کیاگھریلوتشددبل نجات دہندہ ثابت ہوسکے گا؟

خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون سازی پر بننے والی پارلیمانی کمیٹی میں خواتین گھریلو تشدد بل 2009 پر تادم تحریر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے اورقائدجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن نے اس بل کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی اور گھریلو تشدد بل کمیٹی کے اجلاسوں کابائیکاٹ جاری رکھاہواہے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ این جی اوز کا بل ہے۔2005 ءمیں بھارتی پارلیمنٹ نے جو بل منظور کیا تھا، پاکستان کی پارلیمنٹ سے پاس کروانے کے لیے بل کے الفاظ تک تبدیل نہیں کیے۔وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں کہ یہ بل پیپلز پارٹی کی یاسمین رحمن سمیت کسی بھی رکن پارلیمنٹ کاتیارکردہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عورت کی آزادی کے قائل ہیں لیکن آزادی اور آوارگی میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان میں گھریلو تشدد کے خلاف مجوزہ قانون مغربی سوچ کا عکاس ہے۔اگریہ بل منظور ہوا تو پاکستان میں گھریلو زندگی باقی نہیں رہے گی۔ان کے مطابق اس بل کی روسے جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو گھر دیر سے آنے یا گھر سے رات کو دیر سے باہر جانے پر والد کو روکنے کی اجازت نہیں ہوگی اور ایسا کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشرقی اور اسلامی زندگی کے خلاف ہے اور پاکستانی معاشرے کے اقدار مغرب یا بھارت سے مختلف ہیں۔

واضح رہے کہ2008 ءمیں خواتین پر گھریلو تشدد کا قانون قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینٹ میں تاخیر کا شکار ہو کر غیر موثر ہوگیا تھا۔علاوہ ازیں گزشتہ اسمبلی کے دوران ایم ایم اے کی عائشہ منور اور سمعیہ راحیل قاضی جیسی باہمت اور جرات مند خواتین ارکان اسمبلی نے بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بل پیش کیا تھا، مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔جس میں بڑا کرداراسمبلیوں میں موجودجاگیرداروں کاتھا،جوعورت کواس کے حقوق دینااپنی سبکی سمجھتے ہیں۔یہ اسی جاگیردارانہ ذہنیت کی کارستانی ہوتی ہے کہ کہیں عزت کے نام پر، کہیں غیرت کے نام پر، کہیں خاندانی وجاہت و وقار کے نام پر اور کہیں دھن ودھونس کے نام پرحواکی بیٹی کواس کے ان حقوق سے بھی محروم رکھاجاتاہے،جواسے اسلام نے عطاکررکھے ہیں، اگرچہ در پردہ حقوق غصب کرنے کا سارا کارِ بے خیرہمیشہ اسی قماش کے لوگوں نے انجام دیا، مگر الزام اسلام پر عائد کر دیا کہ اس نے عورت پر ناروا پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ہم الزام ان کودیتے تھے ،قصوراپنانکل آیا

تاریخ کاطالب علم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف وآگاہ ہے کہ مغرب نے اسلام کے خلاف جتنے محاذ کھولے ہیں ، ان میں سب سے زیادہ کامیابی اسے عورت کے محاذ پر حاصل ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغرب پہلے خوداپنے ذہنی غلاموں سے عورت کااستحصال کراتاہے،پھران کی تمام بداعمالیوں کومسلمانوں اوراسلام کے کھاتے ڈال کرآرڈیننس اوربل پاس کراتاہے،تاکہ اسلام پسندطبقے کی بدنامی بھی ہوتی رہے اورخواتین کے حقوق کی علمبرداری کی آڑمیں ان کی ہمدردیاں بھی سمیٹی جاسکیں۔مجوزہ بل بھی اسی سوچ کاعکاس اوراسی منصوبے کاحصہ ہے۔

اس بل کے حوالے سے فی الوقت تین قسم کی آراسامنے ہیں،جوتین قسم کے طبقات سے تعلق رکھتی ہیں:
ایک دینی طبقہ ہے،جواس بل کواسلامی ومشرقی اقدارسے متصادم اورخاندانی نظام کی بقاکے لیے انتہائی خطرہ سمجھتاہے۔آخری درجے میں اس طبقے کی تجویزیہ ہے کہ اس بل کواسلامی نظریاتی کونسل کے سپردکرکے اس سے اس بل کی تطہیر،اس میں ترمیم اوربہتری کی درخواست کی جائے اور عدم توثیق کی صورت میں اس بل کومنسوخ کردیاجائے۔

دوسراوہ طبقہ ہے ،جسے پاک وطن کاباسی اورنام کی حدتک مسلمان ہونے کے باوجوداسلامی اقدارہی نہیں مشرقی اقداربھی ایک آنکھ نہیں بھاتیں،ان کاموقف یہ ہے کہ دن رات ایک کرکے اس بل کوآئین کاحصہ بنایاجائے۔ان کاکہناہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین پر گھریلو تشدد کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ان کاموقف ہے کہ یہ انتہائی اہم بل ہے،کیوں کہ بقول ان کے پاکستان میں 85 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں،انہیں اس تشددسے بچانے کے لیے اس بل کوبلاتاخیر قومی اسمبلی کو منظوری کیلئے بھجوا دیا جائے۔گویااگربل منظورنہ ہواتوآسمان ٹوٹ پڑے گا!!

ان کی جلدبازی کی انتہاتویہ ہے کہ کچھ خواتین پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بھی آدھمکی تھیں،وہ توخورشیدشاہ صاحب کابھلاہوکہ انہوں نے بڑی ”عزت افزائی “کے ساتھ ان کواٹھادیا اورواضح بھی کردیاکہ کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔

تیسراطبقہ وہ ہے جس کاکہناہے بل کے مسودے میں کچھ قباحتیں تھیں۔حکومتی ارکان کابھی یہی اعتراف ہے،تاہم بادی النظرمیں یہی لگ رہاہے کہ حکومت یہ بل منظور کرواکررہے گی ۔چاہے اتفاق رائے کے ذریعے یاپھراپنے مینڈیٹ کے بل پر۔

یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ خواتین کے حقوق سب سے زیادہ مغرب اور یورپ میں پامال ہورہے ہیں۔ حقوق نسواں کے دعویدار ہی ان کا استحصال کررہے ہیں۔نام نہادحقوق نسواں کے علمبردارمغربی معاشرے نے اپنی بے لگام شہوت کی تسکین کی خاطر عورت کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے آزادی کے نام پر باہر نکالا۔وہ جو گھر میں شرافت کا مجسمہ بنکر احترام وتوقیر کی علامت تھی،اس سے اسکی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہوسناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنادیا ۔اسے عزت وشرافت اور عفت وحیا کے ساتھ والدین ، اولاد، بھائی بہن اور شوہر کی خدمت سے باغی بناکر اجنبی مردوں کی خدمت پر مامور کردیا ۔ ہسپتالوں میں نرس اور تیماردار کے نام سے بھرتی کرکے مریضوں سے زیادہ ڈاکٹر وں کے نخرے برداشت کرنے اور ان کی آؤبھگت کرنے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی ۔ ائیر ہوسٹس کی حیثیت سے اجنبی مسافروں کے سامنے جسم کی نمائش پر مجبور کردیا ۔یہ انہی حقوق نسواں کے نام نہادعلمبرداروں کی ”مہربانی“ہے کہ آج حقوق نسواں اورمساوات کی آڑمیں مغربی عورت کی شرم وحیا اور عفت وعصمت سربازار نیلام ہورہی ہے ۔

انجام کارمغرب میں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے،ناجائزبچوں اورکنواری ماؤں کی تعداد آئے روز بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے خودکشیاں اور طلاقیں بڑھ رہی ہیں۔ اس کے بالمقابل الحمدللہ !تمام ترانحطاط وتنزل کے باوجوداب بھی ہمارے گھر اسلام کے مورچے ہیں اور ہمارا دشمن اسلام کے ان مورچوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔”ہم توڈوبے ہیں صنم،تم کوبھی لے ڈوبیں گے“کے مصداق مغرب ویورپ کی وظیفہ خواراین جی اوزاوراسمبلیوں میں بیٹھے ان کے ذہنی غلام چاہتے ہیں کہ مشرقی معاشرے کابھی وہی حال ہواورہمارامعاشرہ اورخاندانی نظام بھی اسی طرح شکست وریخت کاشکارہو،جس طرح مغربی معاشرہ ہوچکاہے۔اس مقصدکے لیے کبھی وہ میڈیاکاسہارالیتاہے،کبھی” بلوں“ کی بیساکھیاں استعمال کرتاہے۔اس نوع کی کوششیں آج سے نہیں،روزاول سے ہورہی ہیں،مگراب یہ ”برگ وبار“اس لیے لارہی ہیں کہ ہم نے خواتین اسلام کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ نہیں کی ۔ ہم نے انہیں اسلام تعلیمات سے روشناس کرانے میں تغافل برتا ،جس سے دشمنان اسلام نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔عورت انسانی معاشرہ کے نصف سے زیادہ حصہ پر محیط ہے بلکہ مستقبل میں ایسے دور کی نشاندہی تعلیمات نبوی علی صاحبہاالصلوٰة والسلام میں موجود ہے جب مرد وعورت کی تعداد ایک اور چالیس کی نسبت سے ہوگی، پھر عورت کو اپنی جنس مخالف پر اثر انداز ہونے اور اپنی بات منوانے کی فطرت نے جو صلاحیت دی ہے،اسلام دشمن عناصر نے اس راز کو سمجھ کر ”نسوانی قوت“کا بہت ظالمانہ استعمال کیا ہے ۔ خواتین کو اسلام کے بالمقابل لا کھڑا کردیا گیا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے عورت کو جو مرتبہ اور مقام عطا فرمایا ہے ، کسی دوسرے مذہب یا نظام حکومت میں اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلام نے عورت کو معاشرے میں بہترین مقام عطا کیا۔اس کوبلندی رتبہ کے اوج ثریاکاہم نشیں بنایا۔اسلام ہی وہ دین ہے جس نے پہلی مرتبہ عورت کو اپنی ذاتی ملکیت کا حق دیا گیا، اسے شادی کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے کرنے کا حق دیا گیا۔ اسے اپنی ذاتی جائیداد رکھنے اور کاروبار کرنے کا حق دیا گیا۔ اسے وراثت کا حق دیا گیا ۔اسے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ، مردوں کے شانہ بشانہ ، زندگی کے نشیب وفراز میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ۔

اگرآج معاشرے میں کہیں عورت کواس کاشرعی حق نہیں مل رہاہے،توقصوراسلام کانہیں،ہمارے جاگیردارانہ نظام کاہے۔پاکستان کے قانون ساز ایوانوں میں اکثریت کا تعلق اسی زمیندار اور جاگیر دار طبقے سے ہے، جوخواتین کودوسرے درجے کاشہری اورمحض جنسی تسکین کاذریعہ سمجھتاہے۔ان لوگوں سے خیرکی توقع رکھناخودفریبی کے سواکچھ نہیں۔

وطن عزیزکی ماں،بہن، بیٹی کوسمجھ لیناچاہیے کہ اسے حقوق ،بل پاس کرنے یاقانون سازی سے نہیں،بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام ہی سے ملیں گے۔مغرب کی عورت بھی اسلام ہی کواپنی آخری جائے پناہ اورحقوق نسواں کاحقیقی ترجمان سمجھتی ہے۔اس کااعتراف ہے کہ اسلام نے عورت کو جو مرتبہ اور مقام عطا فرمایا ہے ، کسی دوسرے مذہب یا نظام حکومت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، اسلامی تعلیمات نے عورت کو اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے ، مرد کے شانہ بشانہ ، زندگی کے نشیب وفراز میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔اگرمعاشرہ محسن اعظم ﷺ کی تعلیمات کوحرزجاں بنالے توکسی طبقے کوحق تلفی کاشکوہ نہ رہے۔

دارالتصنیف ،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ ایریا،کراچی
Muhammad Jahan Yaqoob
About the Author: Muhammad Jahan Yaqoob Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.