ایک دانا کا قول ہے جس انسان پر
اس کا نفس غالب آ جاتا ہے وہ شہوات کا قیدی ہو جاتا ہے اور بیہودگی کا تابع
بن جاتا ہے، اس کا دل تمام فوائد سے محروم ہو جاتا ہے، جس کسی نے بھی اپنے
اعضاء کی زمین کو شہوات سے سیراب کیا اس نے اپنے دل میں ندامت کی کاشت کی،
اللہ تعالٰی نے مخلوق کو تین قسموں پر پیدا فرمایا ہے:-
1۔ فرشتوں کو پیدا فرمایا، ان میں عقل رکھی مگر انہیں شہوات سے پاک و منزہ
رکھا۔
2۔ جانوروں کو پیدا کیا، ان میں شہوات رکھی مگر عقل سے عاری کر دیا۔
3۔ انسان کو پیدا کیا، ان میں عقل اور شہوت دونوں ودیعت فرمائے، اب جس
انسان کی عقل پر اس کی شہوت غالب آ جاتی ہے، وہ جانوروں سے بدتر ہے اور جس
مسلمان کی شہوات پر اس کی عقل غالب آ جاتی وہ فرشتوں سے بھی بہتر ہے۔
حکایت
جناب ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں میں لسکام میں پہاڑ میں
تھا۔ وہاں میں نے انار دیکھے اور میرے دل میں انہیں کھانے کی خواہش ہوئی،
چنانچہ میں نے ایک انار اٹھا کر اسے دو ٹکڑے کیا مگر وہ ترش نکلا لٰہذا میں
نے اسے پھینک دیا اور چل پڑا چند قدم آگے جاکر میں نے ایک ایسے شخص کو
دیکھا جو زمین پر پڑا ہوا تھا اور اس پر بھڑیں چمٹی ہوئی تھیں، میں نے اسے
سلام کہا اور اس شخص نے میرا نام لیکر سلام کا جواب دیا میں نے حیرت سے
پوچھا آپ مجھے کیسے پہچانتے ہیں ؟ اس بندہء خدا نے جواب دیا جو اپنے خدا کو
پہچان لیتا ہے پھر اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔ میں نے کہا تب تو
تمہارا بارگاہ ایزدی میں بڑا مقام ہے، تم یہ دعاء کیوں نہیں کرتے کہ یہ جو
تمہیں چمٹی ہوئی ہیں تم سے دور ہو جائیں۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں اللہ کے
ہاں تمہارا بھی بڑا مقام ہے، تم نے یہ دعاء کیوں نہ مانگی کہ اللہ تعالٰی
تجھے انار کھانے کی خواہش سے بچا لیتا کیونکہ بھڑوں کی تکلیف دنیاوی عذاب
ہے مگر انار کھانے کی پاداش اخروی عذاب ہے، یہ بھڑیں تو انسان کے جسم پر
ڈستی ہیں مگر خواہشات انسان کے دل کو ڈس لیتی ہیں۔ میں یہ نصیحت آموز گفتگو
سن کر وہاں سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔
شہوات، بادشاہوں کو فقیر اور صبر فقیروں کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔ آپ نے حضرت
یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا قصہ نہیں پڑھا ؟ یوسف علیہ السلام صبر کی
بدولت مصر کے بادشاہ ہوئے اور زلیخا خواہشات کی وجہ سے عاجز اور رسوا ہوئی
اور بصارت سے محروم عجوزہ (بڑھیا) بن گئی اس لئے کہ زلیخا نے حضرت یوسف
علیہ السلام کی محبت میں صبر نہیں کیا تھا۔
حضرت ابو الحسن رازی نے اپنے والد کو خواب میں دیکھا
جناب ابو الحسن رازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد
کو ان کے انتقال کے دو سال بعد خواب میں اس حال میں دیکھا کہ ان کے جسم پر
جہنم کے قیر کا لباس تھا۔ میں نے پوچھا ابا جان! یہ کیا ہوا ؟ میں آپ کو
جہنمیوں کے لباس میں دیکھ رہا ہوں ؟ میرے والد نے فرمایا، اے فرزند! مجھے
میرا نفس جہنم میں لے گیا، اس کے دھوکہ میں کبھی نہ آنا۔ (اشعار)
انی ابتلیت باربع ماسلطوا
الا لشدۃ شقوتی و عناتی
ابلیس والدنیا ونفسی والھوٰی
کیف الخلاص وکلہم اعدائی
واری الھوی تدعوا الیہ خواطری
فی ظلمۃ الشھوات والاراء
میں ان چاروں دشمنوں، دنیا اور خواہشات، ان سے کیسے رہائی مل سکتی ہے
حالانکہ یہ چاروں میرے جانی دشمن ہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ خود بینی اور شہوات کی ظلمت میں میرے دل کو خواہشات اپنی
طرف بلاتی رہتی ہیں۔
جناب حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قول ہے کہ نفس میرا اصطبل ہے، علم
میرا ہتھیار ہے، ناامیدی میرا گناہ ہے، شیطان میرا دشمن ہے اور میں نفس کے
ساتھ فریب کرنے والا ہوں (اس کو فریب میں مبتلا کرتا ہوں)
عارفانہ نکتہ
ایک عارف باللہ کا قول ہے کہ جہاد کی تین قسمیں ہیں:-
(1) کفار کے ساتھ جہاد اور یہ جہاد ظاہری ہے، فرمان الٰہی ہے یجاھدون فی
سبیل اللہ۔
(2) جھوٹے لوگوں کے ساتھ علم اور دلائل سے جہاد، فرمان الٰہی ہے وجادلھم
بالتی ھی احسن۔
(3) بُرائیوں کی طرف لے جانے والے سرکش نفس سے جہاد، فرمان الٰہی ہے والذین
جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی
اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:-
افضل الجھاد جہاد النفس۔
نفس کے ساتھ جہاد بہترین جہاد ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم جب جہاد سے واپس آتے تو کہتے ہم جہادِ اصغر سے
جہادِ اکبر کی طرف لوٹ آئے ہیں اور صحابہ نے نفس، شیطان اور خواہشات سے
جہاد کو کفار کے ساتھ جہاد کرنے سے اس لئے اکبر اور عظیم کہا کہ نفس سے
جہاد ہمیشہ جاری رہتا ہے اور کفار کے ساتھ کبھی کبھی ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ
ہے کہ کفار کے ساتھ جہاد میں غازی اپنے دشمن کو سامنے دیکھتا رہتا ہے مگر
شیطان نظر نہیں آتا ہے اور دکھائی دینے والے دشمن سے لڑائی بہ نسبت چھپ کر
وار کرنے والے دشمن کے آسان ہوتی ہے۔ ایک وجہ اور بھی ہے کہ کافر کے ساتھ
غازی کی ہمدردیاں قطعی نہیں ہوتیں جبکہ شیطان کے ساتھ جہاد کرنے میں نفس
اور خواہشات شیطان کی حامی قوتوں میں شمار ہوتے ہیں، اس لئے یہ مقابلہ سخت
ہوتا ہے۔ ایک بات اور بھی ہے کہ اگر غازی کافر کو قتل کر دے تو مالِ غنیمت
اور فتح حاصل کرتا ہے اور اگر شہید ہو جائے تو جنت کا مستحق بن جاتا ہے مگر
اس جہادِ اکبر میں وہ شیطان کے قتل پر قادر نہیں اور اگر اسے شیطان قتل
کردے یعنی راہِ راست سے بھٹکا دے تق بندہ عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے،
اسی لئے کہا گیا ہے کہ جنگ کے دن جس کا گھوڑا بھاگ پڑے وہ کافروں کے ہاتھ آ
جاتا ہے مگر جس کا ایمان بھاگ جائے وہ غضبِ الٰہی میں پھنس جاتا ہے اور جو
کافروں کے ہاتھ پھنس جاتا ہے، اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں ہتھکڑیاں اور
بیڑیاں نہیں ڈالی جاتیں، اسے بھوکا، پیاسا اور ننگا نہیں کیا جاتا مگر جو
غضبِ الٰہی کا مستحق ہو جائے اس کا منہ کالا کیا جاتا ہے۔ اس کی مشکیں کس
کر زنجیریں ڈال دی جاتی ہیں۔ اس کے پیروں میں آگ کی بیڑیاں ڈالی جاتی ہیں
اس کا کھانا، پینا اور لباس سب جہنم کی آگ سے تیار ہوتا ہے۔ |