میں اور ہر فرد واحد اکھاڑے
کے نمائشی پہلوانوں کی طرح اپنی طاقت آزمائی میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی کے
گلےمیں عہدے کا ٹیگ چھول رہا ہے تو کوئی اپنے اسٹیٹس کے پیمانے پر نازاں ہے
، بعضوں کی گفت وشنید کا مقصد ہی اپنے تعلقات کی نمود ہے اور کچھ نہ ہو تو
بدزبانی کا چسکہ تو آوئے کا آوا کو ہی لاحق ہے۔
غالب نے کیا خوب کہا ہے:
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
انسان غلطی کا پتلہ ہے یہ مقولہ تو ہر شخص کو رٹا ہوا ہے مگر اس کے برعکس
کسی انسان سے دانستہ نا دانستہ طور پر کوئی غلطی صادر ہوجائے تو تھوک کے
حساب سے گالیاں منہ کوآجاتی ہیں اور رشتہِ محرم کی آبرو کو ہی سرِ راہ
نیلام کردیا جاتا ہے۔اور پھر بات کا بتنگڑ بنتے بنتے ہاتھا پائی وخون خرابے
تک کی نوبت آپہنچتی ہے۔ بے حسی وسنگدلی کا یہ عالم ہے کہ گھر کے سمجھدار
افراد بھی اپنے اسلاف کی تربیت کو روند کر وحشیانہ روپ دھار لیتے ہیں۔درگزر
تو درکنار سزا کا تعین کیئے بغیر ہی خود قاضی بنے کسی کو بھی سولی پر لٹکا
دیتے ہیں۔ خونی بگولوں کی اعانت و حمایت کے ذریعہ کسی بھی شخص کو مفلوج
دینا یا موت کی اوٹ سُلادینا کوئی بات ہی نہ، ان سب سے قطعہ تعلق کہ وہ
پوری انسانیت کو چکنا چور کر رہے ہیں۔ چنانچہ اپنی طاقت و تعلقات کے بل
بوتے پر کسی بے یارو مددگار کی درگت بنادی جاتی ہے اور چنگیزیوں اور
تاتاریوں کی طرح اپنی درندگی کے قصے حلقہ احباب کو بھگاڑ بھگاڑ کے سنائے
جاتے ہیں۔ اور اگر ان سے بڑا مگرمچھ مدِمقابل آجائے تو پھر جنگلی بھینسے کی
طرح انکا تگڑا اور بدکا ہوا وجود ہی انکے لئے باعث شرمندگی بن جاتا ہے۔
شرم مگر مجھے نہیں آتی
کچھ اور نہ سہی تواگر مخاطب نے کوئی اختلافی رائے یا مزاج سے ہٹ کرکوئی بات
کہ دی تو دوسرا حربہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اندر ہی اندر ترکِ تعلق کا اعلان
کردیا جاتا ہے اور سلام ودعا سے بھی جان چھڑالی جاتی ہے اور ان سب کی
بنیادی وجہ بدگمانی و بدزبانی ہوتی ہے۔
زبان تو تر ہے کلمے سے لیکن معبودِحق کے ہونے کا احساس کہیں کھوگیا ہے،
غفلت کی وجہ سے ہم اپنے دل کو سیاہ کرچکے ہیں، ہمارے اوپر بھی کسی کا قانون
ہے، ہمارا بھی کھاتا کھلے گا اس کا احساس ادھ مرا ہوچکا ہے یا کہیں ہم اللہ
تعالٰی کی ہدایت سے بالکل بے بہرہ ہوچکے ہیں ۔ جس نے ہمارے عیبوں کو اپنی
ستاری کی چادر میں ڈھانپا ہواہے اورجو ہماری سرکشی کو نظر انداز کیئے جارہا
ہے۔
آخر کیوں ہم ایک انسان کی غلطی کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اللہ کی
مخلوق کی ذرا سی غلطی پر درگزر کرنے کے بجائے ہمارے اندر انتقامی لاوا اُبل
پڑتا ہے، کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب زیادہ انصاف کرنے والا ہے،
اس رب کریم کے کٹھرے میں کسی کا کارڈ نہیں چلے گا، وہاں کسی کے تعلقات کی
کوئی اہیمت نہ ہوگی۔بس جب اُس کی چھڑی چلے گی تو اُس کی زد میں کسی کے
بڑھاپے کا سہارا بھی آسکتا ہے، کسی طاقتور جسم کی بے بسی بھی آسکتی ہے۔
کہیں ہمارے ظلم و بربریت کا جواب ہماری گھر کی رحمت (بیٹی) کو تیزاب کی
صورت میں نہ ملے، کہیں ہمارا لختِ جگر (بیٹا) کسی حادثہ کی نظر نہ ہوجائے
کہ ہم اُنکے جنازے سے ہی محروم ہوجائیں۔
اللہ تعالیٰ جب کسی مظلوم کا بدلا لینے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کی اگلی
پچھلی نسلوں کا احساس بھی باقی نہیں رہتا۔ اس سے قبل کے ہمیں مٹی کی گود
میں تھما دیا جاے ہم تھم جائیں۔ آمین۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ:
مسلمان وہ ہے جو اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو محفوظ رکھے۔
(بخاری شریف، کتاب الایمان۔ ) |