اسلامی نظام میں حکومت کا رول

تحریر: ڈاکٹر صلاح الدین عبد الحلیم سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی

اسلام نے اول روز سے مختلف میدانوں کے لیے نقوش متعین کیا ہے۔ اس کی تعلیمات صحیح اور برحق ہیں۔ اس کے اصول میں اس دن سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ دین مکمل کیا اور ہمارے اوپر اپنی نعمت تمام کی۔

اسلام نے حکوت کی ذمہ داریوں اور سربراہ کے فرائض بھی متعین کیے ہیں۔ یہ تعلیمات اس بات کی تاکید ہیں کہ اسلامی حکومت اپنی رعایا کی دین و دنیا دونوں کے مصالح کا خیال رکھتی ہے۔

فقہاء نے حکومت کی ذمہ داریوں سے مراد کیا ہے اس کی متعدد تعریفیں کی ہیں، ان میں سے اہم حسب ذیل ہیں:

1۔ ماوردی کی تعریف: ماوردی نے امامت کی تعریف کرتے ہوئے امام کے فرائض کی وضاحت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: دین کی حفاظت اور دنیا کی سیادت کے لیے امامت کا منصب اس لیے وضع کیا گیا ہے کہ یہ نبوت کی جانشینی کرے۔ ماوردی کے بعد بہت سے علماء نے ماوردی کی یہ تعریف لی ہے۔ اس تعریف پر تبصرہ بھی یا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کے سلسلہ میں حکومت کی ذمہ داری محض اس کی حفاظت تک محدود نہیں ہے؛ کیونکہ حفاظت کا مطلب ہے جو چیز جس حالت میں ہے اس حالت میں اس کو محفوظ رکھنا۔ اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اسلامی ریاست کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ممکنہ حد تک پوری زمین پر اس دین کی اشاعت کی جد و جہد کرے۔

2۔ جوینی کی تعریف: امامت مکمل سربراہی اور عمومی قیادت ہے جو دین و دنیا کے کاموں میں عوام و خواص کے معاملات سے متعلق ہے۔ اس کے کام ہیں: املاک کی حفاظت، رعیت کی نگہداشت، اتمام حجت اور تلوار سے دعوت کی اقامت، زمینی علاقوں کی حفاظت، ظالموں کے مقابلے میں مظلوم کو انصاف دینا، حق روکنے والوں حق وصول کرنا اور حق داروں کے حق کو محفوظ رکھنا۔

ابن تیمیہ کی تعریف: انہوں نے ان الفاظ میں تعریف کی ہے: ریاستوں کی واجبی ذمہ داری یہ ہے کہ مخلوق کے دین کی اصلاح ہوکہ اگر یہ دین ان سے چھوٹ جائے تو وہ کھلے نقصان میں مبتلا ہو جائیں اور دنیا کی نعمتیں ان کے لیے کسی فائدہ کا ذریعہ نہ بن سکیں۔ اس کی ذمہ داری میں ان دنیوی امور کی اصلاح بھی شامل ہے جن کے ذریعہ سے دین قائم ہوتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: مستحقین کے درمیان مال کی تقسیم اور زیادتی کرنے والوں کی سزا۔

امام ماوردی کی طرف سے اسلام کے اندر امام کے فرائض کیا ہیں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ انہوں نے دس فرائض کی نشان دہی کی ہے۔ وہ ہیں:

1۔ دین کو اس کے مستقل اصولوں، اور امت کے سلف کا جن امور پر اجماع ہے ان کے ساتھ حفاظت۔ اگر کوئی نئی بات نکالنے والا شخص ظاہر ہو یا شک و شبہہ والا کوئی شخص اس سے کجی اختیار کرے تو وہ اس کے سامنے حجت تمام کرے گا، سیدھا راستہ واضح کرے گا اور دین کو خلل سے بچانے اور امت کو لغزش سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ اسے حقوق اور حدود کا پابند بنائے گا۔

2۔ جھگڑنے والوں کے درمیان احکام کا نفاذ، تنازعہ میں الجھنے والوں کے اختلاف کو اس طرح ختم کرنا کہ انصاف عام ہو اور کوئی ظالم نہ حد سے بڑھے اور نہ کوئی مظلوم کمزور پڑے۔

3۔ انسانوں اورخواتین حفاظت تاکہ لوگ روزگار کی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں اور جان و مال کے نقصان سے بے خوف ہو کر سفر کرسکیں۔

4۔ اللہ کی حرمتوں کو پامالی سے بچانے کے لیے حدود کا قیام اور اس کے بندوں کے حقوق کو نقصان اور زیاں سے بچانا۔

5۔ زبردست تیّاری اور قوت دافعہ سے سرحدوں اور کمزور جگہوں کی حفاظت تاکہ دھوکہ سے دشمن کامیاب ہوکر حرمت کی پامالی یا کسی مسلم یا معاہد کی خون ریزی نہ کریں۔

6۔ دعوت کے بعد جو اسلام سے دشمنی کرے اس سے جہاد تا آنکہ یا تو وہ اسلام قبول کرے یا ذمی بن جائے تاکہ اللہ تعالٰی کے دین کا تمام ادیان پر غلبہ ہو۔

7۔شریعت نے نص اور اجتہاد سے جو فیے اور صدقات واجب قرار دیے ہیں انہیں کسی خوف اور سختی کے بغیر حاصل کرنا۔

8۔ عطیات اور بیت المال کے بقایا جات کا اندازہ لگانا اور اسراف و کوتاہی کے بغی وقت پر اس کی ادائیگی، اس میں نہ تقدیم کی جائے اور نہ تاخیر۔

9۔ ذمہ داروں سے جواب طلبی اور انہیں جو کام اور مال دیے جاتے ہیں اس سلسلہ میں خیر خواہوں کی پیروی تاکہ کام اہل افراد کو ملیں اور امانت داروں کے پاس مال محفوظ رہیں۔

10۔ وہ بذات خود معاملات کی نگرانی کرے اور مال کا جائزہ لے تاکہ وہ امت کی قیادت اور ملت کی حفاظت کا کام کر سکے۔ وہ لذت یا عبادت کے کاموں میں مشغول ہو کر کاموں کو دوسروں کے حوالے نہ کرے ورنہ امانت دار خائن اور خیر خواہ دھوکہ باز بن جائیں گے۔

یہ واضح رہے کہ پہلا اور چھٹا کام دین کی اقامت کے لیے ہے اور تیسرا، پانچواں، آٹھواں، اور نواں رعایا کے مصالح کی رعایت کے لیے۔ چوتھا اور چھٹا دونوں ہی مصلحتوں سے ہیں۔

جوینی نے ان ذمہ داریوں کو انتہائی باریکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ ان ذمہ داریوں میں سے کچھ دین سے متعلق ہیں اور کچھ دنیاوی امور سے متعلق۔ دینی امور کی انہوں نے ذیلی تقسیم کرتے ہوئے کہا ہے ہے کچھ فرائض اصل دین سے متعلق ہیں اور کچھ مومنوں کے لیے دین کی حفاظت، کھوٹے لوگوں کے شبہات کے ازالہ، کافروں اور انکارکرنے والوں کو حجت، دلیل یا تلوار و جنگ سے دعوت دینا شامل ہے(الغياثي للجويني ف 269- 291).

عوامی مصالح کی رعایت میں عدل و انصاف کی پابندی اسلام کے نمایاں اوصاف میں ہے۔ اسلامی حکومت مالداروں کی رعایت کرتےہوئے انہیں اس بات کے پورے مواقع فراہم کرتی ہے کہ صحیح شرعی حدود کے اندر ترقی اور سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ان کے مال کی حفاظت کرتی ہے اور اس پر دست درازی کرنے والوں پر حد نافذ کرتی ہے۔ ان کی رضا مندی، حق شرعی یا ظاہری شرعی مصلحت کے بغیر ان کے مال میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں سمجھتی۔ اسی طرح یہ کمزوروں کے مصالح کی بھی رعایت کرتی ہے، ان پر ظلم کرنے والوں کے مقابلے میں انہیں انصاف دیتی ہے، ان کی کفالت اور نگہداشت کرتی ہے۔ یہ سمجھتی ہے کہ یہ کمزوروں کا حق اور حکومت کا شرعی فریضہ ہے چنانچہ زکوۃ، فیئ اور مال غنیمت میں ان کے حصے مقرر کرتی ہے۔

تہذیبی اور تمدنی ترقی کے اسباب اختیار کرنا اسلامی ریاست کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے کیونکہ یہ ان مصالح میں سے ہے جن کا حصول اور جن میں کامیابی کی جدو جہد ریاست پر واجب ہے۔ حتی الامکان تمام ممکنہ مصالح کی کو پورا کرنا اور حقیقی اور امکانی نقصانات کو دور کرنا ضروری ہے۔ آج مسلمانوں اور اسلام کی شوکت پر تمدنی پستی کے جو اثرات پڑ رہے ہیں، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لہٰذا اسلامی مملکت پر اس پہلو سے کوشش کرنا شرعی فرائض میں سے ہے۔

ابن القیم الجوزیۃ نے کہا : "شریعت کی بنیاد اور اساس ہی یہ ہے کہ فیصلوں میں بندوں کے دنیوی و اخروی مصالح کی رعایت کرے۔ یہ سرتا پا عدل ہے، مکمل رحمت ہے، کلّی حکمت ہے۔ ہر وہ مسئلہ جو عدل کے بجائے ظلم کا راستہ اختیار کرے، رحمت کے بجائے اس کے برعکس راستہ اختیار کرے، مصلحت کی پاسداری کے بجائے فساد کا راستہ اختیار کرے اور حکمت کے بجائے عبث راستہ اختیار کرے، شریعت سے خارج ہے۔ شریعت اللہ کے بندوں کے درمیان اللہ کا عدل، اس کی مخلوق میں اس کی رحمت، اور اس کی زمین پر اس کا سایہ ہے۔ (إعلام الموقعين عن رب العالمين 3\3 ط: دار الجيل- بيروت).

متواتر طریقہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام مسلمانوں نے جب بھی، فرد اور ریاست کی سطح پر اسلامی منہج کو اختیار کیا تمدن، ترقی، سائنس اور بلندی میں سب سے آگے نکل گئے۔

دین کی جزئیات میں ظاہری عبادات کا قیام مثلاً جمعہ، عید، حج وغیرہ ہیں، اسی طرح اگر سربراہ مملکت کے سامنے دین کے سلسلہ میں پیش آنے والی پریشانیاں رکھی جائیں تو اس کو دور کرنا بھی اسی کا حصہ ہے۔

دنیاوی امور سے متعلق ذمہ داریوں کو جوینی نے حاصل شدہ نتائج کا تحفظ اور جو کچھ نہیں حاصل ہو سکا ہے اس کےحصول کی جد و جہد کو شامل کیا ہے۔ اس ذیل میں جو ممالک، علاقے، تمدن اور ترقیاں حاصل ہو چکی ہیں ان کی حفاظت، تنازعات کو روکنا اور ان کو ختم کرنا بھی ہے، ترقی کی جو منزلیں طئے نہیں کی جا سکی ہیں ان کے حصول، وسائل میں اضافہ، شرعی حدود کے اندر زندگی معاملات میں، مزید تمدنی ترقی کا حصول وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔

جوینی کی یہ ترتیب بہتر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دنیوی مصالح دینی مصالح کا ہی حصہ ہیں۔ یہ بات معروف ہے کہ اگر نیک نیتی سے کی جائے تو اچھی عادات، اچھی عبادات بن جاتی ہیں۔

مذکورہ گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ :
1۔ اسلامی مملکت اپنے کلّی احکام اللہ عز و جل سے حاصل کرتی ہے خواہ یہ قرآن میں ہو یا سنت نبویﷺ میں۔ اسی طرح جن جزوی احکام میں نص موجود ہے ان کی پابندی کرتی ہے اور جن امور میں نص موجود نہیں ہے ان میں اہلیت والے لوگ اجتہاد کرتے ہیں۔ یہ اجتہاد کلی احکام کے فریم میں ہی ہوتا ہے۔

2۔ اسلامی حکومت اقتصادی سرگرمیوں میں عمومی شرعی مصلحت کی بنیاد پر ہی مداخلت کرتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کاروبار، تجارت اور صنعتوں پر کڑی نظر رکھتی رکھتی ہے، اس راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتی ہےا ور ایسے کام انجام دیتی ہے جو افراد نہیں انجام دے سکتے۔ یہاں مستحکم نگرانی اور شرعی حدود کو توڑنے والوں کو لگام دینے میں احتساب، داد رسی اور قضاء کا نظام اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر میدان میں لوگوں کو مواقع حاصل ہوتے ہیں اور ترقی کی منزلیں طئے کی جاتی ہیں۔

3۔ اسلامی حکومت تمام رعایا کے مصالح کے لیے فکرمند رہتی ہے۔ وہ ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں پہلو سے جو چیز بہتر ہو انہیں اختیار کرنے کی فکر کرتی ہے۔ عمر بن خطات – رضی اللہ تعالیٰ عنہ—صدقہ کے اونٹوں کی دیکھ بھال اس خوف سے خود کرتے تھے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہو جائیں اور کہتے تھے: "اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی اونٹ ہلاک ہو جائے تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں آل خطاب سے باز پرس کرے گا"۔
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 35148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.