میری کوئی خواہش ،آرزو،تمنا،چاہت
ہی نہیں ۔میرے کوئی خاص مشغلے بھی نہیں ۔مرد میں بھی ہوں انسان مجھے بھی
کہا جاتا ہے ۔گوشت او ر ہڈیاں میری بھی ہیں ۔میرا بھی دل ہے دماغ ہے ۔چاہتیں
بھی دل سے اُٹھتیں ہیں سوچ بھی دماغ سے لیتا ہوں کہ آرزوئیں،تمنائیں ،خواہشیں
،چاہتیں تو بادشاہوں کی رہ جاتی ہیں مگر ضرورت تو مجھ ایسے مزدور کی بھی
پوری ہو جاتی ہے ۔بس یہی نقطہ اپنے دماغ میں رکھ کر اپنی صبح کا آغاز رب کی
تسبیح سے کرتا ہوں ۔بس پھر یہ صبح ہوتی ہے اور میرے کام کا آغاز ہوتا ہے ۔میں
ہوتا ہوں میرا کام ،پیشہ اور دھنداہوتا ہے ۔شہر ہے ہڑتالیں بھی ہوتی ہیں ۔حالات
ہیں خراب بھی ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی موسم بھی اپنی طُغیانی لے آتا ہے ۔اِن
ہڑتالوں ، خراب حالاتوں، بادلوں یا بارشوں سے میں اپنے کام سے ضرور نکلتا
ہوں ۔کبھی کامیاب لوٹتاہوں کبھی ناکامی بھی اپنی فتح پر مسکرا کررنجیدہ کر
دیتی ہے ۔مگر میں اُس سے بھی دبتا نہیں، سنجیدہ ہو جاتاہوں اور آج کے برے
دن سے نجات کی تدبیر کرتے ہوئے آنے والے کل کے لئے اپنے آپ کو تیا ر کرتا
ہوں ۔میں تو واقف ہو ہی گیا مگر میری اولاد کو کیا پتہ ہڑتال کیا ہوتی ہے
؟۔حالات اور خرابی کا مطلب بھی وہ نہیں سمجھتے ۔وہ ایک ہی چیز جانتے ہیں کہ
میں کچھ لاﺅں گا تو وہ کھائیں گے اور یہی وہ نقطہ ہے جو مجھے گرمی ،سردی
اور حالات کی نزاکت سے مبرا رکھتاہے ۔میں چھوٹا سا تھا تو مزدوری شروع کی
دن گزرا اور رات آئی یوں کئی ماہ سالوں کے نظر ہوئے ۔میں مزدور تھا مزدوری
کرتا رہا ۔بہت سارے سورج میرے لئے مشکلات کے بھی طلوع ہوئے مگر مشکلوں کے
سورج بھی غروب ہو ہی گئے میں بھی اپنی مزدوری میں لگا رہا ۔
اچھے برے لوگوں سے واسطہ رہا ۔
کبھی تو میں رویا اورکبھی ہنستا رہا۔
تب یوں میرا گھر تھا کہ بستا رہا ۔
غربتوں کا مینہ بھی مسلسل برستا رہا ۔
میں تھکا نہ غربت ہاری ۔
قسمت تھی اپنی بیچاری ۔
کبھی کبھی تو یوں بھی ہواکہ مسلسل میں بیمار بھی ہوا ۔
مگر پھر بھی میں مزدور تھا۔
میرا کیا اپنا قصور تھا ۔
میں بھی تو آخر مجبور تھا ۔
جون میں جب دھوپ آتی تو جل اُٹھتا تھا پھر کبھی سائے آتے اور آکر پیار سے
سر پر کھڑے ہو جاتے مگر پھر بھی میں مزدورتھا ۔حلال کے تر نوالے کے لئے
گرمی سردی سے دور تھا۔پسینہ آتابدبو اُٹھتی مگر میرا دل بھی تھا کہ مطمئن
رہتا تھا کیوں کہ میرے گھر میں ایک چاند سا بچہ تھا جسے میں حلال کھلانا
چاہتا تھا ۔بس یہی ایک لگن تھی جو مجھے لگی تھی ۔اِس سبق کو خوب یاد رکھا
تھا ۔دن گزارتا تھا تو رات آلیتی تھی ۔جس کروٹ لیٹتا تھا وہی بیداری میں
ساتھ ہوتی تھی ۔یوں زندگی میری بھی گزرتی چلی گئی ۔دن کو تھک جاتا تھا تو
نماز پڑھتا تھااور تھکاوٹ تھی کہ نماز کی برکتوں سے دور ہوجاتی تھی ۔گھر
آتا تھا تو چاند سا بیٹارہی سہی تھکاوٹ بھی دور کر دیتا تھا ۔اب وہ بولنے
بھی لگاتھا اُس کی معصوم سی ابو ابو کی آواز مجھے اپنے سحر میں گرفتا رکھتی
تھی ۔میں اِسے دیکھتا تھا تو مزدور ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ جس
نے مزدور بنایا مگر اِس چاند جیسے بچے کو حرام لقمے سے بچایا تھا یہی میری
وہ دولت تھی جس سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہو تی تھیں ۔
میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ بندہ اللہ کا نا شکرا کیوں بن جاتا ہے ۔تھوڑی
سی تکلیف آتی نہیں مگر شکوے اور شکایات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔اپنی ناکامیوں
کو اللہ میاں کے کھاتے میں ڈال میں دیتے ہیں ۔محنت کے وقت محنت سے جی چرا
لیتے ہیں اور بڑی آسانی سے تقدیر کا لکھا کہہ کر بات دوسری بنا لیتے ہیں ۔کبھی
اِس چیز کی طرف دھیان ہم نے لایا ہی نہیں کہ ہم بھی کسی کے بنائے ہوئے
ہیں۔ہماری نافرمانی اُسے بھی گراں گزرتی ہو گی ۔یہ سب شاید مجھے بھی سمجھ
میں نہ آتا مگر اِس چاند جیسی نعمت ملنے کے بعد احساس ہو ا ،کہ کیا ہو جو
میں مزدور ہوں ۔میں بھی تو انسان ہوں ۔مجھے بھی تو اُس خدانے تخلیق کیا ہے
۔میں مخلوق ہو کر اگراپنے چاند کو حرام نہیں کھلانا چاہتا تو وہ خالق ہو کر
کیسے گوار ا کر لے کہ اُس کی پسندیدہ تخلیق اُس کے سامنے حرام کے لقمے
کھائے اور اُسی پر راضی بھی رہے ۔
اپنے چاند کو اِن مشکلات میں پال کر میری سمجھ میں یہ نقطہ بھی آگیا تھا کہ
بندہ اُس کی مان کر چلے تو باوجود غربت کے راحتیں کیسے ملتی ہیں۔ میں ایک
مزدور تھا اور اِس لئے بھی میں ہر کچے پکے گھر کی ضرورت تھا ۔میں بڑے بڑے
مالداروں کے گھروں میں بھی کام کرتا رہا مگر میں نے انہیں چین سکون کی
زندگی میں نہ دیکھا تھا ۔ہر وقت حرف ِ شکایت اُن کی زبانوں پر رہتا تھا ۔اولاداور
والدین کی ناچاکیاں رہی سہی کسر بھی نکال دیتیں تھیں ۔تب مجھ پر یہ عیاں ہو
چکا تھا کہ مشکلیں آئیں اور صبر کرنا کتنی بڑی نعمت ہے ۔رب کی مان اور سہہ
لینے میں یہ راز بھی مضمر ہے کہ آج میرا چاند میرے سامنے بیٹھتے ہوئے بھی
شرم محسوس کرتا ہے ۔کیا ہوا جو میں مزدور ہوں ۔میں وہی تو مزدور ہوں جس کے
بارے نبی رحمت ﷺ نے فرمایاتھا کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی
اُجرت اُسے دے دی جائے ۔میں ہی تو مزدور ہوں جس کے ہاتھوں پر آپ ﷺ نے بھوسہ
دیا تھا ۔میں غریب ضرور تھا مگر کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا اور
مزدوری ضروری سمجھی ۔محنت کو اپنا شعار بنایا۔میں ڈرتا تھا صلاح الدین
ایوبی ؒ کی طرف منسوب یہ جملہ پڑھ کر کہ جس معاشرے میں مزدور کی تنخواہ سے
روٹی مہنگی ہو جائے وہاں عورت اور مرد کی غیرت سستی ہو جاتی ہے ۔میں نے
اپنے اعصاب کو مضبوط رکھا اور غربت کو سوار ہونے نہیں دیا وہ آتی رہی مگر
میری بھی تو غیرت تھی کہیں کہ میں بھی تو مزدورتھا۔ |