بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ
الرَّحِیمِ ،وَقَالَ لَھُم نَبِیُّھُم اِنَّ اٰیَةَ مُلکِہ اَن یَّاتِیَکُمُ
التَّآبُوتُ فِیہِ سَکِینَة مِّن رَبِّکُم وَبَقِیَّة مِمَّا تَرَکَ اٰلُ
مُوسیٰ وَ اٰلُ ھٰرُونَ تَحمِلُہُ المَلٰئِکَة ط اِنَّ فِی ذٰلِکَ لاَٰ یَةً
لَّکُم اِن کُنتُم مُومِنِین ۔
”انکے نبی نے ان (بنی اسرائیل) سے کہا بے شک اسکی بادشاہی کی علامت یہ ہے
تمہارے پاس ایک تابوت (صندوق ) آئیگا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینہ
یعنی سکون بخش چیزیں ہیں اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز
ہارون علیہما السلام کے ترکہ سے ۔اسے فرشتے اُٹھا لائیں گے بیشک اس میں
تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔“(القرآن سورة البقرہ )
حضرت طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنادیا گیا آپ چونکہ ایک غریب آدمی
تھے لوگوں نے آپکو بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔تب انکے نبی حضرت
شموئیل علیہ السلام نے فرمایا : طالوت از خود بادشاہ نہیں بنے بلکہ اللہ
تعالیٰ نے انہیں تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے اسکی صداقت کی اور منجانب
اللہ مامور ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آجائیگا جو تم
سے چھن چکا ہے ۔وہ صندوق کیساتھا اس کا طول و عرض کیا تھا اس میں اللہ رب
العزت کیطرف سے سکون بخش چیزیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام
کے ترکہ سے تھیں وہ کیا تھیں آیاتِ قرآنیہ اس بارے میں خاموش ہیں ۔لہٰذا
انکے بارے میں جاننے کے لئے کتب تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہیں ۔
چنانچہ تفسیر روح البیان ،نور العرفان اور تفسیر مظہری وغیرہ میں ہے کہ یہ
تابوت شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو تین ہاتھ لمبا اور دوہاتھ چوڑا
بنی اسرائیل جب کہیں جنگ کو جاتے اس صندوق کو اپنے آگے رکھتے اور یوں دعا
کرتے یا اللہ ! اس صندوق اور اس میں موجود تبرکات کے وسیلہ سے ہمیں فتح و
نصرت عطا فرما تو اسکی برکت سے اللہ تعالیٰ فتح عطا فرما دیتا ۔بلکہ وہ لوگ
ہر مشکل کے وقت اس صندوق کو آگے رکھ کر دعائیں کرتے تھے جو قبول ہوتی تھیں
۔بعد میں بنی اسرائیل میں کچھ گستاخ خیالات کے لوگ پیدا ہوئے انہوں نے اس
صندوق کی بے حرمتی کی جسکی وجہ سے طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوئے ۔
تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے
۔”حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ترکہ سے آپکا عصا اور توریت کی تختیوں کے ٹکڑے
تھے ۔“(جامع القرآن زیر آیت بالا)
تفسیر ابن ابی حاتم میں انہی سے مروی ہے :اس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ
السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے عصا ان کے کپڑے اور توریت کی دو
تختیاں اور من (جو آسمان سے اُترتا تھا ) اور فرحت کا کلمہ یعنی ” لا الہ
الا اللہ “ ..آخر تک وغیرہ اشیاءتھیں ۔
اسی آیت کے تحت حضرت علامہ قاضی ثناءاللہ پانی پتی علیہ السلام المتوفی
1225ھ لکھتے ہیں ۔
”اس تابوت میں توریت شریف کی دو تختیاں سالم تھیں اور کچھ ان تختیوں کے
ٹکڑے تھے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا
عصا اور آپکے نعلین (جوتے) مبارک اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ شریف
اور عصا مبارک اور من کی اک تھیلی تھی ۔“(تفسیر مظہری جلد اول )
اس آیت مبارکہ اور اسکے تحت مذکورہ تفسیر سے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ کے نیک
اور مقبول بندوں کے جسم سے جو چیز یں مس ہو جائیں ان میں برکتیں آجاتی ہیں
انکے توسط اور وسیلہ سے مشکلیں آسان ہو تی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں
دکھوں تکلیفوں کا ازالہ ہوتا ہے بیماریوں سے شفا اور دردوں کا مداوا ہوتا
ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ فرمان ہے ۔اِذھَبُو بِقَمِیصِی ھٰذَا
فَاَلقُوہُ عَلٰی وَجہِ اَبِی یَاتِ بَصِیرًا۔”یہ میری قمیض لے جاﺅ اور
والد گرامی کے چہرہ مبارکہ پر ڈال دینا بینائی لوٹ آئیگی ۔“ (سورة الیوسف
)اس پر ناطق ہے۔اور ”فَارتَدَّ بَصِیرًا“حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی
کا لوٹ آنا اس پر شاہد صادق ہے ۔
بڑی دھوم سنی تھی صفا و مروہ کی ،بڑا چرچا تھا مقامِ ابراہیم کا۔ اِنَّ
الصَّفَا وَالمَروَةَ مِن شَعَائِرِ اللّٰہِ ۔”بے شک صفا و مروہ اللہ کی
نشانیوں میں سے ہیں ۔“وَاتَّخِذُو ا مِن مَّقَامِ اِبرَاہِیمَ
مُصَلّٰی۔”مقام ابراہیم کو نماز کے لئے مختص کر لو۔“
ایک خالی ذہن آدمی جو صفا و مروہ کے بارے میں معلومات نہ رکھتا ہو مقام
ابراہیم کی حقیقت سے آگاہ نہ ہو اس کے ذہن میں طرح طرح کے تصورات آئیں گے ۔
شاید صفا و مروہ کی پہاڑیاں سونے یا چاندی کی ہونگی اسلئے انہیں اللہ
تعالیٰ اپنی نشانیاں کہہ رہا ہے یا بہت بلند ہو نگی جس کی وجہ سے شعائر
اللہ بن گئی ہونگی یا کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت سر سبز و شاداب ہوں اسلئے
شعائر اللہ شمار ہوئیں اور مقام ابراہیم وہ جگہ نہ ہو جہاں حضرت ابراہیم
علیہ السلام کا قدم مبارک جسم سے جدا کر کے رکھا گیا ہو ۔لیکن صفا و مروہ
کی زیارت کرنیوالے جانتے ہیں اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ پہاڑیاں سونے
چاندی کی نہیں عام پتھروں کی ہیں ۔بلند و بالا بھی نہیں ،بلکہ چھوٹی چھوٹی
ہیں ۔اگر بلند ی کی وجہ سے شعائر اللہ فرماتا تو ”کے ۔ٹو“ یا ”ہمالیہ“ کو
فرماتا ۔ شادابی و ہریالی کی وجہ سے اللہ کی نشانیاں قرار پاتیں تو کشمیر
کی پہاڑیاں قرار پاتیں یہ پہاڑیاں اگر چہ بلند و بالا نہیں لیکن انکی عظمت
و رفعت کی بلندیوں کو کے ۔ٹو اور ہمالیہ بھی نہیں پہنچ سکتیں ۔اگر چہ سر
سبز و شاداب نہیں بلکہ جلی ہوئی سیاہ پہاڑیاں ہیں ۔ لیکن اہل دل جانتے ہیں
کہ کشمیر کی سر سبز پہاڑیاں انکی گرد راہ کو بھی نہیں پہنچ سکتیں ۔وجہ صرف
یہ ہے کہ ان پہاڑیوں کو چند لمحے اللہ تعالیٰ کی ایک نیک اور برگزیدہ بندی
کے قدم چومنے کی سعادت مل گئی ۔ جب سے انکے ساتھ حضرت مائی ہاجرہ کے قدم
لگے دنیا بھر کی پہاڑیوں سے ممتاز ہو گئیں ۔یہاں تک کہ انکی عظمت و شان میں
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :اِنَّ الصَّفَا وَالمَروَةَ مِن شَعَائِرِ
اللّٰہِ ۔
اس طرح مقام ابراہیم علیہ السلام بھی ایک پتھرہی ہے جس پر حضرت ابراہیم
علیہ السلام کے قدم مبارک کے نشان ثبت ہوگئے ۔ہزاروں برس گزر چکے وہ پتھر
نشان قدم سمیت محفوظ ہے ۔صفا و مروہ کی سعی کرنا ،مقام ابراہیم علیہ السلام
کی تعظیم و تکریم کرنا مناسک حج میں سے ہے یہاں سے ثابت ہوا کہ جو چیزیں
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے مس ہو جائیں یا جن چیزوں کی نسبت مقبولانِ
بارگاہ کیطرف ہو جائے وہ چیزیں بھی با برکت ہو جاتی ہیں ۔
انبیاءکرام سے لیکر صحابہ کرام بلکہ تابعین کرام تک علماءربانیین سے
لیکراولیاءکاملین علماءسے لیکر عوام الناس تک سب کے سب ان تبرکات کو قابلِ
صد تکریم متاعِ دنیا سے زیادہ قیمتی اور جان سے زیادہ عزیز سمجھتے اور ان
سے برکتیں حاصل کرتے رہے ہیں ۔ آئیے چند حوالہ جات نظر قارئین کئے جاتے ہیں
۔
بال نبوی ﷺ سے برکت حاصل کرنا :حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں
رسول اکرم ﷺ کے چند بال مبارک تھے ۔آپ خود فرماتے ہیں یہ ٹوپی جس غزوہ میں
میرے پاس رہی مجھے اسکی برکت سے فتح حاصل ہوتی رہی ۔آپکی یہ ٹوپی کسی غزوہ
میں گر گئی آپ نے اسے حاصل کرنے کے لئے سخت حملہ کیا جس میں بہت سے مسلمان
شہید ہوئے ۔صحابہ کرام نے اعتراض کیا کہ ایک ٹوپی کی خاطر آپ نے اتنے
مسلمانوں کو شہید کرایا ہے تو انہوں نے جواب دیا یہ حملہ ٹوپی کے لئے نہیں
کیا گیا بلکہ موئے مبارک کے لئے کیا تھا ۔جو ٹوپی میں تھے کہ مبادا انکی
برکت میرے پاس سے جاتی رہے ۔(شفاءشریف)
پیالہ نبوی ﷺ سے برکت حاصل کرنا: سیرت رسول عربی ﷺ میں اصابہ کے حوالے سے
منقول ہے کہ ایک دن حضرت خداش بن ابی خداش مکی نے رسول اللہ ﷺ کو ایک پیالہ
میں کھانا کھاتے دیکھا ۔انہوں نے وہ پیالہ بطور تبرک آپ سے لے لیا ۔حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کبھی حضرت خداش رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے
جاتے تو ان سے وہی پیالہ طلب فرماتے اسے آبِ زمزم سے بھر کر پیتے اور چہرے
پر چھینٹے مارتے ۔یوں پیالہ نبویﷺ سے آپ برکتیں حاصل کرتے ۔(شفاءشریف)
عمامہ نبوی ﷺ سے برکت حاصل کرنا :حضرت عبد اللہ بن حازم کے پاس ایک سیاہ
رنگ کا عمامہ شریف تھا جسے وہ جمعہ اور عیدین میں پہنا کرتے تھے ۔لڑائی میں
جب فتح پاتے تو بطور تبرک اس عمامہ کو پہنتے اور فرماتے یہ عمامہ مجھے رسول
اللہ ﷺ نے پہنایا تھا ۔
(شفا ءشریف)
عصائے نبوی ﷺ سے برکت حاصل کرنا :ایک موقع پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہ
بن انیس رضی اللہ عنہ کو بطور انعام ایک عصا عنایت فرمایا زندگی بھر وہ عصا
آپکے پاس رہا بوقت وصال آپ نے وصیت فرمائی کہ اس عصا کو میرے کفن میں رکھ
کر میرے ساتھ دفن کر دینا ۔چنانچہ آپکی وصیت کے مطابق وہ عصا آپکے ساتھ دفن
کر دیا گیا ۔(شفاءشریف)
جبہ نبوی ﷺ سے برکت حاصل کرنا :امام مسلم روایت کرتے ہیں کہ :حضرت اسماءبنت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما کے غلام حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے
حضرت اسماءرضی اللہ عنہا نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس
ایک جبہ دیکر بھیجا اور فرمایا یہ رسول اکرم ﷺ کا جبہ مبارک ہے ۔۔۔۔جو حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک انکے پاس موجود تھا (یہ وہی جبہ تھا
جس کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا لوگوں کو بڑے ادب و احترام سے زیارت
کرایا کرتی تھیں جیسا کہ دوسری روایات میں ہے )حضرت اسماءفرماتی ہیں جب
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو میں نے اس جبہ مبارک کو
اپنے قبضہ میں لے لیا نبی کریم ﷺ اس جبہ کو زیب تن فرمایا کرتے تھے ۔ہم اسے
دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے تھے اور ان کےلئے شفا طلب کرتے تھے
۔(صحیح مسلم جلد 2صفحہ192)
صحابہ کرام کے نزدیک بالِ نبوی ﷺ کی قدر و قیمت:امام بخاری روایت کرتے ہیں
کہ : حضرت امام ابن سیرین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ
رضی اللہ عنہ سے کہا ہمارے پاس نبی کریم ﷺ کے چند بال مبارک ہیں جو ہمیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ یا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کیطرف سے ملے
ہیں تو اس پر حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے پاس ان بالوں میں سے
ایک بال کا ہونا دنیا و مافیھا سے زیادہ محبوب ہے ۔(بخاری شریف،
جلد1صفحہ29)
مذکورہ بالا آیات و روایات سے ثابت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول
بندوں کی استعمال یا مس کی ہوئی چیزوں میں کس قدر برکت رکھی ہے ۔کہ خود
اللہ تعالیٰ انہیں باعث سکون فرماتا ہے۔ ان تبرکات یعنی عصا کپڑے ،عمامہ
،نعلین وغیرہ کے وسیلہ سے جنہوں نے دعائیں مانگیں فتحیاب و کامران ہوئے اور
جن لوگوں نے انکی بے حرمتی کی انہیں مصائب و آلام نے آگھیر ا اور وہ لا
علاج بیماریوں کا شکار ہوگئے ۔یہ بھی ثابت ہوا کہ انکا ادب و احترام کرنا
انکی حفاظت کرنا انہیں با برکت سمجھنا ان سے تبرک حاصل کرنا تعلیم اسلام
،مقصودِ الہٰی سنت انبیاءاور شعار مومنین ہے ۔نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ
مومن بزرگوں کے تبرکات کی تاثیر کا قائل ہو گا ۔ جیسا کہ موضوعِ آیت کا
اختتامیہ ۔ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لاَٰ یَةً لَّکُم اِن کُنتُم مُومِنِین ۔بتا
رہا ہے ۔ |