دارالحکومت کی پولیس کے بارے میں
یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس کے افسران بڑے سمجھدار ہیں اور کسی فکری اور
انتظامی انتشار کاشکار نہیں ہوتے لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ان کی
حالت بھی ایسی ہی ہے کہ جیسے وطن عزیز کے باقی محکموں کی ہے- جیسے ایک
محکمہ سڑک تعمیر کر کے جاتا ہے توسڑک جب مکمل ہو جاتی ہے سڑک کو توڑنے والے
یہ کہہ کر پہنچ جاتے ہیں کہ یہاں سے ٹیلی فون کی تار گزارنی ہے- جب یہ تار
گزر جاتی ہے اور ٹوٹی ہوئی جگہ کو مرمت کر دیا جاتا ہے تو پانی والے پہنچ
جاتے ہیں‘ پھر گیس والے پہنچ جاتے ہیں چنانچہ وہ سڑک جو بڑی منتوں سماجتوں
سے بنائی گئی تھی‘ دوسرے محکمے اس کو توڑ کر برابر کر جاتے ہیں- لاہور میں
تو یہ لطیفہ بھی ہوا تھا کہ ایک اچھی بھلی مضبوط سڑک کو مزدور کئی دن تک
توڑتے رہے اور بعد ازاں پتہ چلا کہ اس گلی کے ساتھ والی سڑک کو تعمیر کرنا
تھا لیکن ٹھیکیدار نے غلطی سے مزدوروں کو وہ گلی دکھا دی جس پر پہلے مضبوط
سڑک تعمیر تھی- اہل علاقہ نے دبے دبے لفظوں میں بتایا بھی کہ اس سڑک کو
توڑنے کی کیاضرورت ہے- یہ اچھی بھلی تو ہے لیکن مزدوروں نے کہا کہ ہمیں یہی
حکم ملا ہے کہ اسی سڑک کو توڑ کر بنایا جائے گا- چنانچہ اچھی بھلی سڑک کو
توڑ کر دوبارہ بنا دیا گیا لیکن ساتھ والی کچی سڑک جس کو بنانا مقصود تھا
وہ اس کے بعد ایک مدت تک اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی-
اور تو اور آپ ڈاکٹر سے دانت نکلوانے جائیں تو یہ ہو سکتا ہے کہ جو دانت آپ
نکلوانا چاہتے ہیں اس کو تو ڈاکٹر صاحب ہاتھ بھی نہ لگائیں اور اس کے ساتھ
والے دانت کو نکال کر آپ کے ہاتھ پر رکھ دیں- پھر آپ کبھی دانت کو دیکھیں
گے اور کبھی ڈاکٹر کو دیکھیں گے- یہ کوئی لطیفہ نہیں ہے جو میں نے آپ کی
خدمت میں پیش کیا ہے بلکہ یہ عین واقع ہے اور وطن عزیز میں کئی لوگوں کے
ساتھ یہ حادثہ پیش آ چکا ہے- چونکہ ہم صبر کرنے کے عادی ہیں اس لیے ڈاکٹر
کے اس جرم کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کرتے ہیں-
اگر قبول نہ بھی کریں تو ڈاکٹر حضرات کبھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے
کیونکہ ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتاہے- ڈاکٹر لکھوانے کا لوگوں کو
اتنا شوق ہوتا ہے کہ وہ جعلی ڈگری حاصل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے- بعض لوگ
تو ہومیوپیتھی کالج سے بھی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں تاکہ اپنے نام کے ساتھ
ڈاکٹر لکھ سکیں-جس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا ہوبس وہ بھی اپنے آپ کو دانشور
سمجھنے لگ جاتا ہے- پھر وہ ہر مسئلہ میں ٹانگ اڑاتا ہے اور جھوٹ کے پر لگا
کر محو پرواز رہتا ہے- بعض ڈاکٹروں کو تو پھر نفسیاتی مسائل کا شکار بھی
ہوناپڑتا ہے- وہ کبھی مقابلہ کا امتحان دینے لگ جاتے ہیں اور پھر پولیس کی
نوکری کر لیتے ہیں- یہ بھی بددیانتی کی ایک بڑی قسم ہے-ناانصافی کی حد ہے-
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ کسی بھی میڈیکل کے طالب علم پر حکومت کی ایک
بھاری رقم خرچ ہوتی ہے- پھر اگر اس نے مریضوں کی خدمت نہیں کرنی تھی تو اسے
اس سیٹ پر قبضہ نہیں کرنا چاہئے تھا- اگر وہ اس سیٹ پر قبضہ نہ کرتا تو اس
کی جگہ پر دوسرا کوئی شخص ڈاکٹر بن سکتا تھا- لیکن شاید اس نے سوچا ہو گا
کہ پولیس میں جاکر شاید اس کی زیادہ عزت ہو گی-
بات شروع ہوئی تھی اسلام آباد پولیس کی دانشوری کی- اسلام آباد پولیس نے
شہر کو کئی زونز میں تقسیم کر رکھا ہے- شہر کا سب سے حساس علاقہ ریڈ زون
کہلاتا ہے اس حصہ میں ایوان صدر‘ پارلیمنٹ اور سفارتخانے وغیرہ ہیں- اسلام
آباد کے اس زون میں کمرشل گاڑیوں کو داخل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایس پی
ریڈ زون سے اجازت نامہ حاصل کریں- اس اجازت نامہ کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ
ہے کہ گاڑی کے کاغذات‘ ڈرائیور کے لائسنس اور شناختی کارڈ کی گزیٹڈ آفیسر
سے تصدیق کروانے کے بعد ایک سٹامپ پیپر پر حلفیہ بیان بھی دیا جائے گا- ان
سب چیزوں کی تصدیق کےلئے پولیس عموما ایک ہفتہ یا دس دن لگائے گی اور تھانہ
سیکرٹریٹ سے لکھ کر دیا جائے گا کہ شناختی کارڈ اور لائسنس اور گاڑی کے
کاغذات درست ہیں-
ایس پی یا ڈی ایس پی صاحب ایک فارم پر گاڑی کے نمبر اور ڈرائیور وغیرہ کا
نام لکھ کر دیں گے اور مہر وغیرہ لگا کر دی جائے گی کہ تمام کوائف درست ہیں
اور فارم گاڑی میں رکھ دیا جائے گا- اس کے علاوہ جس کمپنی کا ڈرائیور ہے وہ
کمپنی یا ادارہ اپنے لیٹر پیڈ پر مجاز آفیسر کے دستخطوں اور مہر کے ساتھ یہ
لکھ کر دے گا کہ وہ ان گاڑیوں اور ڈرائیوروں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے- اس
ساری مشق میں آپ کے کئی چکر لگیں گے اور آپ کو یہ پاس مل جائے گا- اب آپ پر
منحصر ہے کہ آپ اس کے عوض کیا نذرانہ پیش کرتے ہیں-اب اس ساری مشقت کے بعد
اگر آپ اسلام آباد سے باہر نکل گئے اور جب اسلام آباد میں داخل ہونے لگیں
گے تو ہر داخلی ناکہ پر آپ کو روک لیا جائے گا اور کہا جائے گاکہ اسلام
آباد میں داخلہ کا پاس دکھائیں- آپ انہیں ریڈ زون کا پاس دکھاتے ہیں تو
دانشور پولیس والے کہتے ہیں کہ یہ تو ریڈ زون کا پاس ہے اسلام آباد میں
داخلہ کا پاس کدھر ہے- اب کوئی بتائے کہ ایک گاڑی کے پاس ریڈ زون اسلام
آباد کا پاس ہے اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ گاڑی ریڈ زون میں تو داخل ہو سکتی
ہے لیکن اس کو داخل ہونے کیلئے ہوائی راستہ استعمال کرنا ہو گا- کیا یہ
کامن سینس (عقل عمومی) کی کمی ہے یا رشوت حاصل کرنے کانیا طریقہ ہے-
دنیا معلوم نہیں کیا کیا کچھ ایجاد کر رہی ہے- مصنوعی دل لگائے جا رہے ہیں-
طلب کی دنیا میں ایک انقلاب ہے- پیداوار کی دنیا میں ایک انقلاب ہے اور ہم
ادھر مٹی کے لوٹے بناتے ہیں اور اپنے آپ پر فخر بھی کرتے ہیں-
دراصل ہم نے یہ طریقہ اپنا لیا ہے کہ اپنے ہم وطنوں کیلئے ہم نے زیادہ سے
زیادہ مشکلات پیدا کرنی ہیں- کسی نہ کسی بہانہ سے اس کے کام میں رکاوٹ پیدا
کرنی ہے- کسی کی مشکل دور نہیں کرنی بلکہ کوئی ایسی راہ نکالنی ہے کہ اس کا
راستہ روک لیا جائے جیسے ریڈزون کے پاس کے ہوتے ہوئے بھی آپ اسلام آباد میں
اگرکمرشل گاڑی ہے تو آپ کو رشوت دینا ہو گی کیونکہ آپ کی گاڑی میں اسلام
آباد پولیس نے حصہ ڈال رکھا ہے- اسلام آباد پولیس حقیقت میں بڑی سمجھدار ہے
اور جانتی ہے کہ کس طرح پیسے بنائے جا سکتے ہیں- کیسے لوگوں کی مشکلات میں
اضافہ کیا جاسکتا ہے- کیسے دوسروں کا وقت ضائع کیا جاسکتا ہے-
یہ اور اس طرح کی اور چھوٹی چھوٹی باتیں جنہوں نے عوام کے ناک میں دم کر
رکھا ہے کوئی ارباب اختیار ان کے بارے میں غور نہیں کرتا کیونکہ وہ بڑے بڑے
کاموں میں مصروف ہے- انہیں دہشت گردی کا سامنا ہے‘ انہوں نے ملک سے لوڈ
شیڈنگ ختم کرنی ہے‘ بے روزگاری دور کرنی ہے‘ مہنگائی پر قابو پانا ہے‘ نئے
نوٹ چھاپنے ہیں‘ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے‘ عدالتوں کو چکر دینا ہے‘
اپنے اوپر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کو دھونا ہے- جب ان باتوں سے فرصت ہو
گی تو دیکھیں گے کہ عوام کو اپنے ہی ملک میں پولیس کے ہاتھوں کن کن ذلتوں
کا سامنا ہے- پولیس کے اعلٰی افسران کی دانشوری کا سامنا کس کس طرح چھوٹے
موٹے کاروباری حضرات کرتے ہیں- |