تعلیمی نظام اور ہم

گزشتہ ایک سال سے سیاسی حوالے سے لکھنے کی بدولت میرا قلم بھی سیاسی لیڈر بننے کا اظہار کرتا ہے اور جب کبھی لکھنے کا ارادہ کرکے بیٹھتا ہو تو لکھنا بند کر دیتا ہے اورکچھ لمحوں بعد Restartہوجاتی ہے اس لیے سوچا اب کچھ عوامی رائے عوام کی روزمرہ زندگی پر لکھنے کی کوشش کی جائے اور اس دوران قلم میں پیدا ہونے والے سیاسی جراثیم کا علاج بھی ہو جائے گا۔ دوسرا قارئین جو سارا سال مسائل کا شکار ہوتے ہیں اس کی Pablicityکردیتے ہیں ہوسکتا ہے کوئی عوامی خادم یاسیاسی شہید اس طرف توجہ دیتے ہوئے عوام کی مشکلات میں کمی کر سکے یہاںخاتمہ کا ذکر اس لیے نہیں کیا کیونکہ یہ خود ایک سیاسی نعرہ ہوگا۔

نعرہ سے یاد آیا۔سیاسی زندگی کا اصول ہوتا ہے جو کام کر سکتے ہو اس کی صرف حامی بھرو اورجو کام نہیں کرنا اس کی حامی کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے وعدہ بھی کرو۔تاکہ شکایت گزار گھر جاکر آرام سے سوسکے اور دوست احباب میں بڑے غرور وتکبرسے کہتا رہے کر فلاں سیاستدان (ویسے آجکل صحافی حضرات بھی یہ کام کرتے ہیں)نے وعدہ کیا ہے کہ میرا مسئلہ جڑسے ختم کرکے چین کا سانس لوگا، کیونکہ تم میرے ووٹر ہو اور الیکشن کے دوران دن رات میرے مخالفین کو گالی گلوچ دیتے رہتے ہو۔

قارئین جیساکہ آپ جانتے ہیں پچھلے ماہ کے آخر میں سٹوڈنٹ کے اعمال نامہ پیش کیے جاتے رہے ہیں مجھ سے زیادہ اچھی طرح آپ جانتے ہیں کہ کس ادارے کا رزلٹ اچھاآیااور کس کا خراب آ یا۔رزلٹ کی تیاری اور پروگریس رپورٹ کا ذکر آئیندہ کسی کالم میں کروں گاابھی تک مکمل معلومات میسر نہیں آسکی اور پیشہ کے آغاز میں انکوائریوں کا سامنے کرنے کا ابھی ارادہ نہیں ہے۔

قارئین خیر جوتھوڑی بہت معلومات میسر ہیں وہ آپ کے سامنے پیش کرنے کی زحمت کرتا ہوں۔پہلی خبر ہے کہ سنٹرل جیل سرینگر کے ایک قیدی نے گریجویشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایل ایل بی میں داخلہ لیا ہے۔ دوسری خبر کے مطابق نئی دہلی کی پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا،وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ اپنی بیٹی سے مندر کے سامنے بھیک منگوا رہا تھا۔ آپ یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ پاکستانی گداگروں کی طرح وہ اپنی بیٹی سے بھیک منگوارہاتھا۔بلکہ اس کی بیٹی نے سالانہ امتحان میں کم نمبر حاصل کیے تھے اور اس کے والد نے اسے سزا دی تھی تاکہ وہ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگا سکے اور مستقبل میں اچھی نوکری کے ذریعے بھیک کی بجائے اپنی محنت سے کماسکے۔

تیسری خبر ما ضی میں اسلام کا قلعہ رہنے والے ملک ترکی سے آئی جہاں پر اب 10سال کی عمر کے بچہ کو مدارس میں داخل کروایا جاسکتا ہے اور وہ اسلامی تعیلمات کا درس حاصل کر سکتا ہے۔یہ کوئی عام سی بات نہ سمجھے اس بل کو پاس کروانے کیلئے حکومت واپوزیشن کو الزامات کی جنگ کرنی پڑی ہے تب جا کر بچوں کو حقوق میسر آئے ہیں۔قارئین یہ تو تھے دوسرے ممالک کے رزلٹ،اب پاکستان کے رزلٹ کی ایک جھلک پیش کروں گا۔امید ہے آپ حیران نہیں ہونگے کہ پاکستان تعلیم میں اتنا آگے کیسے نکل گیا ہے؟۔

جی اطلاعات آئی ہے کہ ضلع خانیوال نے رزلٹ میں ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی ۔اب پتہ تو بعد میں لگے گا کہ وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں کہ اس کا کوئی دوست ضلع اس سے سبقت لے گیا ہے ۔آخر کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟بتاتا ہوں ضلع کے ہیڈماسٹروں نے اتفاق رائے سے 8سکول میں مڈل کا کوئی سٹوڈنٹ پاس نہیں ہونے دیا اور صفر رزلٹ ای-ڈی-او صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کاشرف حاصل کیا۔

قارئین بے شک موجودہ حالات میں پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر گئی ہیں، Facebook, Twitter, Googleو دیگر ذرائع سے چند لمحات میں ایک Information پوری دنیا میں Shareہوجاتی ہیں۔ لیکن لمحہ فکریہ ہے کہ موجودہ حالات میں بھی پاکستان کی آبادی کا بیشتر حصہ کمپیوٹر کے استعمال سے آشنا ہونا تو دور کی بات ،اپنا نام پتہ بھی لکھنے کی قابلیت سے محروم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق عوام کی اس کمزوری سےCorrupt افراد فائدہ اٹھاتے ہیں۔

تعلیم کی ناکامی کا اصل ذمہ دار پاکستانی بیوروکریسی ہیں؟ جن کے بچے بیرونی ممالک میں ACروم میں فوم والے کرسیوں پر بیٹھ کر کمپیوٹر کے ذریعے تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ ان بیچاروں کو کیا پتہ پاکستان کے معمار کس طرح پانچ کلو وزنی بستہshoulder پر ڈال کر اور راستہ میں جگہ جگہ لگے ہوئے سیاسی لیڈروں کے لگے ہوئےBill Boards, Poster پڑتے جاتے ہیں ۔ دوسری طرف نجی سکولوں کا Business دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا جارہاہے، بیشتر سیاسی لیڈربھی تعلیم کے کاروبار میں دلچسپی رکھتے نظر آتے ہیں۔

ٓآئیندہ آنے والے دنوں میں اگر پالیسی سازوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تووہ دن دور نہیں جب غریب عوام کے بچے سکولوں میں داخلہ لینے کی بجائے ورکشاپ کا رخ کرتے نظر آئیں گے۔ بقول اسٹنٹ کمیشنر میر پورمحمد ایوب بچوں کو صرف سکولوں میں بھیج دینے سے تعلیم حاصل نہیں کرائی جاسکتی بلکہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی کردار سازی کے علاوہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھے کیونکہ بچوں کو چند گھنٹے سکولوں میں تعلیم کیلئے دیئے جاتے ہیں ۔
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 81483 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.