رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ (حق تعلیم
قانون ) کے آئینی جواز کے خلاف 32رٹ درخواستوں کے مجموعے پر ایک ساتھ فیصلہ
صادر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے12اپریل کے تاریخی فیصلے میں اس کے آئینی جواز
پر مہر تصدیق لگادی ہے۔ راحت کی بات یہ ہے کہ دینی مدارس اور غیر امداد
یافتہ اقلیتی اداروں کو قانون سے مستثنی قرار دیدیا گیاہے ۔البتہ امداد
یافتہ اقلیتی تعلیمی ادارے نرغے میںہیں اور ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا
اندیشہ ہے۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ایچ ڈی کپاڈیا کی سربراہی میں تین رکنی
بنچ نے دیا ہے۔ جسٹس کپاڈیا نے اپنی طرف سے او رجسٹس سوتنترا کمار کی طرف
سے اکثریتی فیصلہ قلم بند کیا، جب کہ جسٹس رادھا کرشن نے الگ فیصلہ سنایا۔
قانون کے آئینی جوازپر تینوں لائق جج ایک رائے ہیں البتہ امداد یافتہ
اقلیتی تعلیمی اداروں اور غیر امداد یافتہ دیگر اداروں پر اس قانون کے نفاذ
سے جسٹس رادھا کرشن نے اتفاق نہیں کیا ہے۔ بعض این جی اوز اس فیصلے کے خلاف
نظر ثانی عرضی داخل کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔
پس منظر
یو پی اے سرکار نے 1997میں آئین میں 86ویں ترمیم کرکے اس میں ایک شق
21Aبعنوان ’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘ (تعلیم کا حق )کا اضافہ کیا۔ اس کی تین ذیلی
شقیں ہیں: (1) سرکار 6 تا 14سال کی عمر کے ہرشہری کو مفت اور لازمی تعلیم
فراہم کریگی۔(2)اس حق کا نفاذ اس طرح ہوگا جس طرح حکومت قانون وضع کرکے
کرنا چاہیگی۔(3) سرکارمفت اور لازمی تعلیم کےلئے ایسا کوئی قانون نہیں
بنائیگی جس کا نفاذ کسی ایسے اسکول پر ہو جو سرکار کے تحت نہیں یا سرکار سے
مالی امداد حاصل نہیں کرتا۔
چنانچہ اس آئینی ترمیم کے نفاذ کےلئے ایک قانون ”حق تعلیم ایکٹ2009-“ بنایا
گیا۔اس قانون کی بنیادی خامی یہ ہے اس میں سماجی سمرستا کو جو سپنا دیکھا
گیا ہے وہ اب تک کے ہمارے تعلیمی نظریہ کے منافی ہے اور معیار تعلیم کے حق
میں سم قاتل ہے۔ اس سے تو کسی کو اختلاف نہیں کہ تعلیم ہر بچہ کا حق ہے اور
غریب طبقہ کے بچوں کےلئے خصوصی بندوبست ہونا چاہئے ۔ مگر یہ اس طرح ہونا
چاہئے کہ اس سے موجودہ اسکولوں کا معیار اور ماحول تباہ نہ ہوجائے۔ یہ ذمہ
داری سرکار کی ہونی چاہئے کہ قدم قدم پر اسکول قائم کرے تاکہ ہر بچہ کو
داخلہ مل سکے اوروہ اپنی فطری استعداد کے مطابق ابتدائی تعلیم پا سکے۔فی
الحال بیشتر سرکاری اسکولوں میں محض خانہ پوری ہوتی ہے۔ ٹیچرس مطلوب
تعدادسے کم ہیں اور جو ہیں ان کی دلچسپی پڑھانے سے زیادہ ’مڈ ڈے میل‘ کی
اضافی ذمہ داری میں رہتی ہے۔ان اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کا قحط ہے۔
معیار پست ہے۔ اس اہم ذمہ داری سے سرکار پہلو بچا رہی ہے اوراس قانون کے
ذریعہ یہ تدبیر کی جارہی ہے کہ اپنا بوجھ جبراًان پرائیویٹ اداروں پر ڈال
دے جواپنے طور پر فروغ تعلیم کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تشویش کی بات یہ
بھی ہے کہ اس قانون کی بدولت نیا اسکول کھولنا اتنا مہنگا ہوجائے گا کہ صرف
بڑے دولتمند افراد یا کارپوریٹ گھرانے ہی کھول سکیں گے۔ظاہر ہے ان کا مقصد
صرف کاروباری ہوگا۔ اس لئے غریب علاقوں کو نظرانداز اور خوشحال علاقوں کو
ترجیح دینے کا رجحان بڑھے گا اورخواندگی کا فروغ صرف تجارت بن کر رہ
جائیگا۔اس قانون کا دوسرا مہلک اثر یہ ہوگا کہ محلوں میں یا غریب بستیوں
میں جو پرائویٹ اسکول چھوٹی چھوٹی کچی پکی عمارتوں میں چل رہے ہیں، ان کو
بندکردینا پڑیگا۔ بڑے اسکولوں میں تعلیم مہنگی ہوجائیگی اور معیار پست ہو
جائیگا۔آٹھویں جماعت تک کیونکہ بغیر امتحان ترقی ملتی رہے گی اس لئے ڈراپ
آﺅٹ مصنوعی طور سے ختم نظرآئیگا مگر آٹھویں کے بعد تعلیم جاری رکھ سکنے
والے طلباءکی تعداد گرجائیگی۔ جس سے اعلا تعلیم کا نظام اورمعیار بھی
لازماًمتاثر ہوگا۔
آئینی مگر ناپسندیدہ
عدالت جانے والوں نے اس قانون کے آئینی جواز کے علاوہ اس کی جن اہم شقوں پر
اعتراض کئے ان میں ایک چوتھائی سیٹیں مالی اعتبار سے کمزور طبقات کے بچوں
کی مفت تعلیم کےلئے محفوظ کئے جانے اور اسکول کے آس پڑوس کے ہر اس بچے کو
جو داخلہ لینے آجائے ، بہر حال داخلہ دینے اور آٹھویں تک بغیر امتحان ہرسال
لازماً ہر بچے کو اگلی جماعت میں ترقی دینے جیسی جابرانہ اورغیر منطقی شقیں
شامل تھیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے 180صفحات پر مشتمل فیصلے میں اگرچہ قانون کے
آئینی جواز کو تسلیم کیا ہے مگر اس کا آغاز امریکی عدالتی فیصلے کے جس معنی
خیزجملہ سے کیا ہے اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ قانون آئینی طور بھلے ہی درست
ہو مگر یہ اس کی معقولیت کی سند نہیں۔ عدالت نے نوٹ کیا ہے: ”کسی چیز کے
آئینی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مطلوب اور پسندیدہ بھی ہے“۔
To say that "a thing is constitutional is not to say that it is
desirable" [see Dennis v. United States, (1950) 341 US 494].
اس قانون میں جبر کا یہ پہلو بھی شامل ہے کہ اگر کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا
تو یہ ایک فوجداری جرم ہوگا اور اس کے والدین کو جیل بھیج دیا جائیگا۔ بچے
کو اسکول بھیجنے کے واسطے والدین کو آمادہ کرنے کےلئے ترغیب و تحریص کے
بجائے جیل بھیج دینے کا نظریہ غیرجمہوری اورکلیت پسندانہ ہے جو جابروں کا
طرہ امتیاز ہے۔مزید یہ کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کرپشن بڑا مسئلہ ہے یہ
قانون غریب والدین کے استحصال کا ایک اور ہتھیار بن جائیگا۔
ہمسری کا ماحول مطلوب
یہ مسلمہ اصول ہے کہ پڑھنے پڑھانے کےلئے ہمسری کا ماحول سازگار ہوتا ہے۔
ہرسماجی پس منظر کے کمسن بچوں کو ایک ہی کلاس روم میں بٹھا دیناان کےلئے
نفسیاتی مسائل پیدا کردیگا۔ غریب کاجو بچہ اپنے ارد گرد دولت مندبچوں کے
ٹھاٹ باٹ دیکھے گا، اس کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوگی؟ قانون سازوں نے اس پہلو
کو یکسر نظر انداز کردیا۔جوبچہ احساس کمتری میں یا برتری میں مبتلا
ہوجاتاہے اس کا ذہنی ارتقاءرک جاتا ہے۔ احساس کمتری میں مبتلا بچہ یا تو
مایوس ہوکرتباہ ہوجائیگا یا سرکش ہوجائیگا۔ یہ دونوں صورتیں معاشرے کےلئے
تباہ کن ہیں۔
اس قانون نے منتظمین کا یہ اختیار سلب کرلیا کہ وہ اسکول کا ماحول اور
تعلیمی معیار برقرار رکھنے کےلئے اپنے ضوابط اور معیار کے مطابق بچوں
کوداخلہ دیں۔فطری طور سے ہر بچہ کی ذہنی سطح مختلف ہوتی ہے۔ مختلف سماجی
زمروں سے آنے والے بچوں کا گھریلو ماحول بھی مختلف ہوتا ہے ۔ ہم یہ بات
سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک کند ذہن بچہ کو جب ذہین بچوں کی جماعت میں بٹھا
دیا جائیگا اور بغیر کسی امتحان کے ہر سال اگلی جماعت میں بڑھا دیا جائیگا
تووہ کیا خاک پڑھ پائیگا؟ یہ بجا کہ غریب کا بچہ بھی ذہین ہوسکتا ہے اورہر
ذہین بچے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ۔ اسی لئے ہم ’ٹیلنٹ ہنٹنگ‘ یعنی ذہین
بچوں کی شناخت اور پھر ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ پر زور دیتے ہیں، لیکن
ذہانت کو نظر انداز کرکے سب بچوں کو ایک ہی کلاس روم میں بٹھا دینا، ذہانت
کی راہ مسدود کردینا ہے۔ غریب طبقہ کے جو بچے ذہین ہیں بیشک ان کو اچھے
اسکولوں میں داخلہ ملنا چاہئے اور ان کا خرچ سرکار کو ادا کرنا
چاہئے۔موجودہ صورت میں بیشک یہ قانون نظام اورمعیار تعلیم کےلئے تباہ کن
ثابت ہوگا۔چنانچہ ہم یہ سمجھتے ہیں ایکٹ مجریہ 2009 پر ماہرین تعلیم کے
مشورے سے مناسب اصلاحات پر زور دیا جانا چاہئے۔ تعلیمی تحریک کے ایک اہم
رہنما جناب سید حامد، سابق وی سی، مسلم یونیورسٹی کی قائم کردہ اور ان کی
رہنمائی میں سرگرم این جی او ”آل انڈیا ایجوکیشنل مووومنٹ“نے یہ طے کیا ہے
کہ15جولائی کو علی گڑھ میں ماہرین تعلیم اور قانون دانوں کی ایک ورکشاپ
منعقد کرکے ان اہم پہلوﺅں کی نشاندہی کی جائے جو تعلیمی ماحول کے تحفظ اور
فروغ کےلئے مطلوب ہیں اور جن کو اس قانون میں نظرانداز کردیا گیا ہے یا اس
قانون سے اس پر زد پڑتی ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسا چارٹر تیار کرنا ہے جس پر
مختلف تعلیمی تحریکات اور انجمنیں عوامی بیداری مہم چلاسکیں اور حکومت
کومطلوبہ اصلاح کی طرف متوجہ کراسکیں۔
مدارس مستثنی
جسٹس رادھا کرشن نے اپنے الگ فیصلہ کی شق 137میں اقلیتی اور مذہبی تعلیمی
اداروں کے تعلق سے اس قانون پرفیصلہ صادر کیا ہے۔ معزز جج نے عدالت میں
حکومت کے اس موقف کو نوٹ کیا ہے کہ ”اس قانون کا نفاذ ان مذہبی اداروں پر
نہیں ہوگا جن کے نصاب کا غالب حصہ مذہبی ہے اور سیکولر پرائمری تعلیم ان کے
نصاب پر غالب نہیں ہے۔“ فیصلے میں کہا گیا ہے: ” سرکار نے عدالت کو بتایا
ہے کہ مدرسے اور ویدک پاٹھ شالائیں وغیرہ جو مذہبی تعلیم میں مصروف ہیں، اس
قانون کے نفاذ سے مستثنی ہیں۔“ فیصلہ میں یہ بھی درج کر دیا گیا ہے: ”
مرکزی سرکار نے 23-11-2010 کو ایکٹ کی دفعہ 35(1)کے تحت اس پوزیشن کوواضح
کرتے ہوئے (کہ اس ایکٹ کا نفاذ مدارس اور پاٹھ شالاﺅں پر نہیں ہوگا)رہنما
اصول بھی جاری کردئے ہیں۔“
جسٹس رادھا کرشن کی اس رائے سے جسٹس کپاڈیا اور جسٹس سوتنتر کمار نے اپنے
اکثریتی فیصلے میں اختلاف نہیں کیا ہے ، چنانچہ جسٹس رادھا کرشن کا یہ
فیصلہ کہ اس ایکٹ کا نفاذ مدارس پر نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ
سمجھا جائیگا۔ یہ رہنما اصول کیونکہ اس عدالتی فیصلے کا حصہ بن گئے ہیں
چنانچہ ان میں کوئی تبدیلی یا چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں اور اس قانون میں اس
پہلو سے ترمیم کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ البتہ عصری اقلیتی اسکولوں کے سر
پر خطرہ برقرار ہے۔
جسٹس رادھا کرشن نے ان تمام تعلیمی اداروں کو جو سرکاری امداد نہیںلیتے اس
قانون سے مستثنی قراردیا ہے مگر ان کے اس فیصلے کے صرف اس حصے سے دیگر دو
معزز ججوں نے اتفاق کیا ہے کہ وہ اقلیتی تعلیمی ادارے جو سرکار سے امداد
نہیں لیتے، اس قانون کے نفاذ سے مستثنیٰ رہیں گے۔ جب کہ دیگر غیر امداد
یافتہ اداروں پر اس قانون کا نفاذ ہو گا۔ جسٹس رادھا کرشن کی دلیل یہ ہے کہ
سب کو تعلیم سرکار کی ذمہ داری ہے ، جو ادارے اپنے وسائل سے چل رہے ہیں،
سرکار اپنی ذمہ داری ان پر نہیں ڈال سکتی ، جبکہ اکثریتی فیصلے میں دلیل دی
گئی ہے کہ یہ ادارے مشن کے جذبہ کے بجائے کاروباری سرگرمی کے طور پر چل رہے
ہیں اور غریب بچوں کی تعلیم میں ان کو ہاتھ بٹانا چاہئے۔علاوہ ازیں ہم
سمجھتے کہ شاید ہی کوئی امدادیافتہ مسلم اقلیتی اسکول ایسا ہو جس میں مالی
طور پر کمزور طبقہ کے بچے پہلے ہی کثیر تعداد میں موجود نہ ہوں۔
تعلیمی پسماندہ طبقات نظرانداز
سرکار نے قانون بناتے وقت تعلیمی طور پر پچھڑے ہوئے طبقات کو نظر انداز
کردیا اور عدالت میں کسی نے اس نکتہ کو نہیں اٹھایا۔مالی طور پر کمزور
طبقوں کےلئے 25فیصد داخلے لازم کئے جانے کا خیر مقدم ہے۔لیکن تعلیمی طور سے
پسماندہ طبقات کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟گوپال سنگھ پینل ، سچر کمیٹی
،مولانا آزاد ایجوکیشن فاﺅنڈیشن، قومی تعلیمی پالیسی ڈوکومنٹ سمیت مختلف
سرکاری دستاویزات میں مسلم اور بودھ اقلیت کو تعلیمی طور پر پسماندہ تسلیم
کیا گیا ہے۔بعض طبقے اقتصادی طور پر خوشحال ہونے کے باوجود تعلیم سے محروم
ہیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جس بچے کے والدین اعلاتعلیم یافتہ نہیں ان کےلئے
بھی داخلوں میں کچھ رعایت رکھی جاتی ۔مگر سرکاری پالیسی اس کی الٹ ہے۔ جن
والدین کے بچے تعلیم یافتہ ہیں ان کے بچوں کو ترجیح اور جن کے غیر تعلیم
یافتہ ہے وہ نظرانداز۔اس سال دہلی کے اہم اسکولوں میں مسلم بچوں کو کم
داخلے ملے، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ تعلیمی پسماندگی کا مداوے پر سرکارکی
توجہ نہیں۔وہ اگر پیسہ خرچ کرکے بھی بچوں کو پڑھانا چاہیں تو نہیں پڑھا
سکتے ۔ان کی قسمت میں زیادہ سے زیادہ وہی اسکول ہیں جن میںنہ چھتیں ہیں، نہ
پینے کا پانی دستیاب ہے اور نہ کلاسوں میں بیٹھنے کےلئے ٹاٹ پٹیاں ہیں اور
جن میں بچے سالوں گزارنے کے باوجود اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے ، کتاب بھی
روانی سے نہیں پڑھ سکتے۔
انفرا اسٹرکچر کی شرط
اس ایکٹ کے تحت ایک ٹیچر کی کلاس میں بچوںکی تعداد 30سے زیادہ نہیں ہوسکتی
اور ٹیچر ٹرینڈ ہونے چاہئیں۔ ایک اندازہ کے مطابق اس کےلئے دس ملین تربیت
یافتہ ٹیچرس کی ضرورت ہوگی۔ کہاں سے آئیں گے وہ ٹیچرس؟ ایکٹ کی دفعہ 19کے
تحت اسکول کی عمارت ، کمروں،کھیل کے میدان اور دیگر سہولتوں کے جو معیار
مقرر کئے گئے ہیں وہ گنجان آبادی میں واقع اسکول پورا کرہی نہیں سکتے۔
سرکاری اسکول اس سے آزاد ہیں جبکہ نجی اسکول پابند۔مزید ستم یہ کہ ریاستی
حکومتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے جو ادارے ان معیارات کو تین سال کے اندر
پورا نہ کریں، ان کی منظوری منسوخ کردی جائے۔ان کو بند کردیا جائے۔یہ ایک
خطرناک ضابطہ ہے جس سے انسپکٹر راج کا بول بالا ہوگااور رشوت خوری کا ایک
نیا در کھلے گا۔ ملک بھرمیں سول ایڈمنسٹریشن میں مسلم مخالف ذہنیت کا رفرما
ہے۔اس لئے اس کی زد امداد یافتہ ان مسلم پرائمری اسکولوں پر لازماً پڑیگی
جواپنے محلوں میں کسی طرح تعلیم کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔ ان کی منظوری منسوخ
کی جاسکتی ہے۔ ان پر پہلی ہی نوٹس کے ساتھ ایک لاکھ روپیہ اور پھر یومیہ دس
ہزار روپیہ جرمانہ بھی عاید ہوسکتا ہے۔
گجرات سرکار نے گزٹ(54) مجریہ 18فروری کے ذریعہ ایکٹ کے نفاذ کے جو ضوابط
جاری کئے ہیں ،ان میں کہا گیا ہے اسکولوں کی منظوری منسوخ کرنے یا ان کو
بند کردینے سے، ان بچوں کو دیگر اسکولوں میں داخل کرنا ہوگا جو اسکولوں کی
کمی کی وجہ سے ناممکن ہوگا اس لئے ایسے اسکولوں کا انتظام یا تو تیسری
پارٹی کو منتقل کیا جاسکتا ہے یا خود سرکار اپنے ہاتھ میںلیگی۔ ظاہر ہے جو
دلیل دی گئی وہ وزنی ہے ۔ مدھیہ پردیش سرکار بھی اپنے ضوابط بنارہی ہیں۔
دیگر ریاستیں بھی بنائیں گیں۔ ملت کو اس خطرے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے ورنہ
اندیشہ ہے امداد یافتہ عصری اسکول اس کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔ مدارس کے
بارے میں جو کوشش ہوئی الحمدللہ اس کا نتیجہ نکل آیا۔اسکولوں کو لاحق اس
خطرے پربھی توجہ دی جانی چاہئے۔(ختم)
مضمون نگار آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر
ہیں۔ |