مسکراتا ہوا ....پیر عثمان رشید شہید

ملنا اور بچھڑنا ناگزیر ہے زندگی اسی دکھ سکھ کی دھوپ چھاﺅں سے عبارت ہے بچھڑنے والوں کی باتیں اور یادیں سانسوں کی ڈوری کے ساتھ بندھی ہوتی ہیں ذرا کسی نے ذکر چھیڑا تو پھر ان یادوں سے شرابور ہونے میں ذرا دیر نہیں لگتی،دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکے بچھڑنے کے غم میںبے ساختہ دل کہہ اُٹھتا ہے
ًٍبچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا

آہ....مولانا پیر محمد عثمان رشید شہید اپنی یادیں اور باتیں چھوڑ کر ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگیا جمعة المبار ک کے روز میں نماز مغرب سے فارغ ہوا اور جیسے ہی اپنے کمرے میں پہنچا تو بھائی سیف اللہ ربانی نے کہا کہ والد گرامی مولانا پیر برکت اللہ ربانی صاحب مدظلہ فرمارہے ہیں خبر آئی ہے کہ کوئی طیارہ گرگیا ہے ذارا چیک کریں میں نے نیٹ آن کیا تو معلوم ہوا کہ لوہی بھیر کے مقام پر نجی کمپنی کا طیارہ کریش ہوگیا ہے انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فوراً کہا کہ کراچی قاری محمد اکبر آزاد (خطیب پاکستان ٹول مشین فیکٹری)کو فون کرکے معلوم کرو اپنے رشتہ داروں میں سے کوئی آج سفر تو نہیں کررہا تھا میں اس وقت تک یہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ جو بزرگ فرمارہے ہیں اس بات میں خطرے کی کوئی گھنٹی ہے خیر رسما ً فون کرکے میں خاموش ہوگیا تو وہ پھر گویا ہوئے بھائی کسی اور سے بھی معلوم کرلو اچانک میرے زہن میں آیا کہ پیر عثمان کراچی میں ہیں اس خیال نے میرے دل کی دھڑکنیں تیز کردیں مولوی عدنان کو فون کیا تو انہوں نے بتایا ہزاروی صاحب ایئر پورٹ معلوم کرنے گئے ہیں پھر عمران سے بات ہوئی انہوں نے خطرے کے اظہار کے ساتھ دعاﺅں کی درخواست کی اور جیسے ہی مولانا عبد المجید ہزاروی صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے گلو گیر انداز میں کہا کہ پیر عثمان بھی اسی جہاز کا مسافر تھا جسکی تصدیق کراچی میں اُنکے میزبان دوست نے کردی اتنے مظبوط دل فرد کی غمناک آواز نے ہم سب کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری کروادیے ۔ہمارے لئے یہ غم ہی بہت بڑا تھا کہ دوسری طرف بھائی عبد القدوس محمد ی نے استاد الحدیث و ناظم تعلیمات جامعہ بنوری ٹاﺅن کراچی کی بمع ہمشیرہ و خادم خاص کی بھی سانحہ میں شہادت کی خبر دی ہم غم و اندوہ کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ قاری محمد یوسف (انچارج حلقات انٹرنیشنل اسلامک ریلیف آرگنائزیشن ) نے ہمارے حفظ کے ساتھی مدرسہ تعلیم الاسلام جی سیون ٹو اسلام آباد کے سابق سٹوڈنٹس اور کراچی گلشن اقبال میں واقع جامع مسجد صدیق اکبر ؓ کے خطیب مولانا گلزمان کی بمع والدہ حادثہ میں خالق حقیقی سے جاملنے کی خبرسنائی ان پے درپے خبروں نے ایک عجیب سی کیفیت طاری کردی اورہم یوں ہوگئے جیسے جسم ہیں اور جان نہیں سو رضا با لقضاءہی حقیقت ہے اور اس پر صبر و شکر ناگزیر ہے۔ایسے وقت کیلئے یہی حکم ہے کہ ”انا للہ و انا الیہ راجعون “پڑھیں ہم بھی اسی کا ورد کرتے رہے۔

مولانا پیر عثمان رشید ایک ایسا نادر شخص تھا جسے اللہ نے بے شمار صلاحیتوں سے نواز اتھا اور بے شمار حوالوں سے اسکی اہمیت علاقہ و خاندان اور احباب کیلئے غیر معمولی تھی زندگی کی چھبیسویں بہار میں ابھی قدم رکھا تھا دوسری طرف علمی میدان میں عصری و فنی علوم کے ساتھ جامعہ بنوریہ کراچی سے سال گزشتہ میں فراغت حاصل کی تھی جامعہ بنوریہ کے مہتمم مولانا مفتی محمد نعیم صاحب کو اپنے اس ہونہار شاگرد پر اتنا اعتماد تھا کہ عملیات کے شعبہ کے انچارج مولانا عبد المجید صاحب کے بعد پیر محمد عثمان کو زمانہ طالبعلمی میں ہی اس شعبہ کی زمہ داریاں دیدی تھی اور فراغت کے بعد حضرت مہتمم صاحب کی یہ دلی خواہش تھی کہ پیر عثمان کراچی میں ہی قیام کریں لیکن اہل خانہ کی عدم اجازت پر وہ واپس راولپنڈی آگئے ۔

پیر عثمان رشید شہید کا تعلق ایک ایسے علمی،سیاسی،سماجی خانوادے سے ہے جس کے سر خیل حکیم ملت مولانا عبد الحکیم رحمة اللہ علیہ سابق ایم این اے و سینیٹر ہیں آپ ؒ کی دیگر خدمات کے علاوہ صدقہ جاریہ کے طور پر راولپنڈی میں قائم عظیم دینی درسگاہ جامعہ فرقانیہ مدنیہ کوہاٹی بازار میں آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے اور تشنگان علوم دینیہ کو سیراب کررہی ہے پیر عثمان حکیم ملت ؒ کے پوتے ہیں مولانا قاری عبد الرشید درویش کے صاحبزادے اورجے یو آئی اسلام آباد کے امیر اور جامعہ فرقانیہ کے مہتمم مولانا عبد المجیدہزاروی صاحب کے آپ بھتیجے ہیں علمی میدان میں جامعہ فرقانیہ کے نظم و نسق میں مولانا عدنان رشید نائب کی حیثیت میں سرگرم عمل ہیں جبکہ سیاسی و سماجی حلقے میں کام کو سنبھالنے کیلئے پیر عثمان سے زیادہ بہتر کوئی نظر نہیں آرہا تھا جبھی ہزاروی صاحب کی ایک عرصہ سے تمام ترتوجہ پیر عثمان کی تعلیم و تربیت اور حلقہ احباب میں تعارف پر تھی اور یہ بھی عجیب صلاحیتوں کا مالک شخص تھا جس سے ملا انہیں پہلی محفل میں اپنا گرویدہ بنا لیا میری آخری ملاقات ”ماہنا مہ فیضان حکیم“کی ڈیکلریشن کے مسئلہ میں پی آئی ڈی کے باہر ہوئی وہی ہنستا مسکراتا چہرہ ،ملاقات پر ایسا دلربا انداز اور وہی شکوہ جناب ملنے کا موقع تو دیدیا کریں جب حکم کریں میں حاضر ہوجاﺅں میں نے کہا کل صبح ایک جگہ کام سے جانا ہے فیض آباد آجانا بغیرکسی انتظار کے کہدیا جی میں حاضر ہو جاﺅں گااُنکی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ چھوٹوں ،بڑوں اور عام و خاص میں یکساں مقبول تھے گزشتہ سے پیوستہ سال اپنی والدہ کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کی وہ بیک وقت خطابت،نقابت،تدریس ،تحریر،سماجی و سیاسی میدان کے شہسوار تھے آج کل کفالت ٹرسٹ کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے تعلیمی سیکٹرایچ ایٹ میں جامعہ عثمانیہ و مسجد عثمان ؓ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے قدرتی طور پر انہوں نے جس کام کو ہاتھ ڈالا توجہ اورانہماک سے اُسے حاصل کرنے کی کوشش کی اللہ نے انہیں کامیاب فرمایا،معاشرے میں روحانیت اور عملیات کے چکر میں عوام الناس کو الو بنتے دیکھا تو اس سلسلہ میں خدمت خلق کی ٹھانی اور محنت کرکے مختلف متقی اساتذہ سے کسب فیض کیا اوریوں بلا معاوضہ اس کام کا اغاز کیا ہر اتوار کو اسلام آباد میں سینکڑوں افراد کا علاج معالجہ کرتے تھے اور اصلاح فرماتے ہوئے تعلق مع اللہ کی تلقین کرتے تھے جبکہ مروجہ طریقوں کی مخالفت کرتے تھے میرے مشاہدہ میں یہ بات ہے کہ اکثر عاملین کے چہرے سے مسکراہٹ اکثر غائب رہتی ہے لیکن پیر عثمان رشید کا چہرہ ہمیشہ مسکراتا ہوا نظر آتا تھا۔

دوستوں کے لئے وہ غیر معمولی کیوں تھے اس بات کا اندازہ ایک بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سب کیلئے سب سے قریب ہوتے تھے سنجیدہ مزاق،نپا تلا انداز،گھرمیں ماں ،باپ،بہن اور بھائیوں سے احترام اور خالص محبت کا رشتہ تھا بس قدرت کی دین تھی کہ اللہ نے بے پناہ صفات سے نوازا تھا ابھی چند ہفتے قبل انکی منگنی ہوئی وہ خاندان بھی اپنی خوش قسمتی پے نازاں تھا اور یہ بھی خوشی سے پھولے نا سماتے تھے میں نے دیکھا یہاں بڑے بڑے ضبط کرنے والے پھوٹ پھوٹ کر رودیے کیا اپنے اور کیا بیگانے ہم عصر دوستوں کو دیکھا تو اتنے دن گزر جانے کے باوجود اُنکے چہرے پژمردہ دکھائی دیئے کیا مولوی طیب، حافظ راشد،بھا ئی عدنان،آصف،عمران،اسد،توصیف اور کیا زبیر زرین جسکو دیکھو وہ غم میں نڈھال اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دنیا اب انکے لئے بے کارہوگئی مولانا ہزاروی صاحب سے تعزیت کیلئے قائد جمعیت مولانا فضل الر حمن،پاکستان شریعت کونسل کے چیئر مین مولانا فداءالر حمن درخواستی سمیت مہتمین ،منتظمین،مدرسین،ساسی،سماجی ہر طبقہ فکر کے افراد کی بڑی تعداد آچکی اور سلسلہ جاری ہے مگر غم کی اس کیفیت سے اب تک وہ باہر نہی آسکے دعا ہے کہ امتحان کی اس گھڑی میں اللہ انہیں ثابت قدم رکھے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاءفرمائے کسی نے کیا خوب کہا جو شہید پر صادق آتا ہے
کوئی ملے تو مسکرا پڑتاتھا اکثر
آنکھوں میں جو آنسوﺅں کا سیلاب رکھتا تھا
سناہے ستاروں نے کرلی ہے دوستی اس سے
سپنے آنکھوں میں جو بے حساب رکھتا تھا
اک اُداسی سی چھائی ہوئی تھی اس کی نگاہوں میں
وہ جو کھا کے چوٹ ہسنے کی ادا رکھتا تھا
پھر اس شخص کا طلبگار ہوں میں سحر
جو میری سب وفاﺅں کا حساب رکھتا تھا
Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.