تحریر:حکیم محمد اشرف ثاقب
حقیقت وواقعات اور معاشرت اور معاشرے میں رہنے والے افراد معاشرے کی تعریف
ہے۔ امیر غریب،سفید پوش کار گوٹھی ، جھونپڑی میں رہنے والے تما م طبقات
معاشرے کا حصہ ہیں۔ نیکی بدی آگے بڑھنے والے یا تو اللہ سے دور ہو جا تے
ہیں یا اللہ کے قریب ہو جا تے ہیں۔یہ تما م افراد معاشرے کا حصہ ہیں شادی
غمی خوشی زندگی کے شب و روزمیں پیدا ہو نے والے اُتار چڑھا ﺅ ظلم و ستم
انسا نیت سو ز سلو ک نرم دل پتھر دل والے تما م معاشرے کا حصہ ہیں۔مگر ان
تما م اور مو جو دہ حالا ت میں میرے نزدیک اور میرے مشاہدے میں غریب آدمی
اب بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر مطمئن ہے اور شکر ادا کر تاہے۔
سرائیکی میں ایک مقولہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اج وی اللہ ڈتائے ۔۔۔کل دی روزی وی اللہ
ڈیسی
امیر اور اونچے طبقہ سے تعلق رکھنے والے بے چارے ہروقت جمع تفریق سٹینڈرڈ
کار کو ٹھی کے چکر میں فکر مندی کی زندگی گزار رہے ہیں۔گزشتہ روز میں اپنے
گاﺅ ں سے بھکر آرہا تھا کہ جب گاڑی بھکر کے قریب پہنچی تو سڑک بلا ک تھی
اور سڑک کے کنا رے آدمیو ں کا ایک ہجو م تھا ڈرائیور نے گا ڑی روکی اور میں
نے لوگوں کا ہجو م دیکھا تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ۔میں نے سمجھا کہ
کو ئی نا خوشگوار واقعہ پیش آگیا ہے ایکسیڈنٹ یا لڑائی جھگڑا میں نے جب
اپنی عمیق نظروں سے جا ئزہ لیا ایک ٹولہ ڈھول کی تاپ پر ڈانس کر رہا تھا
اور ایک ٹولہ اپنی گدھا ریڑھی کے قریب نعرے با زی مو تی زندہ باد۔۔۔۔مو تی
زندہ باد ۔۔۔نوازا زندہ باد ۔۔۔کے نعرے لگ رہے تھے۔جب میں نے یہ منظر دیکھا
تو میرے دل کی دھڑکن آہستہ ہو ئی خوشی کا اظہا ر ہو نے لگا۔کیو نکہ آج کل
حالا ت ایسے ہیں کہ معاشرتی پریشانیا ں بے روزگاری ایکسیڈنٹ کیسز مہنگائی
اور حکمرانوں کی غلط پا لیسیا ں لوڈ شیڈنگ بجلی بحران ان تما م عوامل نے لو
گوں کو چڑچڑا پن اور ذہنی ڈپریشن میں مبتلا کر دیا ہے ۔ایسے حالا ت معاشرے
میں منفی رجحا نا ت پیدا کر رہے ہیں۔اور اور چھوٹی چھو ٹی معمولی باتوں پر
قتل کی نو بت پہنچ چکی ہے۔مگر ایسے حالا ت ہیں۔ میں نے اپنے سٹاپ پر اُتر
کر سب سے پہلے روڈ پر حالات کا جا ئزہ لیا اور لو گوں سے پو چھ گچھ کی تو
پتہ چلا کہ آج گدھا ریڑھی والو ں کے درمیان ایک ریس تھی۔ یہی با تیں ہو رہی
تھیں کہ مشرقی سا ئیڈ خانسر چوک پر ایک بڑا جلو س اُنکی ترتیب اور ڈسپلن
دیکھ کر مجھے ایسا لگا کو ئی منسٹر آرہا ہے۔ سب سے آگے وہ گدھا ریڑھی اور
اُس گدھے کی گر دن میں نو ٹوں اور مالہ کے ہا ر جیتنے والا اور اُنکے چند
دوست نعرے با زی اور خوشی کے گیت گا رہے تھے۔ اُنکے پیچھے مو ٹر سا ئیکل
سوار رکشے والے اور ڈاٹسن پر بے شما ر تما شائی ایک جلو س کی صو رت میں
اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے۔
قارئین محترم۔ میرا کہنے کا مقصد اور جو میں اپنے اندر کی با ت نو ک قلم سے
کینوس پر تصوریر بنا نا چاہتا ہو ں ۔ مجھ سے بن نہیں پا رہی میں اللہ سے
لفظو ں کا ذخیرہ ما نگ رہا ہو ں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آج نفسا نفسی کا عالم ہے
کو ئی کسی کا نہیں ، پیا ر محبت، اخو ت و مسا وات کے جذبا ت ختم ہو گئے
ہیں۔ لو گ ایک دوسرے کو کا ٹ کھانے کو آتے ہیں۔محبت کی جگہ نفرتوں اور
کدورتوں نے لے لی ہے۔
مگر اُس دن میں نے یہ منظر دیکھا ۔یہ بے زبا نو ں کی کھیل اور تفریحی لذت
محسوس کی اور جن غریب اور مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کا بے زبا ن جا
نور ریس میں کا میا ب ہو ناکا میا بی کے بعد وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو
نا، اور ایک دوسرے کے ما تھے کے بو سے لے رہے تھے ۔ خوشی کے نغمے جیت کے
گیت اور نعرے با زی اُن کی زبان پر جا ری و ساری تھی ۔ ایسا محسو س ہو تا
تھا جیسے انہیں کا ئنا ت کی بہت بڑی خوشی ملی ہے۔
قارئین محترم دیکھئے میں جس کو آپ کے سامنے پیش کر نے کی کو شش کر رہا ہو ں
کہ دنیا میں غریب ہونا کو ئی جرم نہیں اگر آپ کسی غریب آدمی سے پو چھیں کہ
بھا ئی کیسے گزارا چل رہا ہے تو 99فیصد الحمد للہ اُس کی زبان سے اللہ کا
شکر ادا ہو گا۔ اور اُس کا چہرہ ہشاش بشاس دکھا ئی دے گاکیونکہ رزق حلا ل
میں برکت ہے۔ میرے نبی ﷺ نے فرما یا کہ سب سے بہترین رزق ہا تھ سے کما یا
ہو ا رزق ہے۔
یہاں پر بس نہیں ،قارئین محترم میرے آقا ﷺ کے پا س ایک صحابی آیا اور فرما
یا ۔ یا رسول اللہ ﷺ گھر میں تنگی بھوک اور افلاس سے فاقوں تک نو بت پہنچ
گئی ہے ۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ آقائے دوجہاں ہیں خوشحالی کی دعا فرما ئیں آپ
نے آسما ن کی طرف دیکھا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری آپنے صحا بی کے کندھے پر ہا
تھ رکھا اور فرما یا کہ میرے پیا رے ربِ ذوالجلا ل کی قسم جو تما م کا ئنا
ت کا پالنے ولا ہے۔اگر میں دعا کروں تو یہ اُحد کے پہا ڑ سو نا بن جا ئیں
اور میرے سا تھ سا تھ چلنے لگیں مگر میں یہ نہیں چاہتا آپ ﷺ کی زبا ن مبا
رک سے کیا تاریخی الفاظ نکل رہے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا
کہ میرے صحا بی میں تو اللہ سے یہ دعا ما نگتاہوں کہ اللہ مجھے ایک وقت
روٹی دے اور ایک وقت مجھے بھوکا رکھے ۔ تاکہ میں شکر اور صبر کے جذبا ت کا
اظہا ر کر سکو ں۔
اللہ تعالیٰ کو شکر اور صبر یہ دونو ں خصلتیں بہت پسند ہیں۔ مگر آج بد
قسمتی سے ایما ن ویقین کی کمزوری اور اللہ کی ذات اقدس پر شکر اور صبر کی
خصلت معاشرے میں ختم ہو گئی ہے۔ تو اللہ تبا رک تعالیٰ تو ورا الورا ہے یہ
رب دوجہا ں کا قانو ن ہے۔شکر اور صبر کرنے والے انسان کو اللہ تعا لیٰ زیا
دہ نوازتے ہیں۔
آج امت مسلمہ اپنے اعما ل سے دور ہو ئی ۔ ہر گھر میں رزق کی تنگی کے طعنے
دیئے جا رہے ہیں۔ لو گ کہتے ہیں کہ اشرف صاحب۔۔۔۔۔ آج گھر میں دس کما نے
والے ہو ں پھر بھی پو را نہیں ہو تا ۔ الحمدللہ اللہ نے مجھے بہت رزق دیا
ہے۔ میرے آٹھ بچے ہیں اور میں گھر کا ایک کفیل ہوں اچھے کپڑے پہنتا ہوں مو
با ئل اور مو ٹر سائیکل اور گھر میں ساری ضروریا ت زندگی مو جو دہے۔ تو پھر
میں کیوں نہ اللہ کا شکر ادا کروں اور جو رزق میرے مقدر میں ہے وہ مجھ کو
مل رہا ہے۔
آئیے قارئین محترم ہم بھی بطور امت مسلمہ اللہ کے بھیجے ہو ئے سنہری
اورزندگی گزارنے کے اصول اپنا لیں تو آج بھی آپ کے گھر میں آپ کی زندگی میں
طما نیت اور خو شحا لی آسکتی ہے۔ شکر اورصبر کے اصولوں کو اپنا کر کا میا ب
زندگی گزاریں۔ |