بسم اللہ الرحمن الرحیم
بیس اپریل کو سیاچن گیاری سیکٹر کے اعصاب شکن برفانی علاقہ میں برف تلے دبے
139پاکستانی فوجی جوانوں کے لیے جمعہ کے بڑے بڑے اجتماعات میں دعائیں ہو
رہی تھیں ۔ان کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جارہا تھا ،ملک و ملت کی
خاطر اپنی جانیں قربان کر نے والوں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا ۔اس
بڑے فوجی سانحے کی وجہ سے پوری قوم کرب و الم کی تصویر بنی ہوئی ہے لیکن کس
کو معلوم تھا کہ جمعہ کے دن کا سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ 127پاکستانیوں
کی زندگیوں کے چراغ بھی گل ہو جائیں گے ۔قوم کو ایک اور المناک سانحے کا
سامنا کر نا پڑے گا ،کئی خاندان اُجڑ جائیں گے ،کتنی بہنوں کے بھائی ،کتنی
ماﺅں کے لخت جگر ،کتنے بچوں کے بابا ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائیں گے یہ
ایک اٹل حقیقت ہے کہ موت و حیات کا علم صرف رب تعالیٰ کے پاس ہے اور اللہ
تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال بہتر جانتے ہیں ، کراچی سے پرواز کرنے والا نجی
کمپنی بھوجا ائیر لائن کا طیارہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا پائلٹ نے
کنٹرول روم کو پیغام بھیجا کہ فیول ٹینک میں آگ لگی ہوئی ہے اور طیارہ قابو
سے باہر ہو گیا ہے پائلیٹ نے ہنگامی لینڈ نگ کے لیے مدد طلب کی اور بتایا
کہ اسے گھروں کی چھتیں نظر آرہی ہیں لیکن ائیر پورٹ پر لینڈنگ کی پٹیاں
دکھائی نہیں دے رہیں ،زمین پر گرنے سے 3منٹ قبل طیارے کا کنٹرول روم سے
رابطہ منقطع ہو گیا یوں زمین پر گرنے سے قبل طیارہ فضا ہی میں تباہ ہو گیا
127انسانی جسموں سمیت بھوجا ائیر لائن کا طیار23 -B4ٰٓایک کلو میٹر تک بکھر
گیا 27سال پرانے ایسے جہاز جن پر دنیا بھر میں پابندی ہے اور ”اڑتے تابوت
“کے نام سے مشہور یہ جہاز حکومت پاکستان کے لیے قابل قبول ہو گئے جس کا
منطقی انجام پوری دنیا کے سامنے ظاہرہو گیا ۔اس دردناک فضائی حادثہ کے فورا
ً بعد ہر اس آدمی نے جائے حادثہ پہنچنے کی کوشش کی جو درد دل رکھتا تھا ،جب
میتوں کو ہسپتال منتقل کیاجانے لگا تو وہاں بھی قوم کا جذبہ ہمدردی قابل
دید تھا ہر سطح پر طیارہ حادثہ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ
اظہار یکجہتی کی گئی ، جائے حاثہ سے لے کر میتوں کی تدفین تک ،آہوں ،سسکیوں
،کر ب والم کی اتنی داستانیں بھری پڑی ہیں جن کو سن کر اور دیکھ کر ضبط کے
تمام بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اپنے محدود مفادات کے لیے انسانی جانوں کے ساتھ
موت کو کھیل کھیلنے والوں کے بارے میں ناقبل بیان جذبات ابھرتے ہیں ،اگر چہ
موت بر حق اور اٹل حقیقت ہے اس حادثہ میں بڑی قیمتی جانیں اور قومی سرمایہ
سمجھے جانے والے لوگ لقمہ اجل ہو گئے ۔
جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاﺅن کراچی کے استاذ الحدیث اور ناظم
تعلیمات مولانا عطا ءالرحمن صاحب اپنی ہمشیرہ سمیت اس سانحہ میں شہید ہو
گئے ،حیدر آباد کے اسٹیشن کمانڈنگ افسر ملک جاوید اختر اور ان کی اہلیہ
عابدہ جاوید، انجینئر عرفان اور ان کی اہلیہ ، گولڈ میڈ لسیت انجینئر قمر
آفتاب جو عنقریب ملائشیا PHDکے لیے جانے والے تھے اور مولانا عثمان رشید
نیز ہر ایک اپنے اعتبار سے انمول شخصیت رکھتا تھا اس حادثہ میں ہم سے بچھڑ
گئے ۔
عقل مند قومیں ہمیشہ ایسے حادثات سے اپنا محاسبہ کرتی ہیں ،اپنے طول و عرض
اک ازسر نو جائزہ لیا کرتی ہیں ،اپنے افعال و کردار کو پرکھتی ہیں کہ وہ
کون سی جگہ و مقام ہے جہاں لاپرواہی اور غلطی ہوئی جن کا نتیجہ ایسے حادثہ
کی صورت میں رونما ہوا ۔قرآنی تعلیمات سے یہ اصول ہمیں ملتا ہے کہ دنیا میں
جو بھی تباہی یا خرابی رونما ہوتی ہے وہ انسانی اعمال کا اثر ہوتی ہے جب
زمین پر گناہ ،نا انصافی ،ظلم اور بے حیائی بڑھ جاتی ہے تو اس کا اثر
ناگہانی آفات ،زلزلوں ،نئی نئی مہلک بیماریوں اور اطمینانی و سکون کے چھن
جانے کی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان مختلف جہتی
بحرانوں ،مصائب اور بد عنوانیوں کا شکار نظر آتا ہے غیر اسلامی اور غیر
شرعی معاشرت تیزی سے پھیل رہی ہے مغربی طرز زندگی کو آئیڈیل بنا یا جا رہا
ہے ،معیشت میں اسلامی اصولوں سے کھلم کھلا انحراف طبیعت ثانیہ بنتا جا رہا
ہے ،اہل اقتدار اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے تصور کو بھلا کر عوامی
وسائل کو ذاتی ملکیت سمجھ کر ان سے خوب مستفید ہو رہے ہیں قتل و غارتگری کا
ایک سلسلہ ہے جو کئی سالوں سے جاری ہے ،عروس البلاد (کراچی )میں جینا اجریں
ہو چکا ہے ،ناانصافی اور بد امنی کا عفریت اتنا طاقت ور ہو چکا ہے کہ اس کا
مواخذہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ،غرض کہ شکوہ و شکایا ت کا نہ ختم ہونے
والا سلسلہ ہے ،لیکن ان برے حالات و حادثات سے نکلنے کا طریقہ بھی ہمیں
قرآنی تعلیمات سے ملتا ہے ۔رب تعالیٰ سے سچی توبہ اور گناہوں کی معافی
مانگی جائے تو اللہ معاف فرما دےں گے اور ناموافق حالات کو موافق فرما دیں
گے ،پریشانیوں کو خوشیوں میں تبدیل فرما دیں گے ،برکتوں اور رحمتوں کی
فراوانی ہو گی ،شرط یہ ہے کہ توبہ تبدیلی کی نیت سے ہو ،مزدور سے لے کر
افسر تک ،کلرک سے لیکر چیف تک ،منسٹر سے لے کر چیف منسٹرا ور صدر مملکت تک
ہر کوئی اپنا محاسبہ کرے اور پھر تبدیلی کا عزم لے کر رب کریم کے حضور توبہ
کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں ۔آج تک قوم ،ملک اور ملت اسلامیہ کے حق میں جتنی
کو تاہیاں ہوئیں ان سے معافی مانگیں اور آئندہ آئینی اور اسلامی اصولوں کی
پاسداری کے عزم کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور اس قوم و
ملک پر رحم فرمائیں گے ۔آج تک خدا نے کسی قوم کی حالت نہیں بدلی جس قوم نے
خودتبدلی کاارادہ نہ کیا ہو۔
20اپریل پورے پاکستان میں یوم جمعہ کو یوم دعا کے طور پر منایا گیا تھا
،اسی طرح ہمیں ایک دن یوم توبہ کے طور پر منانا چاہیے جس دن ہر طبقہ فکر سے
تعلق رکھنے والا فرد اپنا محاسبہ کرے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں پر توبہ کر
کے نئے عزم کے ساتھ پاکیزہ زندگی کی ابتداءکرے ،مبادا کہ ہمیں 20اپریل سے
بھی برا وقت دیکھنا پڑے اورہمار ے گناہوں کا وبال پوری قوم کو اٹھانا پڑے ۔ |