1886ءمیں شکاگو کے مزدوروں کی
اپنے حقوق کیلئے دی جانیوالی بے مثال قربانی کی یاد میں ہر سال عالمی طور
پر مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جب انہوں نے مغربی سرمایہ کاروں کے
سامنے صدائے بغاوت بلند کرنے کی پاداش میں موت کو گلے لگالیا یکم مئی کا دن
مزدوروں کے عالمی دن پر مناتے ہوئے دنیا کو 126سال ہوگئے ہیں لیکن آج بھی
مزدوروں کے مسائل کے حل کیلئے کئے جانیوالے اقدامات کا اگر جائزہ لیا جائے
تو صورت حال انتہائی مایوس کن منظرنامہ پیش کرتی نظرآتی ہے جس کا اندازہ
کرنے کیلئے ہمیں مزدوروں کیلئے بنائے جانیوالے قوانین دیکھ کر نہیں بلکہ
مزدوروں کی حالت دیکھ کر زیادہ بہتر طور پر پتا چلے گا پاکستان جیسے اسلامی
ملک میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کل ملکی آبادی کا 35%مزدوروں پر مشتمل
ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے نام پر بننے والی عظیم مملکت خداد میں
انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ملک میں بجلی ،گیس،
صاف پانی،بدترین مہنگائی،دہشتگردی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے مزدوروں سے
زندگی کی امنگیں تک چھین لی ہیں الغرض سرمایہ دارانہ نظام کی نحوست
اورحکومت کی نالائقیوں نے انہیں جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا
ہے ۔حکومت نے دوسال قبل labour ordinance 2010 میں مزدور کی تنخواہ سات
ہزار روپے مقرر کی ہے حکومت کی یہ بڑی عنائت ہوتی اگر وہ اس سات ہزار کی
تنخواہ کے ساتھ مزدور کو اس کا بجٹ بھی بنا دیتی کہ وہ اس دور میں اس سات
ہزار کے ساتھ کیسے گزارہ کرے یہ سوال مجھ سے میرے ہمسائے میں رہنے والے ایک
مزدور بشیراحمدنے کیا اُس نے کہا کہ میرے نو بچے ہیں جو سکولوں میں پڑھتے
ہیں ،مکان کرائے کا ہے ایسے میں کرایہ مکان ،یوٹیلٹی بلز،سکول اخراجات اور
میڈیکل کو کس طرح سات ہزار میں manageکیا جاسکتا ہے ایسے میں صرف سات ہزار
روپے اس غریب اور مزدور کے منہ پر طمانچے کے سوا کچھ نہیں ایسے میں ایک
غریب آدمی ڈاکے نہیں مارے گا تو اور کیا کرے گااس نے کہا کہ یہاں بھی ہمارے
ساتھ دھوکا ہوتا ہے کیوں کہ جب ایک غریب کا بچہ ایک پتنگ بھی لوٹ لے تو اسے
جیل بھیج دیا جاتا ہے جب کہ جو دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں انہیں
اتنی ہی بڑی وزارتیں عطا کردی جاتی ہیں میں یہ سمجھتا ہوں یہ ایک بشیر احمد
کی نہیں پاکستان کے تمام مزدوروں اور پسے ہوئے طبقے کی پکار ہے ۔مزدوروں کی
مشکلات میں ایک یہ بھی ہے کہ ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کیا جاتا ہے انہیں
کمی اور حقیر سمجھا جاتا ہے حالاںکہ جن محلات میں یہ بیٹھے ہوتے ہیں اور آج
جن فیکٹریوں کی کمائی سے وہ اپنی جیبیں اور اکاؤنٹ بھررہے ہوتے ہیں اُس کی
تعمیر سے لے کر اُن کو چلانے تک میں ان مزدوروں کے خون پسینے کا کردار ہی
مرکزی ہوتا ہے ۔اسلام نے سب کو برابر کا رتبہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی عربی
کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل نہیں اگر کسی کو کسی
پر برتری ہے تو اُس کی بنیاد ایمان و اعمال صالحہ ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ
کہ ہاتھ سے محنت کرنے والے کو اللہ کا دوست کہا گیا ہے لیکن آج ستم ظریفی
یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کاجادو اللہ کے ان دوستوں کو حقیراور لٹیروں
اور سرمایہ داروں کو معزز بنا کر پیش کرتا ہے ایک غریب بیشمار خوبیوں اور
صلاحیتوں کے باوجود کمی کماراور مزدور ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ ایک سرمایہ
دار لاکھوں عیوب کے باوجود معزز و مہربا ن کہلاتا ہے ۔
ع میری غربت نے اڑایا میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
ضرورت اس چیز کی ہے کہ حکومت ہرسال مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر چند رٹے
رٹائے بیانات دینے اور اُن کیلئے مگرمچھ کے آنسو بہانے کی بجائے اُن کی
فلاح و بہبود کیلئے عملی اقدامات کرے جن میں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں
میں اضافہ،مزدوروں کے بچوں کیلئے مفت تعلیم و علاج معالجے اور رہائش جیسے
سرِ فہرست مطالبات کا پوراکیاجانا سرمایہ داراریت کے نیچے سسکتے مزدوروں کا
حکمرانوں حق بھی ہے اور حکومت و ریاست کی اولین ذمہ داری بھی ۔ |