احتجاج کے دوران میڈیسن اور اس
سے ملحقہ تمام اداروں کو کھلارکھناچاہیے اس بنیادی اور اہم نقطے کی طرف
کراچی ہول سیل کیمسٹ کونسل نے ایک اجلاس کے ذریعے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے
۔یہ اقدام بھی خوش آئند ہے مگر اب ہمیں اس سے چند قدم آگے بڑھ کر کام کرنا
ہو گا اور بجائے اس کے ہم گورنر ،وزیرِ اعلی سندھ اور سیاسی اور مذہبی
رہنماﺅں سے بیاناتی اپیل کریں ہمیں کچھ مذید عملی اقدام کرنے ہوں گے ۔
احتجاج کسی بھی فرد،قوم کا ایک بنیادی ،اخلاقی،شرعی اور قانونی حق ہے ۔احتجاج
کیوں کیاجاتاہے ؟جی احتجاج تب کیا جاتا ہے کہ جب کسی فردیاقوم کو موجودہ
گورنمنٹ ،نجی ادارے یا کسی شخص سے کوئی تکلیف ہو۔اپنی تکلیف کے ازالے کے
لیے وہ شخص مجبوراً احتجاج کی کمزور بیساکھیوں کا سہارالیتاہے اور پھر یہ
اس کا احتجاج بھی مختلف طریقوں کا ہوتا ہے۔افراد اپنی آزادی وبساط کے مطابق
اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہیں اور کرنا چاہیے بھی ۔ظاہر ہے جب کوئی شخص
اتنے اخلاص اور تمناﺅں کے ساتھ ووٹ جیسی قیمتی چیز اپنے حلقہ کے امیدوار کی
امید پر وارتاہے اور پھر اس کے بعد اگر اسے اپنے متعلقہ ایم این اے یا وزیر
یا گورنمنٹ یاکسی محکمے سے شکایت ہوگی علیٰ ہذا القیاس تو وہ اپنے آخری
آپشن(خیر اب تو اس کے بعد بھی بہت سارے آپشن بن گئے ہیں کسی وقت تک احتجاج
ہی آخری آپشن ہوا کرتا تھا)کو استعمال کرے گا۔
احتجاج کے بے شمار طریقے ہیں۔ایک احتجاج وہ ہے جو پرُ امن ہوتا ہے اُس میں
کسی بھی شہری کی جان ومال کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔املاک بھی محفوظ رہتی
ہیں اور یہ احتجاج بھی مکمل ہوجاتا ہے ۔دوسرا وہ طریقہ احتجاج ہے کہ جس میں
انسان اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھے بغیر سیل رواں کی طرح بہتے چلے جاتے
ہیں چاہے اِس میں کسی مزدور کی دہاڑی جائے،کسی مریض کی جان جائے،کسی کی
خوشی تارتار ہو،کسی کے گھر کا چولہا بجھے،کسی کی نوکری کا مسئلہ بنے،کسی کی
پائی پائی سے جمع شدہ رقم سے خریدی گئی گاڑی شعلوں کی نذر ہوجائے یا اِس سے
بھی بڑھ کر کسی کی جان بھی محفوظ نہ رہے۔،یہ سب دوسری قسم کے احتجاج میں
ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر تعجب و معنی خیز بات یہ ہے کہ شکوہ وشکایت تو آپ
کو وزیر،مشیر،محکمے اور حکومت سے ہویاکسی جماعت سے ہو اور نقصان پہنچے
ہمارے احتجاج سے مزدور کو ،نوکر کو،کسی لاچار ،پریشان کو یا کسی غریب شہری
کو ایسے احتجاج کا مقصد ناقابلِ فہم ہے ۔ ایسے احتجاج سے اُس مریض کا کیا
تعلق ،جو ایمبولینس میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے مگر متعلقہ روڈ اس
احتجاج کی وجہ سے بند ہوتا ہے۔ جو بیچارے دہاڑی لگا کر گھر کا چولہا گرم
اور بمشکل پیٹ کا بھرم رکھتے ہوں ایسے احتجاج سے اُن غریب لوگوں کا کیا
واسطہ ؟
یہ بات تو اخلاقیات کی روح سے بھی اور فطرتی اُصولوں کے لحاظ سے بھی طے ہے
کہ ظلم و زیادتی کسی بھی صورت میں انسانیت کے کسی بھی فرد سے ہو وہ ظلم اور
زیادتی ہی کہلائے گی۔اس زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا بھی ،اخلاقاً،قانوناً
اور شرعاً حق اور اہمیت کی بات ہے ۔اب دیکھنا اور سوچنا یہ ہے کہ اِس حق کو
کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟اگر ہم اِس ظلم کے خلاف احتجاج کے پہلے والے
طریقے پر عمل کرتے ہیں تو صورت حال بہتر ہوتی ہے اور نتائج بھی اُمید
افزاءہوتے ہیں،مگر جب احتجاج کا دوسرا اورپُرتشددراستہ اختیار کیا جاتا ہے
تو پھر یہ وہی بات بن جاتی ہے کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان
سنانے نکلتے ہیں اوراپنا غم کم کرنے کی خاطر دوسرے بے گناﺅںکے لئے بہت ساری
پریشانیوں کا سبب بن جاتے ہیں ۔کسی کے بیان پر برہم تونقصان کسی اورکاکرتے
ہمیں لمحہ بھر بھی نہیں سوچتے کہ کس طرح تنکے تنکے جمع کر کے کسی نے خوشیوں
کا یہ آشیاں سجایا ہو گا جنہیں ہم نے ایک دیاسلائی سے خاکستر بنا دیا ہے !
احتجاج کا یہ طریقہ کار اپنا کر ہم خود بھی تو کسی کے مال کو نقصان پہنچا
رہے ہوتے ہیں ۔کسی کو اُسی قدر تکلیف دے رہے ہوتے ہیں حالانکہ جن کے لیے
احتجاج کیا جارہا ہوتا ہے وہ خود بڑے آرام وسکون کے ساتھ اے ،سی رومز میں
مزے کررہے ہوتے ہیں۔انہیں اِس سے کیا غرض کہ باہر چوکوں،چوراہوں اور سڑکوں
پر کیا ہورہا ہے....؟ہماری نظر میں اپنے حصولِ مطالبات کے لیے احتجاج کرنے
سے پہلے روڈ بلاک کرنے یا جلاﺅ گھیراﺅ سے پہلے اِن لوگوں کے گھروں اور
دفتروں کا رخ کرنا چاہیے،جنہیں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ہم نے خود اسمبلیوں
میں بھیجا ہوتا ہے۔کم از کم ایسا احتجاج ہونا چاہیے تاکہ اِن نام نہاد
جمہوریت کے دعویداروں کو بھی علم ہوکہ ہمیں یہاں تک لے کر آنے والے خود بھی
یہاں تک آسکتے بلکہ خبر گیری بھی کر سکتے ہیں ۔
جہاں حالت ایسی ناگفتہ بہ ہوجائے کہ دن میں درجنوں افراد کے خون سے ہولی
کھیلی جائے اور پتہ بھی نہ چلے تو (جیسا کہ یہ تسلسل سے جاری ہے)مجرمین کے
خلاف حکومتی کاروائی بھی ہوتی ہوئی نظر نہ آئے تو پھر یونہی ہوگا کہ بادشاہ
اپنی خر مستیوں میں مست اور عوام ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوں گے ۔جہاں
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہی سہی ملک میں 37لاکھ افراد انتہائی غریب اور
کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور اور اسمبلی کے اخراجات55ہزار روپے فی
گھنٹہ سے متجاوز اس سب کے باوجود وزیر اعظم سیکٹریٹ کے اخراجات میں
1.39فیصد کا مزیداضافہ ہوا ہو تو وہاں ایسے حالات پر صرف احتجاج ہی کیا
جاسکتا ہے یا اپنی قسمت پر ماتم!ووٹ لینے کے بعد کانوں میں رﺅئی کے پھاپے
ٹھونس لینے والے اصحاب ِاقتدار تک بجز احتجاج کے آواز پہچانے کا کوئی راستہ
نہیں ہے۔اگر آپ انہیں تحریراً اپنے مسائل سے آگاہ کرنا چاہیں گے بھی تو اُن
کے درباری جو دن رات اُن کی خوشامد کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔آپ کا مکتوب
اُن تک پہنچنے سے قبل ہی ٹھکانے لگادیں گے۔اگر آپ اُن کو کال کریں تو اُن
کا پرسنل اسسٹنٹ فون ریسیو کرنے کے بعد آپ سے پوچھے گا کہ آپ کا اُن سے کام
کا پوچھنے کے بعد ہیں یا نہیں کا جواب دے گا۔
احتجاج کوئی نئی چیز نہیں۔جمہوری روایات کے حامل معاشروں میں بھی بعض مواقع
ایسے آتے ہیں جب صدائے احتجاج بلند کرنا ناگریز ہوجاتا ہے لیکن وہاں کوئی
بھی شخص جذبات کی رو میں بہہ کر اعصاب کو بے لگام نہیں چھوڑ دیتااور نہ ہی
وہاں احتجاج کسی توڑ پھوڑ اور تخریب کاری کا سبب بنتا ہے۔وہ مہذب انداز میں
اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں اور انتہائی سلیقہ مندی اور معاملہ فہمی سے
حکومت پر دباﺅ ڈال کر اپنے جائز حقوق اور مطالبات منواتے ہیں۔حکومت اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں سے دست بدستہ عرض ہے کہ اپنے منصب اور پیشہ
ورانہ ذمہ داریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود اورتعمیر وترقی
کے لیے کردار ادا کریں ۔ احتجاج کرنے والی عوام کو چاہیے کہ دوران احتجاج
کسی بھی ایسے فعل سے اجتناب کریں جس سے ریاست کی املاک یاعام شہریوں کو کسی
بھی قسم کے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ گوکہ احتجاج کے وقت اپنے اعصاب پر
کنٹرول رکھنا مشکل ہوتاہے لیکن عقل مند لوگ عام حالات میںبھی معاشرے کے لیے
تعمیری کردارکرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں
احتجاج بھی مثبت جہت میں ارتقا کا باعث بنتا ہے۔سلیم العقل کبھی بھی احتجاج
کی باز گشت کے لیے غیر قانونی ذرائع کواستعمال نہیں کرتا نہ ہی قانون کو
ہاتھ میں لیتا ہے ۔ ہمیشہ منفی سرگرمیاں نادان یا کسی کے منفی ایجنڈے کے
نقشے میںرنگ بھرنے والے عناصر کرتے ہیںشاید ایسے ہی لمحات کو دیکھ کر شاعر
نے لکھاتھا کہ
....ع
وطن کی فکر کرنا داں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پر
امید کی جاسکتی ہے کہ کراچی ہول سیل کیمسٹ کونسل کی انتظامیہ بجائے ارباب ِ
اقدار کواپنے بیانات سے متنبہ او راپیل کرنے کے ٹھوس بنیادوں پر ایک قدم
اور آگے بڑھاتے ہوئے تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مدعو کر کے ایک اعلٰی
سطحی اجلاس کرتے ہوئے اور اُن کے درمیان اِس اہم مسئلے کو اجاگر کرے گی
کیوں کی احتجاج جی تمام تر ڈوریں یہیں سے ہلتی ہیں ۔ |