تُجھ پر جان بھی قربان

جلتی دوپہر ،گرم ہوا کے تھپیڑے سورج کی جسم کو نوچتی ہوئی تیز دھوپ جب اپنی شدت کے آخری انتہا کو پہنچی ہوتی ہے اور جب سرد موسم کی خاموش سسکتی ہوئی راتیں اور لہوکومنجمد کرتی ہو ئی یخ بستہ ہوائیں اپنی تمام قوت لگا کر انسان کو ڈگمگانے ،لڑکھڑانے پر مجبور کر دیتی ہے مگر ان تمام مصائب کا دیوانہ وار مقابلہ کرنے والے عظیم لوگ دھرتی کی چھاتی کی اونچائی پر کھڑے اور اسی دھرتی کی گہرائی میں پوزیشن سنبھالے اپنا فرض نبھا رہے ہوتے ہیں آپ سمجھ ہی گئے ہوں گئے کہ میرا اشارہ کس جانب ہے ۔جی ہاں میری پاک فوج کے جوان اپنے وطن اپنی قوم کی حفاظت کے لیے اپنے سر پر کفن باندھے طوفان حوادث کے تھپیڑوں کے آگے بند ھ باند ھے کسی مضبوط قلعہ کی طرح اپنی جوان ہمت کے ساتھ اپنے فرض کی ادائیگی نبھا رہے ہوتے ہیں ایسا فرض ایسا عہد ایسے حلف کی پاسداری کے لیے یہی عظیم لوگ اپنی بیوی بچوں ،ماں باپ سے سیکڑوں میل دور ہوتے ہیں اور اس مشکل اور جان لیوا فرض کے لیے ان کو دنیا کی عیش و عشرت دھن دولت میسر نہیں ہوتی بلکہ انھی عظیم لوگو ں کے دلوں میں ایمان کی حرارت اور وطن کی حفاظت کا جذبہ ہوتا ہے جو انھیں گرمی سردی کی پروا نہ کرتے ہوئے ادا کرنا ہوتا ہے اور یقینا انھی محافظوں کی وجہ سے میرا وطن مشکلات کے نہ ختم ہونے والے طوفانوں کے باوجود آج بھی قائم و دائم ہے۔

ما ضی کے مشہور و معروف اور دنیا کے عظیم اداکار دلیپ کمار کی فلم مغل اعظم میں ایک سین میں جب ملکہ جودھا بائی بادشاہ اکبر کے سامنے اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کے لباس کو اپنے سینے سے لگا کر روتی ہے تو بادشاہ اکبر کہتا ہے کہ اگر ہندوستان کی مائیں بھی آپ کی طرح رونے لگیں جن کے بچے آپ کے شہزادے کے ساتھ میدان جنگ میں ہے تو ہندوستان آنسوﺅں میں ڈوب جائے گا ۔ہماری وطن کی مائیں تو اپنے لخت جگر کی شہادت پر خوشی کے آنسو بہاتی ہیں کہ اُن کے بیٹے اپنے وطن کی حفاظت کی خاطر شہید ہو رہے ہیں ۔ ہمارے پاک وطن کی فوج ایک مقدس اور ڈسپلن ادارہ ہے جو دنیا کے سب سے بلند محاز سیاچن پر بھی فرض نبھا رہا ہے جہاں جنگ سے نہیں بلکہ جان لیوا سردی اور برفانی تودوں سے موت واقع ہو جاتی ہے جیسے ابھی حال ہی میں ہماری فوج کے بہادر جوان برفانی تودوں کی زد میں ا ٓ کر شہید ہو گئے ہیں مگر اﷲ نے کیا پہاڑوں جیسی ہمت دی ہے ہماری فوج کو جو اتنی مشکلات کے باوجود بھی کبھی پیچھے کی جانب نہیں لڑکھڑائی اور کیوں نہ فخر کیا جائے اُن پر جو اپنے فوجی بھائیوں کو برفانی تودوں سے نکالنے کے لیے گیاری میں بر سر پیکار ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اپنی بھائیوں کو نکالنے کے لےے پورا سیاچن پہاڑ بھی کھودنا پڑا تو کھودے گئے ۔

ہمارے معاشرے میں تنقید کا پہلو بہت شدت کے ساتھ وقت کی رفتار کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ہم ہر ایک چیز کی عیب جوئی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں مگر کبھی فُرصت نہیں کہ اپنے گریباں میں بھی جھانک کر دیکھ لیں جہاں صرف گندگی ہی گندگی ہے ۔دکھ اور اذیت ہوتی ہے جب میرے اپنے ہی لو گ فوج کی کردارکشی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور فخر کیوں نہ کریں کیونکہ وہ اس وطن کے باسی ہی نہیں ہیں وہ تو پڑوسی ملک کی مفت میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ہاں میں مانتا ہوں کہ چند جرنیلوں نے بہت سنگین غلطیاں کی ہیں مگر کیا اُن کی غلطیوں کی سزا پوری فوج کو بھگتنا پڑے گی وہ فوج کے سپاہیوں اور افسروں کو بھگتنا پڑے گئی جو اپنوں سے سیکڑوں میل دور اپنی زندگی کو داﺅ پر لگائے وطن عزیز کی حرمت کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔

آ ہ ہم کب شعور کی باریکیوں کو سمجھے گئے کیا صرف نیوز چینل پر ہونے والے ٹاک شوز کو دیکھ لینے سے ہمیں پورے پاکستان کی حقیقت کا پتا چل جاتا ہے اور عقل اور شعور کی آگاہی مل جاتی ہے ایسا قطعا نہیں ہے آج ہمیں اپنی فوج کا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے اگر ہماری فوج ہے تو یہ وطن ہے ۔

وطن سے محبت کرنے والے لوگ کبھی نہیں بھولے کہ جنگ ستمبر میں کس طرح گوشت پوشت کے انسان لوہے کے ٹینکوں سے لڑ گئے تھے اورلاہور سے دس میل دور وہ سنگ میل بھی یاد ہوگا جس پر اسی قوم کے ایک میجر بیٹے نے اپنے شہید ہونے والے صوبیدار کے چھلنی سینے میں اُنگلیاں ڈبو کر اُس کے پاکیزہ خون سے

لفظ لاہور۔خون میں لتھڑے ہوئے ،میل ،لکھا تھا اور وہ لفظ نہیں تھے بلکہ ایک دعویٰ تھا ایک للکار تھی ایک بہت بڑا سچ تھا ایک چیلنج تھا کہ قدم آگے بڑھاﺅ گے تو تمہیں خون میں لتھڑے ہوئے دس میل ملیں گئے اور کس طرح وطن کے دشمنوں نے دانت پیستے ہوئے اس سنگ میل پر گولیاں برسائی تھیں آج بھی اس وطن کی پاک مٹی گواہ ہے کہ دشمن کے ناپاک قدم اس سنگ میل کو عبور نہیں کر سکے تھے وہ دشمن اُ س وقت بھی اپنی مکروہ آنکھوں سے لاہور کے اُونجے برجوں کو نہیں دیکھ سکا تھا اب بھی نہیں دیکھ سکتا خدا نے چاہا تو تیرے برج تیرے سینے پر سر اُٹھا کر ہمیشہ کھڑے رہیں گے ۔

اس وطن کے دشمن سمجھ رہے ہیں شاید اس مٹی نے میجر طفیل اور سوار محمدحسین پیدا کرنا چھوڈ دیے ہیں حالانکہ یہی ہمارے دشمنوں کی سب سے بڑی بھول ہے آج بھی یہ مٹی سلالہ چیک پوسٹ پر شہید ہونے والے دلیر اور نڈر لوگوں کو جنم دے رہی ہے اور ہمیشہ جنم دیتی رہے گئی ۔اس دعا کے ساتھ اپنے جذبات میں ڈوبی تحریر کو تکمیل کر تا ہوں کہ اے میرے رب میرے وطن اور میرے وطن کی فوج کو سر بلند رکھ اور اسے اندرونی بیرونی دشمنوں کی مکاریوں اور سازشوں سے محفوظ رکھ ۔آمین۔
BabarNayab
About the Author: BabarNayab Read More Articles by BabarNayab: 26 Articles with 24420 views Babar Nayab cell no +9203007584427...My aim therefore is to develop this approach to life and to share it with others through everything I do. In term.. View More