بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوا ل:
موت کیا ہے اور مرنے کے بعد روح کہاں رہتی ہے؟
جوا ب: موت یہ ہے کہ روح بدن سے نکل جائے۔ لیکن روح نکل کر مٹ نہیں جاتی ہے
بلکہ عالم برزخ میں رہتی ہے۔ اور ایمان و عمل کے اعتبار سے ہر ایک روح
کےلئے الگ جگہ مقرر ہے اور قیامت آنے تک وہیں رہے گی۔ کسی کی جگہ عرش کے
نیچے ہے اور کسی کی اعلیٰ علیین میں اور کسی کی بئر زم زم کے پاس کسی کی
جگہ اس کی قبر ہے اور بدکاروں کی روح قید رہتی ہے۔
بہرحال روح مرتی یا مٹتی نہیں بلکہ باقی رہتی ہے اور جس حال میں بھی ہو اور
جہاں کہیں بھی ہو اپنے بدن سے ایک طرح کا لگاﺅ رکھتی ہے بدن کی تکلیف سے
اسے بھی تکلیف ہوتی ہے اور بدن کے آرام سے آرام پاتی ہے جو کوئی قبر پر آئے
اسے دیکھتی پہچانتی اور اسکی بات سنتی ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں آیا ہے۔
اور تو اور اس سلسلہ میں غیر مسلم مغربی محقق ملبور کرسٹوفر کی کتاب Search
for the soul صفحہ 72تا 74کا خلاصہ ملاحظہ کریں:
امریکن ڈاکٹر اے ایس ولٹز جو مرنے کے آدھا گھنٹہ بعد زندہ ہوگئے تھے وہ
بتاتے ہیں کہ میں بے ہوش ہوگیا، مجھے احساس ہوا کہ میرا نفس جسم کو چھوڑ
رہا ہے، پھر میرا نفس جسم سے سر کے راستے علیحدہ ہوگیا، نفس اور جسم کے
درمیان ایک ربڑ نما نہایت باریک ڈوری تھی جو کھلتی جاتی تھی لیکن ٹوٹنے
نہیں پاتی تھی، فرشتوں نے مجھے خوش آمدید نہیں کہا، بعد ازاں میرا نفس جو
کہ میرے جسم کی صورت اختیار کر چکا تھا اسے کسی نے اوپر گہرے سیاہ بادلوں
میں اٹھا لیا، آگ اور اسکے شعلے ڈرا رہے تھے اور بہت زیادہ خوفناک تھے، اسی
وقت مجھے واپسی کی اجازت ملی، ایک سیاہ بادل نے مجھے ڈھانپ لیا۔ پھر جب
مجھے ہوش آیا تو میں اپنے بستر پر تھا اور لوگ کہ رہے تھے کہ ڈاکٹر مر چکا
ہے۔
جبکہ ”برمنگھم ہسپتال برطانیہ کے ڈاکٹر پرسیال نے بتایا کہ ہم نے بہت کوشش
کی لیکن جان پکرنگ کی جان نہ بچا سکے اور وہ فوت ہوگیا۔ لیکن حیرانی اس وقت
ہوئی جب کچھ منٹ بعد فوت ہو جانے والے جان پکرنگ نے آنکھیں کھول دیں۔ پھر
اس نے بتایا کہ مجھے مرنے کے بعد ایک بہت بڑی بلڈنگ میں پہنچادیا گیا وہاں
مجھے پہلے سے موجود کچھ لوگ نظر آئے میں نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا جو
ہمارے شہر کا پوسٹ مین تھا اور جسے مرے ہوئے 5سال ہوگئے تھے، اس پر مجھے
یقین ہوگیا کہ میں مر گیا ہوں، اس کے بعد میں فوت شدہ بیوی کو تلاش کرنے
لگا لیکن مجھے فورا واپس بھیج دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد میں اچھی زندگی
گزارتا ہوں تاکہ مرنے کے بعد اچھا مقام مل سکے۔
سوال:
خیار شرط کیا ہے، اور یہ خیار کس کےلئے ہوتا؟
جواب: فتاویٰ عالمگیری کی کتاب البیوع چھٹے باب میں ہے کہ ”بیچنے والے اور
خریدنے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیع کرتے وقت یہ شرط رکھ لیں کہ اگر
ناپسند ہوئی تو یہ بیع ختم کی جاسکتی ہے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے ختم
کرسکتا ہے۔ اسے خیار شرط کہتے ہیں۔“ اس کے جائز ہونے کی دلیل صحیح سنن ابن
ماجہ کی کتاب الاحکام جز 2، صفحہ 338 کی حدیث پاک ہے جس میں مروی ہے کہ نبی
ﷺ نے ایک شخص کو خیار شرط کی اجازت دی جو اکثر اوقات بیع میں نقصان کرلیا
کرتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ اختیار بسا اوقات بیچنے والے اور خریدنے والے کےلئے باعث
فائدہ ثابت ہوجاتا ہے، کیونکہ کبھی بائع (بیچنے والا)اپنی ناواقفی سے کم
قیمت میں چیز بیچ دیتا ہے یا مشتری (خریدنے والا) اپنی نادانی سے زیادہ
قیمت پر خرید لیتا ہے۔ یا پھر اسے اس چیز کی صحیح شناخت نہیں ہوپاتی لہذا
ضرورت ہے کہ کسی دوسرے فرد سے مشورہ کرنے کے بعد صحیح رائے قائم کرے۔ اور
مجبوری یہ بھی ہے کہ اگر فورا نہ خریدی تو چیز جاتی رہے گی یا بیچنے والے
کا اندیشہ ہے کہ گاہک ہاتھ سے نکل جائے گا تو ایسی صورتوں میں شریعت
اسلامیہ نے دونوں کو یہ موقع دیا ہے کہ غور کرلیں اگر نا منظور ہو تو خیار
کی بنا پر بیع کو ختم کردیں۔
یاد رکھیں کہ خیار شرط کی زیادہ سے زیادہ مدت 3دن ہے۔ کما فی حدیث سنن ابن
ماجہ۔
سوال:
اس دنیا میں غوث اعظم، غوث، قطب، ابدال، اوتاد وغیرہ کا کیا کردار ہے ؟
جواب: کتب اسلامیہ میں ہے ”علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
ابدال کی خبر احادیث میں ہے اور انکا وجود درجہ یقین تک پہنچا ہے۔ اسی طرح
علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سب سے واضح روایت ابدال کے بارے میں
وہ ہے جو امام احمد ابن عباد نے شریخ ابن عبید سے روایت کی ہے کہ حضرت علی
کرم وجہہ اللہ سے مروی ہے کہ اہل شام پر لعنت نہ کرو کیونکہ ان میں چالیس
ابدال رہتے ہیں۔ ان کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور ان سے دین کو مدد ملتی
ہے۔“ جبکہ امام سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم وجہہ اللہ کی روایت جو
امام احمد نے نقل کی ہے اس کی سند دس طریقوں سے زیادی ملتی ہے۔ علامہ خطیب
نے کتاب التاریخ البغداد سے نقل کی ہے کہ نقباء100 ہوتے ہی اور نجباء70،
ابدال 40 اور 7 اوتاد ہوتے ہیں، قطب زمین میں تین اور قطب الاقطاب یا غوث
ایک ہوتا ہے۔ غوث ان سب کا سردار ہوتا ہے اور حضور اکرمﷺ کا باطنی جانشین
یا خلیفہ ہوتا ہے۔
حضرت ابو نعیم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور
اکرمﷺ نے فرمایا کہ روئے زمین پر اللہ کے ایسے خاص بندے ہوتے ہیں جن کی دعا
و برکت سے اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحم فرماتا ہے، آسمان سے بارش اور زمین سے
فصل وغیرہ انکی دعا سے اگتی ہے۔ یہ لوگ دنیا کے لیے باعث امن ہیں۔ امام
احمد ابن عباد صامت سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائناتﷺ نے فرمایا کہ میری
امت میں قیامت تک چالیس آدمی ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے زمین و آسمان کا
نظام قائم رہےگا۔
سوا ل:
حیوانات کے جھوٹے کا حکم کیا ہے؟ نیز ان کے پسینے کے بارے میں بھی شرعی حکم
سے آگاہ کریں؟
جوا ب: فقہاءاسلام جھوٹے پانی اور پسینہ کو چار قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:
1۔ وہ جانور جن کا جھوٹا اور پسینہ ناپاک ہے، وہ یہ ہیں: سور، کتا، شیر،
چیتا، بھیڑیا، گیڈر، اور دیگر درندے(یعنی چیر پھاڑ کرنے والے چوپائے)۔ اسی
طرح اگر بلی نے چوہا کھا کر فورا پانی والے برتن میں منہ ڈالا تو وہ پانی
ناپاک ہوگا، اور اگر آدمی نے شراب پی کر فورا پانی پیا تو یہ پانی بھی نجس
ہوجائےگا۔
2۔ وہ جانور جن کا جھوٹا بھی مکروہ وناپسند ہے اور جن کا پسینہ اگر ہو تو
وہ بھی مکروہ وناپسند ہے، وہ یہ ہیں: اڑنے والے شکاری جانور جیسے شکرا،
باز، چیل، وغیرہ۔ ایسے ہی گھر میں رہنے والے جانور جیسے بلی (بشرطیکہ فوری
چوہا نہ کھایا ہو) چوہا، چھپکلی۔ یونہی غلاظت کھانے والی گائے کا غلاظت
کھانے کے بعد، یا غلاظت پر منہ مارنے والی مرغی کا جھوٹا۔
3۔ وہ جن کا جھوٹا اور پسےنہ عموما ناپاک نہیں۔ آدمی، وہ جانور جن کا گوشت
کھایا جاتا ہے، ، اور یونہی پانی میں رہنے والے جانور۔
4۔ وہ جانور جن کا جھوٹا و پیسینہ مشکوک ہے: جیسے گدھا اور خچر۔
تفصیلات کےلئے دیکھئے: ھدایہ کتاب الطہارة، فصل فی الاسار، صفحہ: 44، 45۔ |