پاکستان کی انڈسٹری تباہی کے دہانے پر

اس وقت ہر کاروباری و سیاسی شخصیت کی زبان پر صرف ایک ہی رٹ جاری ہے کہ پاک بھارت ٹریڈ کو وسعت دی جائے تاکہ بھارت سے سستے داموں اشیاءخریدی جاسکی اور پاکستانی اشیاءکو مہنگے داموں انڈیا کی سرزمین پر فروخت کیا جاسکے۔ خیر یہ تو آنے والا وقت بتائیے گا کہ پاک انڈیا ٹریڈ سے پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟فرض کریں اگر پاکستانی بزنس مینوں کو انڈیا کی سرزمین سے آرڈر مل بھی جاتے ہیں تو کیا وقت پر آرڈر سپلائی کر پائیں گے؟

میری نزدیک پاک بھارت ٹریڈ میں فائدہ صر ف ا ور صرف انڈیا کے کاروباری حضرات کاہوگا کیونکہ ان کی اشیاءجب سستے داموں پاک مارکیٹ میں میسر آئے گی تو پاکستانی عوام کا دماغ تو پاگل نہیں کہ وہ پاکستانی اشیاءکو مہنگے داموں خرید ے۔ خیرپاکستانی اشیاءکو فروخت کیلئے اس وقت منڈیوں میں لایا جائے گا جب ان کی پروڈکشن ہوگئی۔ اس وقت دن میں تقریباً8-12 گھنٹے عوام کو لوڈشیڈنگ کا گفٹ میسر ہے۔ اس ٹائم میں بیشتر اوقات فیکٹری پروڈکشن کا ہے، جس کی وجہ سے ورکر حضرات کو موقع میسر آتا ہے کہ وہ لڈو ، تاش اور کڑکٹ کھیلیں و حالات پرباتبصرے کریں۔ کیونکہ اس وقت پٹرول صاحب کی قوت خرید فیکٹری مالکان کی پہنچ سے100 گنا درو ہو چکی ہے۔

قارئین اس لوڈشیڈنگ کے دور میں students کو گیم کھیلنے اور facebook کی پر چیٹنگ کیلئے خادم اعلٰی نے فوری طور پر 125,000لیپ ٹاپ امپورٹ کیئے، خادم اعلٰی صاحب کو Facebook کی Study کا اندازہ ہے کہ یہ کتنی Impotant ہے، وہ خود اپنا قیمتی ٹائم facebook پر صرف کرتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں خادم اعلٰی لیپ ٹاپ کی تقیسم کے سلسلہ میں شہر اقبال تشریف لائے اور اقبال کے شاہینوں کو بھی لیپ ٹا پ دیئیے، جن میں خواجہ محمد صفدر میڈیکل کالج ، گورنمنٹ مرے کالج ، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین سیالکوٹ ، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ڈسکہ سمیت ضلع کے دیگر ڈگری کالجوں کے 813 طلباءو طالبات شامل تھے۔ خادم اعلٰی اپنی مصروفیات میں سے ٹائم نکالتے ہوئے سیالکوٹ چیمبر آف کامرس بھی تشرف لائے جہاں صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لوڈشیڈنگ کے بحران سے پاکستان کی صنعت وتجارت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیر ملکی خریدار صوبہ پنجاب کے صنعت کاروں کو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آرڈر زدینے سے اب پس وپیش سے کام لے رہے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ قومی انرجی کانفرنس کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جارہاہے اور انرجی کانفرنس کے فیصلوں کے مطابق لوڈشیڈنگ کے حوالے سے صوبے سے یکساں سلوک کرنے کے فیصلے کی نفی کی جارہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ انرجی کانفرنس کے بعد صوبہ پنجاب کے شہروں میں بارہ ، بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، جبکہ ملک کے کئی حصوں میں ایک منٹ کی بھی لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی۔وفاقی حکومت کو عوامی مشکلات کا کوئی احساس نہیں ،صرف لوٹ مار کے پروگرام پر عملدرآمد جاری ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بجلی کے بحران سے صوبہ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہورہاہے اور پنجاب سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا جارہا ہے ۔ نندی پور پاور پراجیکٹ میں دوسال کی تاخیر سے اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور بجلی کے بحران میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ اگر کوئلہ درآمد کرکے بجلی پیداکی جائے توتیل کے مقابلے میں اخراجات میں 50فیصد کمی ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کی75شوگر ملوں میں استعمال ہونے والے گنے کے پھوگ سے بھی سستی بجلی پیداکی جاسکتی ہے اگر وفاقی حکومت بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے تین ، چار سالوں میں کچھ نہیں کرسکی تو صوبوں کو بجلی کے منصوبے شروع کرنے کی اجازت دی جائے ۔

خادم اعلٰی کی روانگی کے بعد شیخ ریاض الدین کی سربراہی میں SME,s کا ایک تربیتی سیمینار ہوا، جس میں نوجوان اعلٰی تعلیم یافتہBusinessman فیضان اکبر نے ایک معلوماتی Presantation دی جس میں SME,s کو کاربار شروع کرنے بارے Information دی گئی۔مزید براں خواجہ ذکاءالدین نے SME,s کو کاروبارچلانے کیلیئے اسلامی اقدار پر روشنی ڈا لئی۔

ایک اندازے کے مطابق 50%سے زیادہ آرڈر مقرر وقت پر سپلائی نہیں ہورہے جسکی وجہ لوڈشیڈنگ کو تصور کیا جاتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی باوجودRaw Materialکی سپلائی مقرر وقت پر میسر بھی آجائے تو Production لوڈشیڈنگ کی بدولتDelay ہوجاتی ہیں۔ جس کی بدولت امپورٹر اور ایکسپورٹردونو ں کو Claim کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قارئین حکومت وقت کو چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی مراسم پیدا کرنے سے پہلے کاروباری حضرات سےone to one Meating کرے ، جن میں SME,s کی نمائندگی کا بھی خیال رکھا جائے۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، تاجروں کی تربیت کیلئے اقدامات کرے، بیرونی ممالک صنعتی نمائش میں شمولیت کے لئے پاکستانی صنعت کاروں کو مناسب مواقع اور سہولیات فراہم کریں اور TDAPکی سروس کو ترقی دی جائے۔

اگرحکومت وقت و کاروباری حضرات نے لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب SME,s اپنی فیکٹریوں کو تالا لگانے پر مجبور ہو جائے گئے۔
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 81477 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.