قاضی حمید اللہ بھی اللہ کو
پیارے ہو گئے ایک چراغ اور بجھا اور بڑھ گئی تاریکی ۔اس دن بدن بڑھتی
تاریکی میں صرف گریہ وزاری اور ماتم وبکا ہی کافی نہیں بلکہ حضرت قاضی صاحب
ؒ کی شخصیت کے قابل تقلید اور نمایاں اوصاف کے چراغ روشن کرنے اور ان سے
اپنی منزل کا سراغ پانے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ اس مردِ خدا کی زندگی بہت سے
لوگوں کے لیے مینارہ نور تھی ،صوبہ سرحد کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ گاﺅں
سے اٹھ کر گوجرانوالہ جیسے شہر میں ڈیرے ڈالنے والے قاضی حمید اللہ جان کی
زندگی کے پانچ پہلو قابل غور بھی ہیں اور قابل تقلید بھی ۔
(1)....انہوں نے علم کو اپنا او ڑھنا بچھونا بنایا ،منقولات ومعقولات دونوں
میں کمال پایا ،مطالعہ میں وسعت پیدا کی ،تدریس کی مسند پر بیٹھے اور دن
رات ایک کردیا ،گزشتہ پینتالیس برسوں سے مسقتل مزاجی اور باقاعدگی کے ساتھ
علوم و فنون کی دولت بانٹتے رہے ۔تشنگان علوم نبوت جانے کہاں کہاں سے
پروانوں کی طرح کھچے چلے آتے ؟ انہوں نے جہاں ڈیرہ ڈال رکھا تھا وہاں کوئی
عالیشان عمارت تھی ، نہ ماہانہ وظیفے کا انتظام ،کھانا بھی سادہ اور رہن
سہن بھی عامی سا.... لیکن اس کے باوجود قاضی صاحب کے ہاں ہجوم ہوتا ....
علم کی تلاش اور تکمیل کی خواہش میں آنے والے آتے .... ہر مزاج، ہر علاقے
اور ہر طبقے سے آتے اور خوب سیراب ہوکر واپس لوٹتے ....قاضی صاحب بھی ایسے
پڑھاتے کہ گئے زمانوں کے اہل علم کی یادیں تازہ ہو جاتیں ....ان کی مدرسہ
سے وابستگی ،علمی رسوخ ،کتب سے دوستی ،مطالعہ کا ذوق ،تدریس کا انداز ،اپنے
فنون میں مہارت ایک ایسی امتیازی شان تھی جو آج چراغ لے کر ڈھونڈ یں تب بھی
نہیں ملتی.... اگر جواں سال فضلاءاور سطحی مزاج نو واردان تدریس اسے اپنا
لیں تو وہ آسمانِ علم کے جگمگاتے ستارے بن سکتے ہیں ۔
(2).... حضرت قاضی صاحب ایک غریب الدیار مدرس تھے جنہوں نے صوبہ سرحد سے
آکرگوجرانوالہ میں ڈیرے ڈالے تھے.... وہ اس شہر کے مزاج سے بھی واقف نہ تھے
اور رواج کو بھی نہ جانتے تھے ،یہاں کے باسیوں کی زبان بھی نہ سمجھتے تھے
اوران کی ترجیحات و نفسیات کا بھی ادراک نہ رکھتے تھے لیکن انہوں نے اپنے
آپ کو گوجرانوالہ کے ماحول میں اس انداز سے سمویا کہ اس شہر کے لوگ انہیں
اپنا بھائی ہی نہیں بلکہ مائی باپ سمجھنے لگے ، سب فاصلے مٹ گئے ،دوریاں
ختم ہوگئیں ،اجنبیت جاتی رہی، ایسا انس پیدا ہوا ،اتنی قربتیں بڑھیں کہ اب
وہ غریب الدیار شخص سب کے دلوں کی دھڑکن بن گیااور گوجرانوالہ کے باسیوں کے
دلوں پہ حکمرانی کرنے لگا ....گوجرانوالہ شہر کے وہ لوگ جن کی خوش خوراکی
اور پہلوانی ہی ضرب المثل تھی اب ان کی دین سے وابستگی ، دینی وایمانی غیرت
اور علم واہل علم کی قدردانی کے بھی چرچے ہونے لگے اس تبدیلی میں امام
اہلسنت حضر ت مولانا سرفراز خان صفدر اور صوفی عبدالحمید سواتی سے لے کر
مولانا قاضی عصمت اللہ اور مولانا زاہد الراشدی تک بہت سے لوگوں کی محنت کا
دخل تھا ....خوش خواراکوں اور پہلوانوں کے اس شہر کے باسی قاضی صاحب کے
اشارہ ابروپر دین مبین کے لیے مر مٹنے پر آمادہ ہو گئے ....قاضی صاحب نے
لوگوں کو اشارہ کیا تو وہ میرا تھن ریس روکنے نکل کھڑے ہوئے .... اسی شہر
کے لوگ تھے جنہوں نے قاضی صاحب کی قیادت میں زندانوں کو آباد کر دیا....
ایک ایسا خطہ جہاں کے رہنے ولے مولوی کو عزت و احترام تو دینے پر آمادہ تھے
لیکن ووٹ دینے کا سوال ہی پیدا نہ ہو تا تھا انہوں نے قاضی صاحب پر اپنے
ووٹ بھی نچھاور کر ڈالے اور انہیں اسمبلی تک پہنچا دیا ....آ ج کے دور کے
جوان سال عالم دین اور مذہبی کارکن کو قاضی صاحب کی رحلت کے موقع پر سوچنا
چاہیے کہ آج کیا وجہ ہے کہ ہم میں اور عوام میں اتنے فاصلے اور دوریاں کیوں
پیدا ہوگئیں ؟ان کا ازالہ کیونکر ممکن ہے ؟کس کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے
؟کس طرز عمل کو اختیار کرنے کی حاجت ہے جس کے ذریعے قاضی صاحب جیسے کی طرح
عوام الناس میں اثر و رسوخ حاصل کیا جا سکتا ہے اور عوام اور اہل علم کے
مابین ربط کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
(3)....قاضی صاحب نے صر ف درس و تدریس پر ہی اکتفاءنہ کیابلکہ جس وقت حالات
کا تقاضا ہو ا تو انہوں نے خانقاہوں اور درسگاہوں سے نکل کر رسم شبیری اد ا
کرنے کی ہمت بھی کی....اور ایسے وقت میں کی جب پرویز مشرف کے اقتدار کا
سورج نصف النہار پر تھا .... ان کی اس ہمت سے نہ صرف یہ کہ پرویز مشرف اور
اس کے آقاﺅں کی بدمست ہوئی روشن خیالی ،آوارگی اوربد تہذیبی کا سیلاب رک
گیا بلکہ قاضی صاحب کی اس جرات رندانہ نے انہیں عوام و خواص میں مقبول بنا
دیا.... اگر ہر مسجد کا امام ، ہر مدرسہ کا استاذ اور میراثِ نبوت کا ہر
وارث اپنے دل میں ایسا جذبہ ،ایسی ہمت اور حوصلہ پیدا کر لے تو قومی اور
علاقائی سطح کے بہت سے منکرات کو روکا جا سکتا ہے ....بہت سے رواج بدلے جا
سکتے ہیں ....اور بہت سی خرافات سے اپنی اوراس امت مرحومہ کی جان چھڑائی جا
سکتی ہے ۔
(4)....قاضی حمیداللہ جان نے اپنی زندگی کو صرف درس و تدریس اور وعظ و
تلقین تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے خدمتِ خلق کو بھی اپنا اوڑھنا
بچھونا بنایا ،ایم این اے بننے سے پہلے بھی وہ لوگوں کے دکھ درد میں شریک
ہوتے ،مشکل و قت میں ان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملائے کھڑے نظر آتے لیکن
ایم این اے بننے کے بعد انہوں نے خدمت خلق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔انہوں
نے اپنے حلقے کے عوام کی صرف دینی ضروریات پہ ہی توجہ نہ دی بلکہ ان کی
دنیوی حاجات کا بھی خیال رکھا.... ان کے اجتماعی مسائل پر
بھی نظر رکھی ....ان کی انفرادی مشکلات کی زنجیریں بھی توڑنے کی کوشش کی
....ان کی اسی خدمت خلق اور رفاہی و فلاحی خدمات نے نہ صرف یہ کہ ان کی ذات
کو بلکہ تمام اہل علم اور اہل دین کو اس خطے کے لوگوں کی نظر میں معزز و
معتبر کر دیا ۔
(5)....قاضی حمیداللہ صاحبؒ نے اپنے کردار و عمل کے ذریعے ایسی مثال قائم
کی کہ ان کی زباں سے کوئی لفظ بعد میں نکلتا لوگ اس کی تکمیل اور تعمیل کے
لیے پہلے دوڑ پڑتے ....ان کا اخلا ص اور ان کا تقوٰی ایک منفرد مثال تھی
....وہ سیاست میں آئے لیکن خود کو سیاست کی آلودگیوں سے بچائے رکھا ....ایم
این اے بنے اور اس کے باوجود ان کی دیانت سکہ رائج لوقت رہی ....انہوں نے
اپنی دستار کو بھی دونوں ہاتھوں سے تھامے رکھا ....اور اپنے دامن کو بھی ہر
داغ سے بچائے رکھا اور آ ج وہ اس حال میں اپنے اللہ کی طرف روانہ ہوئے کہ
ہر زبان پر ان کی تعریف و توصیف ہے ....بالکل اس خوش نصیب صحابی ؓ کی طرح
جن کے جنازے کے بارے میں لوگوں کی تعریفی گفتگو سن کر حضور ﷺ نے فرمایا تھا
”ان پر جنت واجب ہو گئی “قاضی صاحب کے گوجرانوالہ ،اسلام آباد اور چارسدہ
میں جو تین جنازے ہوئے اور ان جنازوں میں ان کی عظمت اور نیکی کی گواہی
دینے جتنے اہل علم و عمل آئے انہیں دیکھ کر بے ساختہ زبان سے ”وجبت “کا لفظ
نکلتا تھا ۔ قاضی صاحب تو فردوس کے بالا خانوں میں جا چکے لیکن آج مذہبی
جماعتوں کے کارکنوں ،دینی مدارس کے اساتذہ و طلباءاور اہل علم کے سامنے ان
کی زندگی کے بے شمار کمالات و اوصا ف میں سے پانچ وصف بہت نمایاں ہیں ۔اگر
ہم سب علمی رسوخ ،درس و تدریس میں مستقل مزاجی کو اپنا ذوق بنا لیں ....عوام
الناس کی غمی خوشی میں شریک ہو نے اور ان سے اللہ کی رضا کے لیے ربط بڑھانے
کو اپنا معمول بنا لیں ....امر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا حوصلہ اورہمت
پیدا کر لیں ....خلق خدا کی خدمت کو اپنی زندگی کو نصب العین قرار دیں ....اور
کردار و عمل کی کوئی مثال پیش کر سکیں تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے ۔ |