حد ارتداد

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کی سزا)

دین اسلام قبول کرنا اور پھر روگردانی کرتے ہوئے کفر کی طرف لوٹ جانا ”ارتدادکہلاتاہے۔جو مسلمان ہواور پھر اﷲ تعالٰی کی توحید یا ختم نبوت کا انکارکردے یا دیگر ان اسلامی شعائر سے قولی و عملی واعلانیہ روگردانی کرے جواسلامی عقائدو احکامات ومحرمات کاجزولاینفک ہیں،ایسے شخص کو شریعت اسلامیہ میں ”مرتد“کہاجائے گا۔اسلام نے مذہبی آزادی کی ضمانت دی ہے لیکن عقائد اسلامیہ کے ساتھ مذاق و استہزاکی اجازت نہیں دی۔گزشتہ اقوام جنہیں عدالت خداوندی سے بالکلیہ عذاب کافیصلہ سنایاگیااورآج بھی ان کی باقیات گواہ ہیں کہ انہیں اس کرہ ارض سے نیست و نابود کردیاگیاان سب کاایک مشترکہ جرم یہ بھی تھاکہ وہ انبیاءعلیھم السلام کے ساتھ اور ان کی پیش کردہ تعلیمات کے ساتھ مذاق و استہزا کیا کرتے تھے،اور اﷲ تعالٰی کی سنت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلامی ریاست کے اندر جوبھی شخص مسلمان ہوتاہے وہ دراصل مسلمان فوج میں شمولیت اختیارکرلیتاہے،اس لیے کہ جس طرح کہاگیا کتب علیکم الصیام (تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں۔)اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالٰی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کتب علیکم القتال(تم پر لڑنافرض کردیاگیاہے)۔اسلامی ریاست کا فوجی بننے کے بعد دشمن سے ملنے پریعنی مرتدہوجانے پراس سپاہی کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاجاتاہے جوپوری دنیاکی ریاستیں اور افواج کل انسانی تاریخ میں اپنے باغیوں کے ساتھ کرتی ہیں۔اسلامی قوانین میں ایسے شخص کی جان ومال وعزت و آبروکا بھرپورتحفظ ہے جو اسلامی ریاست میں غیرمسلم بن کررہتاہے لیکن مسلمان بن کرگویااسلامی ریاست کے دفاعی و حساس نوعیت کے رازوں سے آگاہی حاصل کرکے پھر کفرکی طرف لوٹ جانے والے یعنی دشمن سے مل جانے والے کے لیے اسلامی شرعی و فقہی قوانین میں کوئی رعایت موجود نہیں ہے۔

مرتد کی دواقسام ہیں،ایک ”فطری مرتد“ اوردوسرا” ملی مرتد“۔فطری مرتد وہ ہوتاہے جوپیدائشی طورپر مسلمان ہویعنی اسکے والدین یاان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو۔”ملی مرتد “جوکلمہ پڑھ کرمسلمان ہوااور پھرکفر کی طرف لوٹ گیا۔مرتدکے لیے محسن انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ ”جومذہب تبدیل کرے اسے قتل کردو“۔چنانچہ اسلامی قانون کی رو سے مرتد کو تین دن کی مہلت دی جائے گی اور اسے موقع اور ترغیب و ترہیب دی جائے گی کہ اسلام کی طرف واپس پلٹ آؤ،اگر وہ دوبارہ اسلام قبول کر لے اور توحیدو ختم نبوت پر ایمان لے آئے تو اسے چھوڑ دیاجائے گا لیکن مرتد رہ جانے کی صورت میں چوتھے دن غروب آفتاب سے قبل اس کی گردن اڑا دی جائے گی اس طرح ایک غدار کی قربانی سے اسلامی ریاست کے رازدشمن کے پاس جانے سے رک جائیں گے اور ریاست کی پوری آبادی محفوظ و مامون ہو جائے گی۔بچے،نشائی اور ذہنی مریض اس سے مستسنی ہیں کیونکہ قانون ان کے قول کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔مرتد پراتمام حجت کے لیے عدالتی کاروائی کی تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے،قاضی کے سامنے دو عاقل بالغ مسلمان گواہی دیں گے ان کے سامنے اس مرتد نے اس اس طرح کے الفاظ کہے تھے یااس اس طرح کے اعمال صادرکیے تھے۔اس کے بعد بھی اگر کہیں شک رہ جائے توقاضی خود اس کے عقائد کی بابت اس سے سوالات کرے گا۔اگرمرتد عدالت میں بھی اپنے کفر پرقائم رہے تو فقہا کہتے ہیں اس سے عمدہ بحث کے ذریعے اس کے اشکالات دور کیے جائیں گے اور اس مقصد کے لیے جہاں علماءکی مدد لی جاسکتی ہے وہاں شریعت نے تین دن کی مہلت بھی مرتد کو مرحمت کی ہے،لیکن ان تین دنوں میں مرتد قانون کی تحویل میں رہے گاتاہم اس پر کسی طرح کے جسمانی تشدد کی ممانعت ہے۔ اس کے بعداگرمرتد تائب ہوجائے تواسے چھوڑ دیاجائے گااور اسلامی ریاست کے آزاد شہری کے تمام حقوق اسے ایک بار پھر میسر آجائیں گے لیکن اگر تب بھی اگروہ تائب نہ ہوتواسے سزا کی کمیت و حجم کے بارے میں قاضی خود آگاہ کرے گاپس ان سب کے بعد بھی اگر مرتداپنے ارتدادسے رجوع نہیں کرتا تو اسے تین وجوہات سے پھانسی دے دی جائے گی:

1۔وہ ایسا غیر مسلم نہیں کہ غیر ریاست کے شہری ہونے کے ناطے اسلامی ریاست نے اسے سیاسی پناہ دی ہو۔
2۔اسلام سے روگردانی کے بعد وہ ریاست کے مسلمان شہری ہونے کے حق سے محروم ہوجائے گااوراگر دوسری ریاستوں سے سیاسی پناہ لیتا ہے یاملک بدر کیاجاتاہے تو وہ ریاستیں اپنے خلاف اسلام عزائم کی تکمیل کے لیے اس سے مستنددفاعی معلومات حاصل کریں گی۔
3۔وہ ذمی شہری بھی نہیں ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں کفر سے اسلام کی طرف تو آیاجاسکتاہے اسلام سے کفر کی جانے کی گنجائش نہیں۔

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس حضرت ابوموسی اشعری کابھیجاہواایک قاصدآیا،اس نے بتایا کہ ایک شخص نے اسلام قبول کیااور پھرمرتد ہو گیا،امیرالمومنین نے دریافت فرمایا کہ پھر؟؟اس قاصد نے بتایاہم نے اس کی گردن مار دی، حضرت عمر نے کہاتم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اسے تین دن قید رکھتے،اسے روزانہ کھانا کھلاتے اور اسے اسلام کی طرف واپس آنے کی تبلیغ کرتے ممکن تھاکہ توبہ کرلیتا۔پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اے اﷲ میں وہاں موجود نہ تھا ،نہ ہی میں نے اس کا حکم دیاتھااورنہ ہی میں اس خبر پر خوش ہوا ہوں۔چنانچہ مرتد کو قید کے دوران کھانے پینے کی سہولیات فراہم کی جائیں گی،یہ سہولیات اس کے اپنے اخراجات سے بھی ہو سکتی ہیں اور ایسا ممکن نہ ہو تو ریاست اس مرتد کے تین دن کے اخراجات برداشت کرے گی ۔تین دنوں کے بعد اس سے دریافت کیاجائے گا،رجوع کی صورت میں اسے قیدخانے سے رہا کردیاجائے گا بصورت دیگر اسے موت کے گھاٹ اتاردیاجائے گا لیکن اس کی لاش کو غسل اور کفن نہیں دیاجائے گااورنہ ہی اس کا جنازہ پڑھا جائے گااور مسلمانوں کے قبرستان میں بھی اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی اس لیے کہ وہ مرتے وقت مسلمان نہیں تھا۔

خواتین میں سے اگرکوئی مرتد ہو جائے تواسے قتل نہیں کیاجائے گا کیونکہ محسن نسوانیتﷺنے خواتین کے قتل سے منع کیا ہے۔بہتر ہے کہ اس کی سزا کو روزآخرت پر اٹھارکھاجائے۔اس حکم کی علت بھی وہی ہے جو مردکی سزا کی علت ہے۔عورت پر اگرچہ قتال اسی طرح فرض ہے جس طرح مرد پرفرض ہے لیکن شریعت و فطرت کی مقررکردہ اس کی خانگی وخاندانی ذمہ داریاں اسے اتنی فرصت فراہم نہیں کرتیں کہ وہ بہت حساس رازوں تک پہنچ پائے اور کھل کردفاعی امور میں کوئی کرداراداکرسکے،چنانچہ وہ دشمن سے مل کر ریاست کوکوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچاسکتی اس لیے شریعت نے اس جرم کے بعد اس کی جان بخشی کردی ہے۔ایسی خاتون جو مرتد ہوگئی ہو اسے اس خاتون کی طرح فرض کر لیاجائے گا جو ابھی مسلمان ہوئی بھی نہیں تھی۔ایک حدیث مبارکہ میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا” اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تواسے دوبارہ اسلام پیش کرواگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکارکردے تواسے ایک موقع اور دے دو“۔تاہم بعض فقہاایسی خواتین کو قیدرکھنے کاحکم دیتے ہیں تآنکہ وہ اسلام قبول کر لیں یا قید میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام پورے کریں۔پس اگرکبھی کبھی ایسے مواقع پیداہوں توپہلے قول پر عمل کرناچاہیے اور اگر معاشرے میں خواتین کثرت سے ارتداد کی طرف مائل ہو رہی ہوں تو دوسرے قول پر بھی عمل کیاجا سکتاہے۔

ارتدادکے بعد درج ذیل احکامات مرتب ہوں گے:
1۔شوہریابیوی میں سے کسی ایک کے مرتد ہوجانے سے نکاح باطل ہو جائے گااورجدائی واقع ہو جائے گی۔
2۔زوجین مرتد ہوجائیں تو بحیثیت میاں بیوی کے رہ سکتے ہیں۔
3۔نابالغ اگرکفریہ کلمات کہے تواسے تحویل میں لے لیاجائے گا،بلوغت کے بعد اس پرقانونی گرفت کی جائے گی۔
4۔مرتد اسلامی ریاست کے شہری کے حقوق سے محروم کردیاجائے گا۔
5۔اگرکوئی گروہ مرتد ہوجائے تواسلامی ریاست اس کے خلاف قتال کرے گی جیسے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کیا۔
6۔مالکی،شافعی اور حنبلی فقہا نے مرتدعورت کے لیے بھی قتل کی سزا تجویز کی ہے۔
7۔فقہ جعفری کے فقہا غیرمسلم ممالک کے مرتدین کو بھی قتل کرنے کے قائل ہیں۔
8۔ارتدادکے بعد حالت ایمان میں کیے گئے احسن اعمال بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔
9۔مرتد کسی مسلمان کااور کوئی مسلمان کسی مرتد کاوارث نہیں بن سکتا۔
10۔مرتد کے مرنے کے بعد اس سے مسلمانوں جیسا سلوک ہرگزنہیں کیا جائے گا۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلامی قانون میں بھی غدارکی وہی سزا ہے جودنیابھر کے دیگر قوانین میں باغیوں کے لیے رکھی گئی ہے بلکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر کے قوانین میں باغی کی وہی سزا ہے جو اسلامی شریعت نے مقرر کی ہے۔کیونکہ دنیا بھر کی اورانسانی تاریخ کی کوئی ریاست اور کوئی فوج اپنے باغی کو حق زندگی دینے کے لیے تیارنہیں ہے۔اور عدالتی کاروائی کا حق بھی صرف اسلام نے دیاہے کیونکہ اسلام ہی انسانیت کا دین ہے جبکہ بقیہ ادیان و نظام ہائے دنیا تو صرف کورٹ مارشل پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا بعض اوقات اسکی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور باغی کوموت کے گھاٹ اتار دیاجاتاہے۔اﷲ تعالٰی ہمیں اس بہت بڑے گناہ سے محفوظ رکھے اور ہم اپنے رب کے ہاں ایک مسلمان کی حیثیت سے اور اسکے آخری رسول ﷺ کے پیروکار کی حیثیت سے پیش ہوں۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 572190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.