شیر خدا‘حیدر کرار‘داماد رسولﷺ
فرماتے ہیں”جو شخص اپنے نفس کو دوسروں کی عیب جوئی کی فکر میں رکھتاہے وہ
گمراہی کے اندھیروں میں متحیر ہوتااور ہلاکتوں کے بھنور میں پڑ جاتاہے“۔آپ
مسلمانوں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے ‘جب بھی گروہ متصادم ہوئے اس کی وجہ
غلط فہمی بنی یا ایک دوسرے کی عیب جوئی کی فکر۔ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی
غرض سے کی گئی تحقیقات سے ایسی بھیانک تاریخ رقم ہوئی کہ آج تلک مسلمان ایک
دوسرے کے دست گریباں ہیں۔غیر مسلم نے جب بھی حملہ کیا پہلے آپس میں
لڑوایایا کوئی گھر کا بھیدی ڈھونڈا جو لنکاڈھائے۔اور یوں ہلاکو کے ہاتھوں
سقوط بغداد ہو یا انگریز کے ہاتھوں سقوط بنگال دونوں میں مسلمان وزراءکا
ہاتھ نظرآتاہے۔حضرت علی فرماتے ہیں”اس شخص سے کون زیادہ نقصان میں ہے جو
اللہ تعالٰی کی رضا ومحبت بیچ کر دوسروں کی رضامندی ومحبت حاصل کرتاہے اور
اُس شخص سے کون زیادہ ناکام ہوسکتاہے جو یقین کو چھوڑ کر شک وحیرت میں
پڑتاہے“۔مگر کیا کیجئے ان عقل ودانش سے بھرپور اقوال سے کوئی فائدہ تک نہیں
اُٹھاتا ‘کوئی بنگال کامیر جعفر ہے تو کوئی قلات کا میر ‘لیکن سودا دونوں
نے ایک ساکیا ۔اور ناکام تو ہم میں سے ہر وہ فرد ہے جو شدت‘عسکریت اور
انتہاپسندی سے الفت رکھتاہے۔آپ مسلمانوں کی تاریخ کے اوراق کھولیئے شک سے
زیادہ کسی دیمک نے مورخ کے علم کو نہیں چاٹا۔یہ نہیں کہاجاسکتاکہ سلیم طبع
تاریخ دان نہ تھے مگر یہ دودھاری تلوار سی تاریخ کس نے لکھی؟کس نے اسے مسلم
کے سینے میں اُتارنے کی کوشش کی ؟حالانکہ اسوقت امریکہ و اسرائیل تو نہ
تھے۔لیکن دشمن ازل سے موجود تھے ‘کچھ آستین میں چھپ گئے اور چند نے کھلم
کھلا اپناکام دکھایا۔اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب تاریخ کا معصوم طالب علم
جو ابھی بمشکل گیارہویں جماعت تک پہنچاہوتاہے اگر تاریخ اسلام سا مضمون رکھ
لے تو اسی شک وحیرت میں مبتلا ہوجاتاہے جس سے مولا علی منع فرماچکے۔
حسنین کے بابافرماتے ہیں ”جو شخص شر اور فتنے کی آگ بھڑکاتاہے وہ اس کا
ایندھن ہوجاتاہے اور اسی میں جل کر مرجاتاہے“۔آپ کو ہرسو مناظروں کا منظر
دکھائی دے گا‘گلی کوچوں سے لے کر علماءکی بحث تلک۔مملکت خداداد میں وہ وقت
بھی گزراہے کہ جب لوگ پہلوانوں کے دنگل اتنی دلچسپی سے نہ دیکھتے تھے جتنی
لگن سے مناظرے دیکھتے تھے۔دونوں جانب کے” مُلا “اپنے آپ کو مسلمان اور
دوسرے کو کافر ‘بدعتی ‘گستاخ ثابت کرنے کی سعی ناکام میں منہ سے آگ نکالتے
جاتے جو رفتہ رفتہ امت مسلمہ کو خشک لکڑی کی مانند کھاگئی۔آج اگر کہیں بات
کی جائے کہ اسلام نافذ کیا جاناچاہیئے تو فورا سے پہلے خود کو روشن مزاج
کہلوانے پکار اُٹھتے ہیں پہلے یہ تو بتاﺅ کونسا اسلام؟سنی ؟دیوبندی؟اہل
حدیث؟جہنیںاگر مسلک کی بنیاد پر لکھوں تو شاید کالم نہ مکمل رہ جائے۔آج ایک
دوسرے کو لعن طعن کرنا ثواب کا کام ٹھہراہے جس کی نام نہاد علماءتلقین کرتے
بھی نظر آتے ہیں۔خلیفتہ المسلمین حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں”ملامت کرنا مار پیٹ سے زیادہ سخت سزاہے“ ۔ایک اور جگہ فرمایا”ملامت کے
لہجے میں وعظ ونصیحت نہ کرو“۔یہ ان کا فرمان ہے جن کے بارے میں فرمان نبویﷺ
ہے”میں علم کا شہرہوں علی اس کا دروازہ ہے“۔ہماری سمجھ سے بالاتر ہے
ایساشخص جو دعوہ تو محبت کا کرے اور ملامت کے لہجے میں وعظ کرے۔کیونکہ جب
تلک وہ علم کے دروازے تک رسائی نہ رکھے گا شہر تک اُس کا پہنچنا ہی محال
ہے۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں”بردباری عقل کا اور سچائی بزرگی کا
کمال ہے “مزید فرمایا”بردبار شخص فحش نہیں بکتا اور شریف آدمی کو وحشت میں
نہیں ڈالتا“۔آپ گلگت ‘جگلوٹ ‘ضلع چلاس دبیر‘دینور وغیرہ کے حالات کا جائزہ
لیجئے آپ کو فحش کلامی ہی مصیبت کی جڑ نظر آئے گی‘یہ لوگ برداشت سے صریح
طور پرعاری ہوچکے ہیں ۔سانحہ کوہستان اور اسکے بعد کے واقعات سے یہ سطور
لکھنے تک گلگت میں کرفیو نافذہے‘جسے آٹھ دن بیت چکے۔سانحہ کوہستان کے وقت
ایسالگاجیسے برف اب کی بار لال ہوئی ہو۔مگر جب حالات کی نزاکت کا ادراک
کرنے کیلئے پنجاب ‘سندھ و ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر گلگت کی وادی
کے باسیوں سے پوچھا تو کہنے لگے وہاں کی برف باری تمہیں سفید نظر آتی ہوگی
‘ہم نے تو اُسے ہمیشہ لال رنگ میں (اس پر متواتر خون بہتے ہوئے
)دیکھاہے۔فرقہ وارانہ فسادات اور گالم گلوچ کے نتائج بیان کرتے ہوئے ایک
شخص جذباتی ہوکر کہنے لگا مجھے یہ بتلاﺅ کہ ” اگر تمہاری عزتوں کی کے ساتھ
کوئی کھیلے تو کیاکروگے“۔میرے پاس برداشت اور خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ
نہ تھا۔کہنے لگا (بقول اسکے)ہمارے ہاں ایسابھی ہواہے۔اور اتنے درد ناک
انداز میں ہواکہ لکھ دوں توقلم شرماجائے۔
لیکن ارباب اقتدار شاید سمجھتے ہیں کرفیوکا نفاذ ‘خبر کی بندی‘اور دیگر
ناکہ بندیاں اسکاحل ہیں ۔شاید ان کی دانست میں ایساہی ہو‘اور ایسے بندوبست
سے عارضی حل تو کیئے جاسکتے ہیں ‘لیکن کبھی بھی قوت سے کسی مسئلہ کامکمل حل
نہیں نکالاجاسکا۔اس سے پہلے کے بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کے
ٹھیکیدار بولیں‘ ہمیں خود ہی اپنے بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھناہوگا۔غلطی
کسی بھی فقہ کا کوئی شخص کرے اور سزا کوئی دوسر ا شخص بھگتے اس کی اسلام تو
کیا دنیا کو کوئی بھی تہذیب یافتہ معاشرہ اجازت نہ دے گا۔وادی ہنزہ کے ایک
شخص سے جب میں نے دریافت کیا کہ ”پائیدار امن کیلئے کیا کیا جانا چاہیئے
“۔تو اس کا پہلاجواب تھا(خلاصہ)”اس کا واحد حل ہے ایک ہی فقہ وہاں رہ
جائے“۔طویل بحث ومباحثے اور اس کے جذبات کے سرد ہونے کے بعد میں نے عرض کیا
کہ ”یہ تو ممکن نہیں “کوئی اور حل تو کہنے لگا :سیدھی سی بات ہے اگر وہاں
کے علماءچاہیں تو ایساہوسکتاہے مگر بات خلوص نیت کی ہے ۔یہ لوگ میڈیا پر
اور بھرے اجتماع میں تو امن وبھائی چارے کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی نجی
محفلوں میں ہر فقہ دوسرے کے خلاف کفر کا فتویٰ دیتاہے بلکہ یہ بات بھی
پرانی ہوچکی اب تو ایک ہی فقہ کے لوگ مختلف مسالک میں بٹ چکے ہیں اور
ہرمسلک دوسرے مسلک کو کفار کا درجہ دیتاہے(یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے اس کی
آواز میں رقت طاری ہوگئی)“اور اسکے آخری الفاظ تھے”ہم چاہتے ہیں ہمارے
علاقے میں امن ہوجائے اگر آپ کے قلم میں قوت ہے تو خدارا امن کی بات کرنا‘
میرا گلگت بلتستان امن کے لیئے دہائیوں سے ترس رہاہے ‘وہاں کی برف تلے
ہزاروں بے گناہوں کا خون دفن ہے“۔
حضر ت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں”بھائی کی لغزش اور غلطی معاف کردے
۔حدِ شرعی کو جہاں تک ہوسکے ٹال اور جو بات بالتصریح تجھے کہی نہ جائے اس
سے درگزرکر“۔لہذا ہمیں ایک دوسرے کی کوتاہیاں معاف کرنے کی ضرورت ہے اور
ایک دوسرے کے اسلاف کے بارے میں نیک گمان رکھناہی ہمارے اتحاد کیلئے
بہترہے۔مولاعلی فرماتے ہیں”بدزبانی آدمی کی رونق وعزت اور مروت کو کھودیتی
ہے اور بدکلامی آدمی کی قدر گھٹاتی ہے اور بھائی بندی کو بگاڑدیتی ہے“۔ |