وادی سوات اپنی فطری خوب صورتی ،
دل کشی اور رعنائی کی وجہ سے پاکستان کا ایک حسین ترین خطہ ہے۔ اس کے قدرتی
مناظر، شفاف ندیاں، طلسماتی جھیلیں ، بلند آبشار ، پر شور دریا اور بارونق
میدانی علاقے ہر شخص کا دل موہ لیتے ہیں۔سوات کے خطے اراضی کا ذکر قدیم
ترین کتابوں میں بھی نظر آتا ہے ، سنسکرت زبان کا لفظ(Udyana) اودیانہ ہے
جس کے معنی باغ یا گلستان کے ہیں ۔
یونانی مورخین نے اس علاقہ کو دریا سے نسبت دیکر سویتا(Sawastu) میں دریائے
سوات کو موجودہ دور میں اور عہد قدیم میں سواستو کہلایا جاتا تھا۔جس کے
معنی سفید یا شفاف پانی کے ہیں۔جو بعد میں اپنے بھر پور ندی نالوں کے صاف و
شفاف پانی(Sweta) کی وجہ سے سواستو یا سویتا کے بعد بتدریج سواد اور پھر
سوات بن گیا۔سوات میں کسی دیرپا حکومت کا قیام کا وجود نہیں رہا ہے تاہم
یہاں کسی منظم حکومت کے قیام کا دھندلا سا خاکہ بدھ مت کے دور میں ضرور
دکھائی دیتا ہے اس وقت ترقیاتی اور تہذیبی زندگی کی داغ بیل ڈال گئی اور
نئی نئی آبادیاں بھی وجود میں آتی چلی گئیں۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ہندو
شایبہ نے اس سرزمیں پر ایسے وقت پر اپنا پرچم لہریا جب قبیلہ یوسف زئی
موجودہ علاقوں سےبہت دور افغانستان کے علاقوں میں رہائش پذیر تھا تاہم ہندہ
شابیہ کا چراغ یہاں زیادہ تر تک روشن نہیں رہ سکا اور سلطان محمود غزنوی کی
فوجوں کے ہاتھوں ایسے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے گل ہونا پڑا۔
سوات کی سرزمین مغل، درانی،سکد اور انگریز کی طاقت آزمائی سے مقابل رہی
لیکن اس ریاست پر کوئی مستقل حکومت قائم نہیں کرسکا۔1850میں اخون صاحب ِ
سوات (سیدو بابا) نے سوات اور بونیر کے مشورے سے ستھانہ کے رئیس سید اکبر
شاہ کو بادشاہ منتخب کرلیا جس نے باقاعدہ طور ایک شرعی حکومت قائم کی لیکن
ان کی11مئی1857ءمیں وفات کے بعد سوات پھر قبائلی دور میں چلا گیا ۔
انگریزوں کو ان کی حکومت سے خطرہ تھا جس کا اندازہ سر ہربرٹ ایڈورڈ کے ان
الفاظ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لکھتا ہے کہ اگر سوات میں شرعی حکومت
اور جنگ جو قبائل کا سربراہ سید اکبر شاہ زندہ ہوتا تو 1857ءکی جنگ کا نقشہ
کچھ اور ہوتا۔1863ءمیں اخوند صاحب سوات (سیدو بابا) نے انگریزوں کے خلاف
جہاد کا اعلان کیا ، کونڑ،باجوڑ، دیر ، جندول ، بونیر اور سوات کے
لشکراخوان صاحب کے جھنڈے تلے جمع ہوگر انگریزوں سے امبیلہ کے مقام پر خون
ریز جنگ ہوئی ، جنگ کے بعد انگریز امبیلہ سے نامراد چلا گیا یہ جنگ امبیلہ
جنگ 1863ءکے نام سے مشہور ہے۔12جنوری1877ءمیں سیدو بابا نے داعی اجل کو
لبیک کہا آپ کو سیدو شریف میں سپرد خاک کیا گیا۔
سیدو بابا کے بعد ان کے دو بیٹوں عبدالمان اور عبدالخالق جو نواب دیر کے
ساتھ مقضع تالاش میں ایک جنگ کے سلسلے میں مشغول تھے ان میں اطلاع ملنے پر
عبدالمان نے حصول اقتدار کی کوشش کی لیکن انھیں حسب منشاء کامیابی نہیں مل
سکی جبکہ دوسری بیٹے میاں عبدالخالق کو بروقت اطلاع نہیں مل سکی عبدالمنان
کے برعکس میاں عبدالخالق نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کے
دلوں پر قبضہ کرلیا اور علاقہ بھر میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی سلسلے میں
دورے کئے۔بڑی تعداد میں شیوخ اور مریدین ان کے گرد جمع ہوگئے جس سے انھیں
مذہبی اقتدار حاصل ہوگیا ۔حضرت اخوند کی وفات کے دس سال بعد ان کے بڑے بیٹے
عبدالمنان جبکہ1892ءمیں عبدالخالق بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
میاں گل کی وفات کے بعد ان کے دو کمسن بیٹے میاں گل عبد الودود اور میاں گل
شرین جان کو جانشین تسلیم کرلیا لیکن وقت کے ساتھ عبدالمنان کے بیٹوں نے
اپنی اپنی منظم جماعتوں سے حالات کشیدہ ترکردئے اور1904ءمیں ایک بھائی گولی
کا نشانہ بنا اور دورا بھائی میاں گل عبدالودود کا نشانہ بنا ۔دونوں بھائی
میاں گل عبدالودود اور میاں گل شرین جان نے اتفاق کے ساتھ جائیداد تقسیم
کرلی لیکن بعد میں ان کے درمیان بھی جنگ شروع ہوگئی اور دونوں بھائی قمبر
کے مقام پر چھ ماہ تک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے۔
1908ءمیں نواب دیر نے سوات پر حملہ کرکے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا یہ
جنگ سوات میں مقیم دو قبیلوں نیک پی خیل اور شموز میں اختلافات کی بناءپر
رونما ہوئی ، کمزور پارٹی نے نواب دیر سے امداد طلب کی تھی جس سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے اس نے لشکر کشی کرکے قبضہ کرلیا۔ لیکن جلد ہی سوات کے باشندوں
کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انھوں نے خواہ مخواہ اپنے گھریلو جھگڑے میں
نواب دیر کو دعوت دیکر خود ہی اپنی غلامی کی تدبیر کی ۔کچھ عرصہ گذرنے کے
بعد سنڈاکئی ملا نامی شخص جو انگریزوں کے صف آرا تھا اس کی سرکردگی میں جلد
اپنے تمام مقبوضہ علاقے وا گذار کرالئے۔
آئے دن کے لڑائی جھگڑوں اور نواب دیر کی فوجوں کی لوٹ مار سے تنگ آکر
خوانین سوات کے مختلف قبائل کو ایک ریاست کی شکل دینے پر سنڈاکئی ملا کے
اہم کردار کی وجہ سے ریاست کی شکل دینے پر اتفاق کرلیا گیا۔ تاآنکہ1914ءمیں
سید عبدالجبار شاہ کو ریاست سوات کی باگ دوڑ تھما دی گئی،موضع کو دارلخلافہ
بنایا ، عشر وصول کا طریقہ رائج کیا ، تنخواہ دار فوج کا اہتمام اور لوگوں
کے مقدمات نبٹانے کےلئے قاضی کورٹس قائم کرکے قلیل عرصے میں ایک منظم ریاست
کی شکل دے دی ، سنڈاکئی ملا کو ریاست کا قاضی القضاة بنایا گیا اور انھوں
نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کرکے جنگ آزادی شروع کردی۔ نواب دیر
نے1916ءمیں انگریزوں کی ایما پر سوات پر حملہ کیا لیکن سید عبدالجبار نے
دیر کے نواب کو بزور شمشیر مغلوب کرلیا دو سال حکمرانی کے بعد سید عبدلجبار
کے بارے میں قادیانی ہونے کی افواہ پھیلی سنڈاکئی ملا اور علما کے وفد نے
تحقیق کےلئے ان سے ملا اور انھوں نے قادیانی منسلک ہونے کا اعتراف کرلیا۔
جس کے بعدخوانین کے اجلاس میں متفقہ طور پر انھیں معزول کرکے سوات چھوڑنے
کا مشورہ دیا گیا جیسے کسی لیت و لعل کے بغیر جرگہ کا فیصلہ تسلیم کرلیا
اور انھیں نہایت احترام کے بعد ستھانہ واپس پہنچا دیا گیا ۔
1917ءمیں حضرت عبد الغفور اخوند صاحب(سیدو بابا) کے پوتے میاں گل عبد
الودود (المعروف بادشاہ صاحب) کے نام پر جرگہ میں اتفاق کرلیا گیا ۔ اس وقت
گل شہزادہ عبدالودود چک درہ کے قریب موضع دربار میںجلا وطنی کی زندگی گذار
رہے تھے علما ءکے وفد نے سنڈاکئی ملا کی کوششوں سے متفقہ فیصلے سے انھیں
آگاہ کرکے سربراہ ریاست کا منصب سنبھلانے کا کہا جس پر انھوں نے راضی مندی
ظاہر کرکے نے ایک منظم حکومت کی بنیاد ڈالی۔جس نے اپنے ارتقائی مراحل طے
کرتے ہوئے ایک جدید فلاحی ریاست کی شکل اختیار کی۔اپنے جان نثار دوست حصرت
علی خان کو وزیر بنا لیا۔ معمولی تعلیم کے باوجود خوانین سوات سے کامیاب
معاملات طے کرنے اور ان کی عزت و احترام میں اپنی کامیاب ڈپلومیسی سے تمام
مزاحمتی قوتوں کا قلع قمع کردیا اور تھوڑے عرصے بد امن اور منتشر ریاست میں
مکمل امن ا مان قائم کردیا۔1918ءاور 1919کی جنگوں اور نواب دیر کی انگریزوں
کی شازشوں کی بناءپر سوات کے باشندے جو انگریزوں کے دست نگر تھے انھوں نے
بحالت مجبوری علاقہ ادین زئی جو در حقیقت ریاست دیر کا ہی حصہ تھا 1922میں
نواب دیر کو واپس کردیا۔
1923ءمیں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) نے بونیر ، بحرین اور چکیسر پر
قبضہ کرکے اسی سال اپنے فرزند میاں گل محمد عبدالحق جہان زیب کو اپناولی
عہد مقرر کردیا۔مارچ1926ءمیں حکومت انگلشیہ نے میاں گل عبدالودود(بادشاہ
صاحب) کو والئی سوات تسلیم کرلیا3مئی 1926ءکو چیف کمشنر صوبہ سرحد نے ایک
بڑی تقریب منعقد کی جس میں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) کے والئی سوات
کا اعلان کرکے دس ہزار روپے سالانہ الاﺅنس مقرر کیا۔اکتوبر1926ءمیں
وائسرائے ہند نے ملاکنڈ ایجنسی کا دورہ کیا تو پہلی باروالئی سوات کو
ملاقات کا موقع ملا اور اسی سال اپریل میں وائسرئے ہند نے سوات میں سیدو
شریف کے مقام پر ایک تقریب میں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) کو کے۔بی۔ای
کا خطاب دیا۔ اس موقع پر لقب کا مسئلہ ہوا تو میاں گل عبدالودود(بادشاہ
صاحب) نے واضح کیا کہ قوم نے اسے بادشاہ صاحب کا خطاب دیا ہے اس لئے وہ
کوئی لقب پسند نہیں کرسکتے جو اس مذکورہ لقب کے وقار پر اثر انداز
ہوسکے۔انگریز بادشاہ ہزمجسٹی کا خطاب اپنے آئین کے تحت تو نہیں دے سکتا تھا
البتہ لفظی تغیر و تبدل سے "بادشاہ "کے بجائے رولر(Ruler) یعنی حکمران یا
والئی کا لقب تجویز ہوا۔ چنانچہ سرکاری کاغزات اور عام بول چال میں بادشاہ
صاحب" والئی سوات" پکارے جانے لگے۔
1926ءمیں ریاست کے تسلیم کرلئے جانے کے بعد بادشاہ ساحب نے ریاست کو مزید
امن و وسعت دینے کی کوشش کی اور کوہستان کو جنگ کے بعد ریاست سوات میں شامل
کرلیا،1931میں ریاست سوات میں صدیوں سے رائج تقسیم اراضیات (ویش) کا جو
دستور چلا آرہا تھا اسے موقوف کرکے ریاست سوات کی سرزمین پر جہاں جہاں بھی
لوگ قابض تھے ان کو ان کی اراضی کا مالک تصور کیا گیا۔15مئی1933ءمیں انکے
فرزند میاں گل محمد عبدالحق جہان زیب کو بھی بالاآخر حکومت انگلشیہ نے ولی
عہد تسلیم کرلیا۔
1947میں واد اور کالام کے باشندوں کی سوات کی روز افزوں ترقی کو دیکھتے
ہوئے الحاق کی درخواست پر ریاست میں شامل کرلیا۔ لیکن حکومت پاکستان نے اسے
ریاست سوات میں شامل کرنے کے بجائے اسے قبائلی علاقہ کا درجہ دے دیا اور اس
کے نظم و نسق کی نگرانی کےلئے والئی سوات کو اس کا نگران مقرر کیا۔1947ہی
میں پاکستان بننے کے بعد ریاست سوات کا پاکستان سے الحاق کردیاگیا
،پاکستانی ریاستوں کے مرکز پاکستان سے الحاق کے سلسلہ میں ریا ست سوات کو
اولیت کا فخر حاصل رہا اور اعلان الحاق کے ساتھ والئی سوات نے انگریزوں سے
ملنے والے وظیفہ سے دست برداری کے اعلان کے ساتھ ایک لڑاکا جہاز بھی خرید
کر حکومت پاکستان کی نذر کیا۔
ایک مستقل اور پائیدار ریاست کو ترقی کی جانب گامزن کرکے بادشاہ صاحب نے
حکو مت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور عنان سلطنت شہزادہ محمد عبدالحق
جہانزیب کو سونپ دئے۔12دسمبر1949کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان مع پنی
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے سیدو شریف کی باوقار تقریب میں ولی عہد جہانزیب
کے والئی سوات ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا۔1969ءمیں پاکستان کی دیگر ریاستوں
کی طرح ریاست سوات بھی پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے شامل کی گئی اور
پہلی دفعہ سوات میں ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل دیگر سرکاری اہل
کاروں کی تقرری عمل میں لائی گئی۔
ریاست کا پاکستان میں اسغام کے بعد عام لوگوں کا خیال تھا کہ اب سوات ایک
ضلع کے طور پر تیز رفتار ترقی کرکے ایک نئے دور میں داخل ہوگا اور گوناگوں
مسائل کے حل کےساتھ عوام کو ریاستی دور سے بڑھ کر امن و امان حاصل ہوگا
لیکن ادغام کے بعد یہاں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے اور اہل
سوات پر ایسا غیر منصفانہ نظام مسلط کردیا گیا جس میں عوامی زندگی پہلے سے
حاصل شدہ خوشیوں سے بھی محروم ہوگئی۔
ریاستی دور میں شخصی نظام حکومت کی معروف خرابیوں کے باوجود لوگ سوات کو
سواتیوں کےلئے سمجھتے تھے اور خود کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے شہری
سمجھتے تھے کیونکہ حکومتی مشنری کے تما م عہدے دار اور اہل کار شناسا تھے
ان کابرتاﺅ لوگوں سےشریفانہ اور اپنائیت کا مظہر تھا لیکن ریاست کے ادغام
کے بعد لوگوں کو زمین و آسمان بدلتے ہوئے محسوس ہونے لگے ، گویا انھیں کسی
نو آبادیاتی نظام سے واسطہ پڑ گیا ہو اور وہ اپنے علاقے میں اپنے آپ کو
اجنبی سمجھنے لگے۔کیونکہ انسانیت و عزت کا ناپ تول صرف دولت ہی سے ہے
۔دراصل سوات کے لوگوں کےلئے یہ ایک قسم کا جنریشن گیپ ہے کیونکہ سوات کے
لوگ خود بھی سیدھے سادے تھے اور پچاس سے ان کا واسطہ ایک سیدھے سادے اور
مانوس نظام سے چلا آرہا تھا لیکن پیشگی طور پر ان کی ذہنی تیاری کے بغیر
اچانک انھیں ایک ایسے نظام سے دوچار ہونا پڑا جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہے ،
قدم قدم پر ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ان کے مسائل حل ہونے کے
بجائے روز بروز پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں ۔ان حالات میں ان کی پریشانی ایک
قدرتی امر ہے۔
پاکستان میں حقیقی معنوں میں اگر جمہوریت ہوتی ، دیانتدار ، محب وطن اور
قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار لوگ برسر اقتدار ہوتے تو پھر یہاں کے عوام اس
قدر بے چین نہ ہوتے کیونکہ جمہوریت کے مفہوم میں عوام کی فلاح و بہبود اور
خوشحالی کے ساوی مواقع فراہم کرنا مضمر ہے ،لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے ان
تریسٹھ سالوں میں کوئی ایسی قیادت بر سر اقتدار نہیں آئی جس کے دل میں
پاکستانی عوام کےلئے کسی قسم کی خیر خواہی کا جذبہ ہو بلکہ ہر آنے والا کل
، گذرے ہوئے کل سے بدتر ہے ۔ ہر دور میں برسر اقتدار گروہ لوٹ مار میں
سابقہ حکومتوں کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ نظام سے عوام نالاں ہیں کیونکہ پچاس سال تک سیدھے
سادے نظام سے سوات کے عوام مانوس رہ چکے ہیں لیکن رہاستی دور کی سادگی کی
طرح عوام بھی سادہ تھے ،تعلیم کی کمی اور سیاسی شعور کا فقدان تھا ،ہر سال
جو معدودے چند افراد تعلیم سے فارغ ہوجاتے ، والئی سوات انھیں کسی نہ کسی
محکمہ میں کھپا دیتے تھے ،بے روزگاری کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا ، تمام
ملازمتیں سواتیوں کےلئے مخصوص تھیں اور ریاست کی خالی آسامیاں ان کےلئے
کفالت کرتی تھیں ، لیکن ریاست کے صوبے میں ادغام کوتنتالیس سال کا طویل
عرصہ گذر چکا ہے تعلیم یافتہ افراد کی تعداد کہیں بڑھ گئی ہے لیکن انھیں
روزگار نہیں ملتا۔اس کے علاوہ تعلیم اور سیاسی آزادی کی وجہ سے عوام کا
سیای شعور بیدار ہوچکا ہے ، نوجوان سیاسی سر گرمیوں میں حصہ لیتے ہیں ۔
ملا کنڈ ڈویژن بہرحال خیبر پختونخوا کا حسہ ہے پورے ملک میں تعمیر انقلاب
کے بغیر یہاں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ، سوات کے عوام میں اسی طرح
کی احساس محرومیوں کافائدہ اٹھا کر مذہبی جماعتوں نے انھیں اپنی جانب راغب
کیا اور نفاذ شریعت کے نام صوفی امیر محمد اور مولانا فضل اللہ نے سوات کے
عوام پر شدت پسندوں کو مسلط کردیا جسکے بعد ایک ایسی زندگی سے سوات کی عوام
کو گذرنا پڑا جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اپنے گھروں سے
بیدخل ہوکر پاکستان کے طول و عرض میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور دنیا کی
سب سے بڑی ہجرت کی گئی۔ کیمپوں اور بیابانوں میں بے آسرا سوات کی عوام اپنی
زندگیوں سے بے زار ہونے لگے ۔
حکومت کی جانب سے فوجی آپریشن اور شدت پسندوں کی جانب سے دوطرفہ جنگ نے
سواتیوں کی زندگیوں کو اجیرن کردیا۔نئی نسل کا مستقبل داﺅ پر لگ گیا سوات
میں بالاخر ایک بار پھر پاکستان کا پرچم لہرایا تو ان کی واپسی کی راہ
ہموار ہوئی لیکن اب انھیں دوہری تکالیف کا سامنا تھا ۔ فوج کی جانب سے
تلاشیوں ، چیکنگ آپریشن اور شدت پسندوں کی جانب سے کاروائیوں نے پر امن
سواتیوں کو نفسیاتی مریض بنا ڈالا اور آج تک معصوم بچے ، مرد و عورت جنگ کی
تباہ کاریوں سے نہیں نکل سکے۔ انھیں ایسے حالات کا کبھی سامنا نہیں رہا تھا
، مذہبی رجحانات کے تحت اس سے قبل انگریزوں کے خلاف متعدد تحاریک سوات کا
خاصہ رہی ہے لیکن انھیں خود ایسی تکالیف سے نہیں گذرنا پڑا تھا جنکا آج کل
سامنا ہے۔شدت پسندوں اور پاکستانی فوجوں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے والئی
سوات کے دو ر میں قائم اسکولوں کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا اور تاحال ان کی
بحالی کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ سیاحت کی وجہ سے مقامی عوام کا
روزگار وابستہ تھا لیکن ہمیشہ حکومت کی جانب سے دیگر علاقوں میں ترقی دی
گئی اور سوات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ، اور اب ان جنگوں کے بعد سیاحت
تقریبا ختم ہوگئی اور غیر مقامی افراد کا ڈر و خوف کی وجہ سے جنت نظیر
علاقے میں آنا ختم ہوگیا جس کی وجہ سے دیگر مقامی صنعتوں کو بھی ناقابل
تلافی نقصان پہنچا۔
سوات کی عوام کو تعلیم اور جدید نظام زندگی محروم کرنے میں مذہبی رجعت پسند
اور عوامی نیشنل پارٹی کا ہاتھ ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کی کرپٹ حکومت نے
سوات کے عوام کی بحالی کے بجائے اپنے خزانے بھرنے کو ترجیح دی اور سوات کے
عوام کے نام پر اربوں ڈالر پوری دنیا سے حاصل کرکے سوات کے عوام کو تباہی
سے دوچار کردیا۔سوات کے معصوم عوام کی جانوں کا نذرانہ کرپٹ اے این پی
حکومت نے لیکر لاشوں کا سودا کیا اور امن کے نام پر اربوں ڈالر کمائے۔ لیکن
تاریخ گواہ ہے کہ سوات کے عوام نے کسی بھی قسم کے تسلط کو مسلسل برداشت
نہیں کیا۔ اپنی غیور اور جرت مند شعور کی وجہ سے سینکڑوں سال کی تاریخ ثابت
کرتی ہے کہ مکافات عمل بر حق ہے اور سوات کی عوام اپنی تمام تر سادگی کے
باوجود بے وقوف نہیں ہے کہ انھیں اپنے مقاصد کےلئے کوئی بھی استعمال کرتا
رہے گا۔ سوات کی عوام اپنے حقوق کے حصول کے لئے بیدار ہیں اور انھیں کسی
بیرونی امداد کے بغیر اپنی پیروں پر خود کھڑا ہونا ہوگا۔ |