”مولوی“ ”ماسٹر“”میڈیا“

مولوی ماسٹر اور میڈیا کا جب تصور کریں تو ایک بھیانک تصویر نظروں میں گھوم جاتی ہے ۔ ایسا کیوں ہے اس بات پر غور کرنے بیٹھا تو جوں جوں سوچتا گیا دماغ میں اس کی گتھی سلجھتی چلی گئی اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان تینوں طبقات نے معاشرہ کی تعمیر میں وہ ذمہ داری ادا نہیں کی جو کہ ان کا فرض تھا۔ گو اس میں سب لوگ ایک جیسے نہ ہیں کچھ نے بے شک اچھا کردار بھی ادا کیا ہوگا لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے ۔ لوگوں میں ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننے کی اور اس پر تحمل سے جواب دینے کی صلاحیت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جو بات وہ خود کر رہا ہے وہ ہی حتمی ہے اور اس پر کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ مولوی، ماسٹر اور میڈیا تینوں علم کے چشمے ہیں جس سے معاشرہ سیراب ہو کر گل و گلزار ہوتا ہے لیکن آپ دیکھیں مولوی نے معاشرہ کو آپس میں اس طرح تقسیم در تقسیم کرکے رکھ دیا ہے کہ اب ہم ایک امت ہونے پر فخر کرنے کی بجائے مختلف فروعی خانوں میں بٹ چکے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت پر اس کے لاشریک ہونے پر یقین کمزور ترین رہ گیا ہے ۔ کچی پکی روٹی کتابیں پڑھ کر ممبر سنبھالے مولوی اپنے اپنے فتوے فروخت کرنے میں ہمہ تن مشغول ہیں اور اپنے پیروکاروں کے گروہ جن میں تنگ نظری پیدا کرکے دوسرے فرقہ کے خلاف ایک بارُود تیار کیا ہوا ہے اسی طرح دوسرے فرقے نے بھی اسی طرح بارود تیار کرکے پہلے کے خلاف مورچہ بنایا ہوا ہے۔ مساجد فرائض و فضائل کی بجائے مسائل کی بحثوں میں جتا دی گئی ہیں۔ دنیا میں آنے والے چیلنجز پر غور کرنے کی بجائے من گھڑت مسائل میں قوم کو الجھا دیا گیا ہے۔ اسی طرح ”ماسٹر “بھی ابھی تک الف کلے ورگا ”ب“ کُھرلی ورگی سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ٹیوشن مافیا نقل مافیا ان کی سر پرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پرائیویٹ ادارے ان کی ملی بھگت سے تعلیم کو انتہائی مہنگا اور عام آدمی سے دور کرتا جا رہا ہے ۔ غریب اور امیر کی تعلیم میں تفریق نے معاشرہ کو عدم توازن سے دو چار کیا۔ یہی حال میڈیا کا ہے ۔ پرانے زمانے کی ایک مذاہیہ کہانی ہے کہ کسی سکھ نے ایک گاﺅں میں جاکر دکان کھولی اس دکان سے علاقہ کے مولوی صاحب سودا سلف لینا شروع ہوگئے۔ جب سکھ نے مولوی صاحب سے سودے سلف کے پیسے طلب کیے تو مولوی صاحب نے کہا کہ ابھی تمہیں اس گستاخی کا مزہ چکھاتا ہوں اور مسجد جا کر سپیکر کھولا اور اعلان کیا کہ حضرات فلاں سکھ سے سودا نہ خریدیں کیونکہ وہ وہابی ہوگیا ہے ۔ پھر کیا تھا اس کی دکان پر ویرانی چھاگئی۔ پریشان ہو کر سکھ نے مولوی صاحب کے پاس حاضری دی اور اپنی طرف سے گستاخی کی معافی مانگی اور واجبات نہ طلب کرنے کا وعدہ کیا تو مولوی صاحب نے دوبارہ سپیکر کھولا اور اعلان فرمایا کہ حضرات فلاں سکھ سے سودا لیا کریں کیونکہ اب وہ دوبارہ سکھ ہوگیا ہے ۔ یہ تو ایک مذاق کی کہانی ہوگی لیکن آج کا” میڈیا“ جس کی ذمہ داری بھی مولوی اور ماسٹر کی طرح معاشرہ کو اچھے علم سے نوازنا ہے لیکن یہ بھی پرانے مولوی کی نئی تصویر بن کے ابھر رہا ہے ۔ کسی بھی شریف آدمی کی پگڑی ان کی دسترس سے دور نہیں۔ یہ نہ صرف سرکاری دفاتر بلکہ پرائیویٹ کاروباری و دیگر لوگوں کو بلیک میل کرنے کے علاوہ کوئی مثبت عمل کرنے سے معذور نظر آتے ہیں۔ میڈیا کو کمرشل انڈسٹری کے طور پر چلاتے ہیں۔ ایسے ایسے پروگرامز لائے ہیں جو کہ گھر میں بیٹھ کر بچوں کے ساتھ دیکھنا بالکل ممکن نہیں ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ ان پر چلنے والے اشتہارات بھی انتہائی لغو ہوتے ہیں ۔ آج کل ان تینوں طبقات کا مشن ”چنگا کھانا تے مندا بولنا“رہ گیا ہے ۔ اگر معاشرہ کو بچانا ہے تو ان پڑھ، نالائق، لولے ، لنگڑے ، کانے ، کوجھے کو مولوی بنانے کی بجائے ذہین ، ایماندار، پڑھے لکھے ، روشن دماغ بچوں کو دین سے آشنا کرکے اس طبقہ میں داخل کریں۔ اسی طرح ماسٹروں کو ریفریشر کو رس کراکے جدید تقاضوں کے مطابق اس قابل بنائیں کہ وہ مستقبل کے معماروں کو بہتر علم سے روشناس کرا سکیں ۔ رہ گیا میڈیا تو اس کیلئے دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ یہ ایسا طبقہ ہے جو کمرشل ازم کی مد میں ہر طرح کی اخلاقی قدروں کو پھلانگنے میں کسی طرح کی ہچکچاہٹ محسوس کرنے سے عاری ہے۔ میری نظر میں یہ گاﺅں کے پرانے مولوی کی جدید نسل ہے۔ اللہ ہمارے معاشرے کو اس کے بد اثرات سے بچائے اور اچھے اثرات اپنانے کی توفیق دے۔ آمین
سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 61830 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More