے اگر میں یہ کہوں کہ ہمیں اپنے طور وطریق اور اپنے مذہب سے اتنی محبت تو کم از کم ہو جتنی ہمیں دوسروں کے طور وطریق سے ہے۔ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ایمان والے اﷲ سے حد درجہ محبت کرتے ہیں۔

بسنت ہندوستانی زبان سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنیٰ” بہار“ کے ہیں یعنی جب موسم بہار شروع ہوتا ہے تو ہندو یہ تہوار پتنگیں اڑا کر مناتے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں بسنت کے بہت سارے معانی لکھے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
۱۔سرسوں کے کھلے ہوئے زرد رنگ کے پھول۔
۲۔بہار کا موسم ، موسم بہار کا ایک تہوار۔
۳۔سری راگ کی چوتھی راگنی ۔
۴۔بسنتی: ہندی زبان کا لفظ ہے ، زرد ، پیلا ، زعفرانی۔

موسم بہار کی آمد پر ہندوؤں کی منائی جانے والی عید کو” بسنت “کہتے ہیں ۔ یہ تہوار کیوں منایا جاتا ہے ؟ کس کی یاد میں منایا جاتاہے اور کن مقاصد کے لیے منایاجاتا ہے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالتے ہیں ۔ پیغمبر دو جہاں خاتم الانبیاءجناب محمد الرسول اﷲ ﷺ کی بلند پایاں شان اقدس میں گستاخی کے مرتکب مجرم ” حقیقت رائے “ نامی بد بخت گستاخ رسول کو” بسنت “کے روز پھانسی ہوئی ۔ اسی روز بدزبان مجرم کو واصل جہنم کر کے کیفر کردار تک پہنچایا گیا ۔ پھر اس کے رد عمل میں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کابے دریغ قتل عام کیا، انتہائی سفاکی کے ساتھ ان کاخون بہایا اور انتقامی فتح کے طور پر جشن منایا اور” حقیقت رائے “کی سمادھی پر پتنگیں اڑائیں! خبث باطن کو ظاہر میں اگلنے والے اس بد کردار گستاخ رسول کی یاد کو برقرار رکھنے کے لیے ، مومنین کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے، مسلمانوں کے دلوں پر نیزہ زنی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ، آقا مدنی کریم ﷺ اوران کے صحابہ ؓ کے ازلی دشمن ایک مالدار ہندو ”کالو رام“ نامی بدبخت نے ہر سال اسی روز مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے کے لیے لاہور میں کوٹ خواجہ سعید (فوجی شاہی )بھائی گیٹ میں ایک مقام پر بسنت میلے کا آغاز کیا جو مجرم حقیقت رائے کی یاد میں ہر سال نو کو فکر ، جذبہ اور ولولہ کی امنگوں سے بھر پو ر ، پر کشش چادر اوڑھے ، مسحور کن انداز اپنائے ، جاذبیت وسرور کی چاشنی سے لیپ زدہ منظم اور بھرپور تحریک کی شکل میں عقیدت واحترام سے منایا جاتا ہے ۔

بااثر شخصیات ، سیاسی رہنماؤں ، سماجی ہستیوں کے ساتھ ساتھ بااقتدار ونامور شخصیات بھی اس کار خیر میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ،خود کو روشن خیال ظاہر کرنے کی دھن میں مگن یہ لوگ ہر اس کام کو کر گزر نے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں جن سے ان کا نام” نیوٹرل“ لوگوں میں شامل ہوجائے تاکہ ہر طرح کا بیرونی وطاغوطی تعاون ، سپورٹ اور ہمدردیاں ان کی شامل حال ہوجائیں ، بنیاد پرستی کا لیبل کہیں ان کی پشت پر چسپاں نہ ہوجائے لیکن اس ڈرو خوف کے دلدل سے نکلنے کے لیے جتنی ٹانگیں وہ مارتے ہیں اتنا ہی اس دلدل میں مزید ڈوبتے جاتے ہیں ۔ دینی غیرت وحمیت سے بے خبر ، اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ، اپنی عزت وقار کی دھجیاں اڑانے والے ، اپنے قد سے بڑا نام رکھنے والے یہ حضرات گستاخ رسول کی یاد میں منائے جانے والے اس تہوار کو چار چاند لگانے کے لیے پتنگ کی ڈوریں ہاتھ میں لیے روشن خیالی کا اظہار کرتے فخر محسوس کرتے ہیں۔

آج خود کو مسلمان کہنے والا ، اﷲ ورسول کا نام لینے والا، اپنی تہذیب اپنی پہچان اپنے تہوار اپنی شناخت رکھنے والا مسلمان ایک گستاخ رسول کافر کی یاد میں بسنت مناتا ہے ۔ بسنت والے دن زرد(پیلا) لباس زیب تن کر کے فخر محسوس کرتا ہے ، پیلی پگڑی پہن کر خود کو معزز گردانتا ہے ، رنگ رلیاں مناتے ہوئے خود کو روشن خیال ظاہر کرتاہے ۔ پتنگ بازی ، فحاشی وعریانی، فحش گوئی ، دھوم د ھڑاکا ، ناؤ نویشی کے رنگ میں ایسا رنگتاہے کہ ہندو بھی اسے دیکھ کر رشک کرتے ہیں کیونکہ ہندوانہ تہذیب میں تو یہ تماشہ بازی عبادت ہے مگر اسلام کے مہذب وپاکیزہ دائرے میں یہ سب کچھ ۔۔۔! ڈنکے کی چوٹ پراﷲ اور اﷲ کے رسول سے اعلان بغاوت ہے ، علی الاعلان نافرمانی ہے اور شاید گستاخ رسول کی حوصلہ افزائی بھی ۔۔۔!

صرف ایک شہر کے باسی بسنت کے موقع پر 50،60 کروڑ روپے شب بھر میں جشن بہاراں کے نام پھونک دیتے ہیں یہ تو اس عظیم گناہ کی ظاہری بربادی اور نحوست ہے کیاہمارے پاس اس اسراف اور فضول خرچی کا کوئی جواز ہے ؟ سینکڑوں لوگوں کی جانیں پتنگ بازی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اس قتل عام کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے ؟پتنگ بازی کی فولادی ڈوری کی زر میں آکر برقی ٹرانسمیشن اور ٹریفک کے جو حادثات رونما ہوتے ہیں ، جو قیمتی اموال اس گستاخ رسول کے نام پر ضائع ہوتے ہیں ان حادثات ونقصانات کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے ؟ مخلوط محفلیں جمائی جاتی ہیں ، عیاشی کی حدوں کو پھلانگا جاتا ہے ، بھرے جام انڈیلے جاتے ہیں ان گناہوں کا بار کس کے کندھوں پر لادا جائے ؟ اس ہندوانہ زردی میں مکمل رنگنے کے بعد شہر لاہور یا اس کے مضافات کے باسی جب کسی قدرتی گرفت میں آتے ہیں چاہے وہ ڈینگی کی صورت میں ہو یا جعلی ادویات کی صورت میں توان کے لیے بارگاہ الٰہی میں عفو وکرم کی التجا کرنے والابھی کوئی نہیںرہتاکیونکہ حدوں کو پار کرنے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت لے جا چکا ہوتا ہے۔

مزدوروں کے ایک غمخوار صاحب نے لکھا تھا کہ بسنت سے بہت سارے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ۔ KESC ، ریلوے ، PIA ، پنجاب کی مکمل انڈسٹری سسٹم اور ملک کی بڑی ونامور کمپنیوں میں خسارے کے بعد بسنت ایک اچھا موقع ہے جس میں ہزاروں لوگوں کا روزگار بحال ہوجاتا ہے لیکن بعض متعصب قسم کے لوگ اس بسنت کی تہوار کو جو اس قوم کے دکھوں کا مداواکرتی ہے اور انہیں خوشی کا ایک موقع فراہم کرتی ہے اس دکھی قوم سے بسنت کی اس ایک خوشی کو بھی چھیننا چاہتے ہیں ، روزگار کی متلاشی اس بے روزگار قوم سے روزگار کے اس حسین موقع کو بھی چھیننا چاہتے ہیں۔

غمخوار صاحب سے گزارش ہے کہ گستاخ رسول کی یاد میں جشن منانے والوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون یا ہمدردی دراصل گستاخ رسول کی حوصلہ افزائی ہے ۔ اور بسنت کو خوشی کے موقع سے تعبیر کرنے والے شاید یہ بھول گئے ہیں کہ۔۔۔ ہماری اپنی خوشیاں ہیں ، ہمارے اپنے تہوار ہیں ، ہماری اپنی تہذیب وثقافت ہے ، ہماری اپنی شناخت ہے ، ہماری اپنی پہچان ہے ۔ بسنت اور جشن بہاراں ہماری پہچان نہیں ، یہ مسلمانوں کی خوشی نہیں۔ مسلمان اس گستاخ رسول کی یاد میں ہونے والے جشن بہاراں کی تیاری میں معاون ومددگار نہیں بن سکتا ، اور اسی سلسلے میں روزگار تلاش کر کے عذاب خداوندی کو ہرگز دعوت نہیں دے سکتا ! صرف روز گار کے حصول کے لیے اتنے سارے گناہ موہ لینا، ناتلافی نصانات کو برداشت کرلینا، یہ کہاں کی دانائی و داشمندی ہے ؟ ہاں ان کے لیے عقلمندی کی بات ہوسکتی ہے ، ان کے لیے فائدے کی بات ہوسکتی ہے جن کے دلوں پر ، جن کے کانوں پر ، جن کی آنکھوں پر کفرو نفاق کا پردہ پڑا ہوا ہے۔

بسنت کی ہلاکت خیزیاں اور تباہ کاریاں ہر سال نو کو پہلے سے بڑھ کر منظر پر آتی ہیں شور وغل میں منہمک بسنتی نوجوانوں کی حالت زار دیکھ کر ہر مسلمان کا دل تڑپتا رہ جاتا ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس تہوار کی تباہ کاریوں میں اضافے کے لیے خصوصی پیکیجز جاری کرتی ہیں ۔ مختلف ممالک کے سفیر اس تہوار میں شامل ہو کر بسنتی دیوانوں کے ہجوم میں اضافہ کرتے ہیں ۔ پنجاب انتظامیہ اس فتنے کو پروان چڑھانے کے لیے خصوصی ہدایات جاری کرتی ہیں۔ جب صورت حال اس قدر گھمبیر ہو تو جوانی کے خمار میں مست ان منچلوں کا کیا کیا جائے جو عید وبقر عید سے بھی زیادہ خوشیاں بسنت کے نام کرتے ہیں اور ان منصوبوں کو کس طرح سے آشکار کیاجائے جو اس بسنت کی پیداوار ہیں؟

حضور ﷺ کا فرمان صادق ہے کہ ” جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے “ تو ہمیں بھی افعال پر نظر رکھنی چاہیے اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار کہ کہیں ہمارے اعمال وافعال غیروں سے تو میل نہیں کھارہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس گناہ عظیم کو ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ غیر محسوس طریقے سے غیروں کے تہواروں کو اپنانے کے بعد اب ہم ان کے مذہب کو بھی اپنا رہے ہیں؟ کہیں خدا نخواستہ ایسا تو نہیں کہ غیروں کی خوشیوں کو اپنی خوشیاں سمجھنے کی وجہ سے ہمیں غیروں میں شمار کیا جا چکا ہے ؟ اب بھی وقت ہے مدہوشی سے ہوش میں آنے کا ، اب بھی وقت ہے غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کا، اب بھی وقت ہے غیروں کے طور وطریق کو چھوڑکر گنبد خضراءکے سائے تلے پر کیف زندگی بسر کرنے کا! فیصلہ آپ پر ہے کہ۔۔۔
ادھر ہے شیطاں ادھر خدا ہے
بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے؟
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.