انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو فعال کرنے کی ضرورت

برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر کیا تھا۔ نئی مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ قراردیا گیا۔آج تک ہم اس خواب کو عملی شکل تونہ دے سکے البتہ جس طرح یہاں دہشت گردی اور آگ و خون کا بھیانک رقص جاری ہے اور نت نئے طریقوں سے معصوم افراد کی جان لی جارہی ہے دہشت گردوں نے اس ملک کو اپنی تجربہ گاہ ضرور بناڈالا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، خود کش بمبار، جدید اسلحہ و گولہ بارود کے استعمال کے مختلف اورانوکھے طریقے بھرپور انداز میں اپنائے جارہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انسان نما ان بھیڑیوں نے اپنے ہاتھ معصوم لوگوں کے خون سے نہ رنگے ہوں۔ یہ دہشت گرد اتنے چیرہ دست واقع ہوئے ہیں کہ ریاست ِ پاکستان ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ اگر کوئی ادارہ ان پر ہاتھ ڈال بھی دے تو تحقیقات سے لے کر عدالتوں کے چکر تک اور پھر فیصلے سے لے کر سزا پر عملدرآمد تک کسی نہ کسی مرحلے میں وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نامناسب تحقیقاتی نظام اور روایتی عدالتی کاروائیوں میں سقم انہیں پھر سے آزاد فضاﺅں میں لے آتا ہے جہاں وہ کچھ عرصہ بعد دہشت گردی کی نئی واردات کے لئے اڑان بھرجاتے ہیں۔اس طرح ایک طرف دہشت گردوں کے حوصلہ میں اضافہ ہوا ہے۔

دہشت گرد کی رہائی سے قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں پر بھی عدالتی کارروائی سے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، جو جان جوکھوں میں ڈال کر خطرناک دہشت گردوں کا پیچھا کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کر دیتے ہیں مگر ان اہلکاروں کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔انصاف کی فراہمی میں ناکامی سے نہ صرف معاشرہ بیمار پڑ جاتا ہے بلکہ اس سے انصاف کے دشمنوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔ مقدمات میں تاخیری حربے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ 9فروری کو کراچی سنٹرل جیل میں قائم دہشت گردی کے مقدمات نمٹانے والی عدالت کی چھت جزوی طور پر گر گئی جس کی وجہ سے وہاں مقدمات کی کارروائی کو روک دیا گیا۔ اس طرح اس عدالت میں 150دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی تاحال تاخیر کا شکار ہے۔ ان مقدمات میں خطرناک ترین دہشت گرد ملوث ہیں۔ اتنے چھوٹے مسئلے پر اتنے اہم مقدمات جو بڑھتی دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں فوری کارروائی کے متقاضی تھے التواءکا شکار ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس عدالتی کمرے کی مرمت ابھی تک کیوں نہیں کی گئی ۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ عدالت کی کارروائی اسی حدود میں کسی اور متبادل جگہ منتقل کردی جاتی۔ مگر شاید بیوروکریسی کی سست روی اور روایتی ہٹ دھرمی سے ایسا نہ ہوسکا۔ جیل انتظامیہ نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ انہوں نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے چیف انجینئر کو مرمت کے لئے لیٹر لکھ دیا ہے لیکن ابھی تک مرمت کا کوئی کام شروع نہیں ہوا۔ مرمت کے کام کے اس التواءنے انتہائی خطرناک دہشت گردوں کی گردن کے پھندے کو بھی دور کردیا ہے۔ جس کے پیش نظر کیسوں کو نمٹانے میں تاخیر کا رویہ ہماری عدالتوں کا خاصہ بن چکا ہے۔

کراچی میں تشدد، قتل ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے متعلق مقدمات سے کی سماعت جاری ہے مگر پراسیکیوشن کے کامیاب ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ سے کوئی راز نہیں ہے۔ کمزور تحقیقات اور ناکافی ثبوت مجرموں اور دہشت گرد تنظیموں کا خوف اور سست بیوروکریسی اس کی راہ میں حائل ہیں۔ ایسے مسائل صرف پاکستان میں نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسے مقدمات کی سماعت کے دوران ایسی پیچیدگیاں اور صورتحال درپیش ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے انصاف کی راہ میں حائل ہونے والے مشکلات کا حل بھی نکالا ہے۔ جس سے وہاں مقدمات کو تیزی سے نمٹانے اور مجرموں کو سزا کا عمل تیز ہوا ہے اور نتیجے کے طور پر جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی دہشت گرد عدالتیں اسی مقصد کے لئے قائم کی گئی تھیں مگر کارکردگی سے اس مقصد کی تکمیل ہونا دور تک نظر نہیں آتا۔ جب تک ہم مقدمات کو کامیابی سے نہیں نمٹاتے، دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد اپنی مذموم سرگرمیوں کو بے خوفی سے جاری رکھیں گے۔ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں مزید اقدامات کرے اور ایسا سسٹم متعارف کروائے جس سے ہمارے سکون کو چھیننے والے دہشت گرد جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں۔ جب تک دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد ملزمان اور مشتبہ افراد کی مناسب تحقیقات، عدالتوں کے ذریعے ان کو سزائیں اور ان کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔اس خواب کو عملی شکل دینے کے لئے ایک ایسے مضبوط قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں وکلائ، پولیس، جج اور تحقیقات کرنے والے افراد آزادی ، بلاخوف و خطر اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں تاکہ ان دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جاسکے۔ نامناسب اور کمزور تحقیقات اور ثبوت کی عدم دستیابی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں یہ مشتبہ افراد رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک دوسری وجہ جو انتہائی تشویش ناک ہے وہ دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی تیاری کے دوران واستغاثہ اور متعلقہ افرار پر دباﺅ بھی ہے۔ ان ذمہ داریوں پر مامور افراد کو غیرمناسب انتظامی اور سیکورٹی ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زندگی کو درپیش ان خطرات کے پیش نظر ان سے فرائض کی انجام دہی کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔یہ دہشت گرد سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ اتنے بااثر اور باخبر ہیں کہ ان مقدمات کی کارروائی پر مامور ان افسروں کے خاندانوں تک کا معلوم ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وہ ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دیتے ہیں۔

اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات پر مامور تفتیش کاروں ، پراسیکیوٹرز اور ججوں کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔دہشت گردوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے والے ان ریاستی کارکنوں کو خفیہ اور ان کی زندگیوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ مقدمے کے چشم دید گواہوں کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری نظام ہمارے ہاں کمزور، ناقص اور درہم برہم معلوم ہوتا ہے اور اسے درست کرنے کے لیے جامع اور موثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ محض سخت سے سخت قانون بنانے سے یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ عدالتی نظام کی خامیوں کو دور کرنے، گواہوں اور ججز کو تحفظ دینے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید تربیت اور آلات کی فراہمی سے اس مسئلہ پر خاصی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
Afraz Ahmad
About the Author: Afraz Ahmad Read More Articles by Afraz Ahmad: 31 Articles with 21123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.