پاکستان بھر میں آج کل عورتوں پر
تشدد کی بیش بہا خبریں منظر عام پر نظر آتی ہیں ۔کہیں کاروکاری، غیرت کے
نام پر قتل اور کہیں تیزاب سے جلانے کے واقعات نے خواتین کو موجودہ دور کا
مظلوم ترین طبقہ بنا دیا ہے۔یہ بات ٹھیک ہے لیکن پورا سچ نہیں ہے کیوں کہ
آج کے اس بے رحم دور میں مرد بھی لاکھوں ظلم سہتا آ رہا ہے ۔یہ دنیا بڑی
ظالم ہے جو عورت کے ظلم و ستم پر تو آہ بکا کرتی ہے لیکن مرد کو مظلوم
تسلیم نہیں کر پاتی ۔ آج سے پندرہ،بیس سال پیچھے جائیں تو مرد واقعی مظلوم
نہیں تھا۔لیکن آج قریبآٓ ستر سے اسی فیصد مرد خفیہ ظلم کا شکار ہے۔ عورتوں
پر ظلم تو سب کو نظر آتے ہیں لیکن مرد پر ظلم اندرونی چوٹ کی مانند ہوتے
ہیں جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتے۔مرد بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ظلم سہتا
سہتاظلم کا عادی بن جا تا ہے اور خاموشی سے اپنی داستان غم سنائے بغیر دنیا
سے رخصت ہو جاتا ہے ۔مظلوم مرد اپنی بہادری کی وجہ سے یا قوت برداشت کی وجہ
سے غم اور ظلم سہتا ہے اور اُف تک نہیں کرتا جبکہ عورت اپنی emotional بلیک
میلنگ کی وجہ سے مظلوم کہلانے میں مردوں سے نمبر لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
آج عورتوں کے حقوق پر دنیا بھر میں ان گنت تنظیمیں کام کر رہی ہیں مگر مرد
حضرات کا کسی کو خیال نہیں کوئی ایک تنظیم ایسی نہیں جو مرد حضرات کے حقوق
پر غور و فکر کرے۔آج کے مرد پر ہونے والے مظالم کی تفصیل ذرا ملاحظہ
فرمائیے۔
لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کی شادی اور خوشحال زندگی کے بارے میں سوچ و فکار
کی جاتی ہے جبکہ لڑکے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس پر ظلم ڈھانے اور بوجھ ڈالنے
کے منصوبے تیار کر لیئے جاتے ہیں کہ بڑا ہو کر پیسہ کمائے گا تو اپنی شادی
کرے گا اور اس سے پہلے اپنی بہنوں کو با احسن رخصت کرے گا ۔ پیدائشی بوجھ
میں ڈوبا بے چارہ مرد اپنی زندگی کا آغاز پڑھائی لکھائی کے ساتھ چھوٹے موٹے
کام کاج سے پیسہ کمانا شروع کرتا ہے اور اپنے تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ
گھر کا کچن چلانے میں بھی مدد کرتا ہے۔جب بمشکل اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے تو
نوکری حاصل نہیں کر پاتا۔بے روزگاری کا یہ مرحلہ مرد کیلئے بہت کٹھن ہوتا
ہے۔بعض معاملات میں تو اس حالت میں لوگوں کی باتیں سن سن کر اتنا دل
برداشتہ ہوتا ہے کہ ذہنی مریض بن جاتا ہے اور اپنا راستہ منشیات میں یا
چوری ڈکیتی جیسی گھناﺅنی برائیوں میں تلاش کرنے لگتا ہے اور کبھی کبھی تو
بے چارہ مرد زندگی سے ہی ناطہ توڑجاتاہے۔
ع دل شاد تھا کہ پھول کھلیں گے بہار میں
مارا گیا غریب اسی اعتبار میں
نوکری مل جانے کا کرشمہ ہو جائے تو مرد پر اخراجات کا پھاٹک کھول دیا جاتا
ہے۔گھریلو ضروریات زندگی مثلآٓ راشن،پانی کا بل ،سوئی گیس کا بل،بجلی کا
بل،گھر کا کرایہ،ٹیلیفون کا بل اور پھر ان سب کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کے
تعلیمی اخراجات بہنوں کا جہیز وغیرہ وغیرہ۔ان تمام مراحل کو طے کرنے کے بعد
جب موصوف کی اپنی شادی کا ذکر شروع ہوتا ہے تو لڑکی کیلئے زیور بَری وغیر ہ
اور لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے کی جا ئیداد بینک بیلنس اور بہترین نوکری کی
ڈیمانڈ احساس کمتری میں اضافہ کرتی ہے اور ذہنی انتشار پیدا کرتی
ہے۔پختونستان جیسے بیشتر علاقوں میں تو دس تولہ سونا یا دس سے پانچ لاکھ
روپیہ لڑکی کے باپ کو ادا کرنا ہوتا ہے۔جو بعد میں نہ لڑکی اور نہ ہی لڑکے
کے کام آتا ہے۔باپ کی مرضی وہ جہاں مرضی خرچ کرے۔لڑکا بوجہ بیش بہا ذمہ
داریاں عمر بلوغت کراس کرنے کے بعد شادی کے انتظار میں بالوں میں سفیدی کے
دور تک مختلف برائیوں میں گھر جاتا ہے ۔مرد کیلئے شادی کا مرحلہ طے کرنا
آسان نہیں ہوتا۔ایک پنجابی محاور ہ ہے ً کڑیاں دی ماں رانی تے پتراں دی ماں
کانی۔ شادی کا مشکل مرحلہ طے ہونے کے بعدوہی مرد جو پہلے گھر میں سب کی
آنکھوں کا تارہ ہوتا ہے لیکن شادی کے بعد دونوں اطراف یعنی گھر والے اور
بیوی کے مظالم کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ گھر والے، بہن بھائی ماں باپ
بھابھی وغیرہ شکی نگاہوں سے نئے بیاہتا لڑکے کو دیکھتے ہیں کہ اب اگر کوئی
بھی تبدیلی ہے تو اس کا سبب نئی آنے والی بیوی صاحبہ ہے۔اور دوسری طرف
موصوف کی بیوی اپنے خاوند پر شک کرتی ہے کہ وہ جو بھی بات کر رہا ہے اپنے
گھر والوں کی پٹیاں پڑھنے پر کر رہا ہے۔ اور آہستہ آہستہ کہانی میں ٹوسٹ
آتا ہے اور بیوی مرد کو سب رشتہ داروں سے دور ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔
جوائنٹ فیملی کا قصہ تمام کرنے کے بعد مرد پر بیوی کے ظلم کا نیا باب روشن
ہوتا ہے۔ ساس اور سسر کی کمی میں نظر ثانی اور پہرے داری نہ ہونے کی وجہ سے
آزاد بیوی من مرضی پر اتر آتی ہے اور مرد کی کسی بھی بات کو گوارہ نہیں
کرتی۔بعض معاملات میں آزاد بیوی جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں موبائل فون
اور انٹر نیٹ وغیرہ کا منفی استعمال شروع کر دیتی ہیں اور وہ سب کچھ کر
گزرتی ہے جو وہ ڈراموں اور فلموں میں دیکھتی ہے۔ نتیجہ خاوند سے جھگڑا یا
پھر طلاق کی صورت میں نکلتا ہے جس کا بھی تمام تر قصوروار مرد ہی ٹھہرایا
جاتا ہے۔دوسری جانب اگر مرد ایسے معاملات کا شکار نہ ہو توبیوی کے نزدیک
بہت کم وقت گزار پاتا ہے۔کیوں کہ اولاد کے آتے ہی بیوی بچوں کو ٹائم دے کر
خاوند کو نظراندازکر ناشروع کردیتی ہے اور اب مرد ایک باپ کے فرائض انجام
دینا شروع کرتا ہے۔اور بچوں کے جوان ہونے تک اور بعض معاملات میں تمام
فرائض سے سبکدوش ہو کر بھی تمام اخراجات خود ہی برداشت کرتا ہے۔مرد باپ بن
جانے کے بعد ایک مشین کی طرح کام کرتا ہے ۔اولاد کیلئے کھانا،پینا،لباس ہر
عید پر نیا جوڑا،ڈاکٹروں کی فیسز ادویات ۔اسکول کالج کی فیسز کتابوں اور
اسٹیشنری،آمدورفت کے اخراجات گاڑی میں پیٹرول سی این جی کا خرچہ لڑکیوں کے
رشتہ کیلئے آنے والوں کی خاطر تواضع کے اخراجات بچوں کی شادی اور بچوں
کیلئے جائیداد وغیرہ وغیرہ ۔یہی وجہ ہے کہ مرد اپنی بیوی اور اولاد کی
خواہشات کی وجہ سے رشوت لینے اور دینے کا مجرم بن کر اپنی آخرت بھی خراب کر
لیتا ہے۔اور آخر ایک دن یہی مرد جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو اکیلا رہ جاتا
ہے،کبھی اسے گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے تو کبھی گھر میں نہ ہونے جیسا
سلوک کیا جاتا ہے۔اگر بوڑھے ہونے تک بیوی فوت ہو چکی ہو تو اولاد بوڑھے باپ
کا حال تک نہیں پوچھتی اور ہر معاملات سے بوڑھے باپ کو دور رکھا جاتا ہے۔
ان حالات میں بے چارہ مرد جو کہ ان تھک محنت کے بعد ٹوٹ چکا ہوتا ہے ۔بے
چارگی اور بے بسی کے انتہائی بے رحم دور سے گزرتا ہے۔دن بدن گھٹتا ہے کُڑتا
ہے اپنے آپ سے باتیں کرنا اسکا معمول بن جاتا ہے ۔کیونکہ اگر وہ گھر کے کسی
شخص سے بات کرے تو جھڑک دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بوڑھے مرد وں
کو کسی اولڈ ہوم کی زینت بنادیاجاتا ہے یا پھر اُن کا بستر گھر سے باہر گلی
میں لگا دیا جاتا ہے۔اس بوڑھے مرد کو گلی سے گزرنے والے ہر فرد کی آنکھ میں
اپنے لیئے نفرت نظر آتی ہے ۔اور اُسکو یہ محسوس ہوتا ہے کر ہر راہگیر اس کی
بے بسی کا مذاق اُڑا رہا ہے۔بوڑھے مرد کی نمائش اس کے آخری سانس تک لگی
رہتی ہے اور شرمندگی کی وجہ سے ایسا مرد جلد ہی اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے
اور خاموشی سے مظلوم ہونے کا ٹائٹل لیئے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتا
ہے۔چند سال پہلے ایسے واقعات بہت کم تھے کیونکہ جوائنٹ فیملی کی وجہ سے ہر
رشتہ مظبوط تھا لیکن آج کے دور میں جوائنٹ فیملی ختم ہو چکی ہے اور مرد
اپنی طاقت کھو بیٹھتاہے۔کیونکہ ہر ایسے باپ کی اولاد جیسے کو تیسا کی
بناءپر اپنے والدین کو چھوڑنے کی ریت کو بدستور جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ
حالات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہی حالات نے مرد کو بہادر سے مظلوم بنا
دیا ہے۔ |