تعلیم پر نہ جانے کس کس کی بد نظر

تعلیمی معیار کی بہتری اورشفافیت میں ہی ملک وقوم کی فلاح وبہبود کا راز پوشیدہ ہے ۔ بلاشبہ تعلیمی بیداری میں ہی ترقی وکامرانی کے سامان ہیں ۔ تعلیم پر ہی ملک وقوم کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے ۔ بدون تعلیم اقبال و عروج کے منازل طے کرنا ممکن نہیں ۔ جو قوم علم دوست ہوتی ہے ، در اصل وہی فتحیابی اوروظفرمندی سے ہمکنار ہوتی ہے ۔چونکہ تعلیم سے سب کو محبت ہے ، اس لئے تعلیمی فروغ کے نام پر سیاستداں تک بھی اپنی سیاسی روٹیاں سینک لیتے ہیں ۔ تعلیمی شفافیت مہم اورفروغ تعلیم کے لئے کچھ کرگزرنے والوں کی پذیرائی ہر طرف ہوتی ہے ۔ تعلیم دوست افراد دنیا کو داغ مفارقت دئے جانے کے باوجود بھی اپنے پیچھے ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ، جن پر لوگ عش عش کرتے رہتے ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ تعلیم سے بے اعتنا سماج کبھی فلاحیابی سے سرفراز نہیں ہوا ۔ تعلیم کو پس پشت ڈالنے والے اقوام واشخاص قعر مذلت میں گرتی چلی گئیں ۔

فی الواقع ہر ملک وقوم میں تعلیمی فروغ کے لئے لائحہ عمل تیار کئے جاتے ہیں ، نئی نسل کو ایسی تعلیم فراہم کرنے کی تگ ودو کی جاتی ہے کہ اس کی شخصیت سنورے ،پھررفتہ رفتہ ترقی وکامرانی کے دریچہ وا ہوں ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ہرسطح پر تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لئے لائحہ عمل تیار کئے جاتے ہیں ۔ ملک کے بالغ نظر ، روشن خیال ، زمانہ شناش ، بیدارمغز اورعلم دوست افراد تعلیمی نظام میں شفافیت پیدا کرنے کی پیش رفت کرتے ہیں ، مگر بد قسمتی کی بات ہے کہ ہر چہار جانب کی کوشش کے باوجود تعلیمی نظام میں ایسی ایسی خامیاں اورکوتاہیاں نظر آتی ہیں ، جو ملک وملت کی فتحمندی کے لئے مخل ہیں اور باعث شرم وعار بھی ۔ ان دنوں ہزار کوشش اورسنہرے خواب وپلان کے باوجود بھی ہمارے ملک کی تعلیمی صورتحال ناگفتہ بہ ہے ۔ بے شمار بدعنوانیوں کی زد میں ہمارا تعلیمی نظام ہے ۔ ہر سطح کی تعلیم پر بدنگاہی اور مافیا گیر ی واضح نظر آرہی ہے ۔ جہاں تعلیم نظام سے اخلاقیات عنقاہے وہیں تعلیم کے نام پرنونہالوں کے قلوب اذہان کو فرقہ واریت سے آلودہ کرنے کی کوشش تیز تر ہے ۔ کہیں اساتذہ کا استحصال ہوتا ہے تو کہیں طلبہ وطالبات کا، وہ بھی اساتذہ کے ہاتھوں ہی !!غرض کہ ہزارکوشش کے باوجود بھی تعلیمی معیار میں بہتری نہیں آرہی ہے ۔

ظاہر بات ہے کہ اگر اساتذہ کی تقرری میں لا پروائی ہوگی تو لامحالہ تعلیمی معیار روبہ زوال ہوتا چلاجائے گا ، طلباءاساتذہ کی کمی کی وجہ سے رفتہ رفتہ اندرون سے کھوکھلے ہوتے چلے جائیں گے ، جس سے ملک و قوم کا ناتلافی نقصان ہوگا ، اخباری رپورٹ کے مطابق اتر پردیش کے 600انٹر کالجوں میں صرف ایک ایک ٹیچر ہی درس وتدریس کے لئے مامور ہیں ، حالانکہ ان کالجوں کے لئے 13ٹیچر کے عہدے منظور ہیں ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ 80فیصد کا لجوں میں پرنسپل تک نہیں ۔ پوری ریاست میں اپ گریٹ انٹر کالج میں پانچ ہزار سے زائد ٹیچروں کے عہدے خالی ہے ، ان کالجز کے لئے سابقہ حکومت میں 20فیصد سے زائد عہدوں پر خواتین کی بھی تقرری ہوئی ، مگر بدقسمتی بات ہے کہ ان میں بے شمار کی جوائننگ نہیں ہوسکی ، مثلاً،لکھنو میں 450خواتین کی تقرری ہوئی ، مگر 150کی ہی جوائننگ ہوسکی ۔ فیض آباد کے نریندر دیو زرعی یونیورسٹی کمار گنج سے ملحق سات کالجو ں میں انتہائی کم اساتذہ درس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ، وینٹری کالج میں 18شعبے ہیں ، جن کے لئے کوئی 100اساتذہ وغیرہ کی ضرورت ہے ، مگر اس کالج میں محض 16اساتذہ ہی ہیں ، بالکل یہی صورتحال یونیورسٹی احاطہ میں واقع ماہی پروری پی جی کالج ہے ، جہاں سات شعبے ہیں ، جن کے لئے کوئی 43ٹیچرس کی ضرورت ہے ، مگر صر ف 2اساتذہ مامور ہیں ، ذراسوچنے کی بات ہے اگر اس کثیر تعداد میں اساتذہ نہ ہوں گے تو تعلیمی صورتحال کس حد تک روبہ زوال ہوگی ، بلکہ اتنے کم اساتذہ کے ذریعہ تو تعلیم متصور ہے ہی نہیں ۔

اسی طرح اگر تعلیم گاہوں کی داخلی اورخارجی فضا ہموار نہ ہوتو طلباءکو نت نئی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے ، ایسی صورتحال میں یکسوئی مفقود ہونے کی وجہ سے تعلیم سے دل اچاٹ ہوتا چلاجاتا ہے ، داخلی فضا کو پرسکون بنانے میں بیٹھنے بٹھانے ، صفائی ستھرائی اور بجلی پانی نظام کا بہتر ہونا ازحد لازم وضروری ہے ، اگر ان کی فراہمی میں کوتاہی ہوتو لازماً تعلیم متاثر ہوتی ہے ، ریاست اتر پردیش میں بھی لا تعداد ایسے اسکول ہیں جہاں ان مسائل کے تصفیہ پر توجہ نہیں کی گئی ۔ ضلع گونڈہ میں چار برس قبل بیسک تعلیمی پریشد کے ذریعہ تقریباً2830پرائمری واعلی پرائمری اسکولوں کو بجلی کاری کے لئے منتخب کیا گیا ، مگر 1179اسکول میں ہی بجلی کاری ہوئی ، وہ بھی بس غنیمت !!حالانکہ فی اسکول 26988روپئے کے اعتبار سے 3کروڑ 18لاکھ روپئے اس میں صرف ہوچکے ہیں ، اب بھی 16سے زائد اسکول میں بجلی نام کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ۔ کہنے تو بہت سے لوگوں کی نگاہ میں یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ، مگر انصاف پسندی کی بات ہے کہ ان وسائل سے محرومی تعلیمی نظام کی بہتری میں مخل ہے ۔ چنانچہ ان وسائل کی عدم فراہمی میں دراصل ملک وملت کا نقصان ہے ۔

جہاں حکومتی افراد کی سر دمہری یعنی انتظامیہ کی غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے تعلیمی نظام مضحمل ہوتا ہے ، وہیں تعلیمی مافیاؤں کی مادیت پسندانہ کردار سے تعلیم روبہ زوال ہے ۔ تعلیمی مافیا اس تندہی اور بے خوفی سے اپنے قدم جماکر قوم کے نونہالوں کی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہیں ، جسے دیکھ کر یہ کہنے میں ذرابھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے کہ ”قانون کے ہاتھ لمبے نہیں ہوتے ہیں“۔ تعلیمی مافیا ملکی آئین وقوانین کو پس پشت ڈال کر سماج کو بے ایمانی اور بد عنوانی کے لپیٹے میں لینے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ اپنے ناپا ک منصوبے کو عملی جامہ پہناتے رہتے ہیں ، مگر محکمہ تعلیم سے منسلک افراد دیدہ یانادیدہ انہیں کچھ نہیں کہتے ، کچھ بھی نہیں بولتے ہیں ، ان کی خموشی گویا ان غیر اخلاقی رویہ کو فروغ دینے والوں کی تائید ہے ، قانون شکنی کی توثیق ہے ، بدعنوانی کی ہمت افزائی ہے ، لوٹ وگھسوٹ اورمکاری وعیار کی وہ واہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں تعلیمی مافیاؤں کا بازار گرم ہے ، تعلیم کے نام پر دھوکہ دھڑی زوروں پر ہورہی ہے ۔ یہ مافیا کئی ایک بھیس میں سماج کو تعلیم کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں ، ان میں سے ایک گروہ وہ بھی ہے ،جنہیں ”مشفق دلا ل “بھی کہا جاسکتا ہے ، مشفق دلال طلباءکے والدین سے چکنی چپڑی باتیں کرکے دلوں کو مونہہ لیتے ہیں اور ایسے تعلیمی اداروں اور انسٹی ٹیوٹ کی تعریف وتوصیف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں ، جہاں تعلیم تو یکسر ہوتی ہی نہیں ، مگر فیس گراں ہوتی ہے ، ان انسٹی ٹیوٹ کے مالکان سے سانٹھ گانٹھ کرکے اپنی جیبوں کو گرم کرتے رہتے ہیں ، لہذا یسے مشفق دلال سے دامن بچائے رکھنا بھی ملک وقوم کی بھلائی کے لئے ازحد لازم وضرور ہے ۔

یوٹی سی کے پس پردہ بھی تعلیمی مافیا گل کھلارہے ہیں ۔ آل انڈیا تعلیمی گھر نے 1979میں یوٹی سی کا یک سالہ کورس شروع کیا تھا ۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ اسسٹنٹ ٹیچر بننے کے لئے بی ٹی سی یا بی ایڈ دوسالہ ہے تو یو ٹی سی کو 1985-86میں دوسالہ کردیا گیا ۔ مگر ریاستی حکومت نے اسے اسسٹنٹ ٹیچر کی اہلیت کے لئے منظور ی نہیں دی ۔ باوجود اس کے تعلیمی مافیا یوٹی سی کے پس پردہ نوجوانوں کو ورغلارہے ہیں ، انہیں سنہرے خواب دکھاکر اسسٹنٹ ٹیچر کی اہلیت کا ڈھنڈھورہ پیٹ رہے ہیں ۔ان کے دام فریب میں پھنس کر حصول ِ ملازمت کی غرض سے ہزار وں افراد ہزاروں روپئے صرف کر کے اس کی سر ٹیفکٹ حا صل کررہے ہیں۔ مگر حصول ملازمت کا خرا ب شرمندہ تعبیر نہیں ہورہاہے ۔

یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ کوئی چار دہائی قبل یوٹی سی کا قیا م عمل میں آیا ہے اوراولین دن سے اس کے مراکز ریاست کے مختلف اضلاع میں قائم ہورہے ہیں ، بہت سے طلباءان کے دام فریب میں پھنس کر ہزاروں روپئے بربا دکر رہے ہیں ، مگر کبھی بھی ان مراکز پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی، کسی نے یہ حقیقت سامنے لانے کی کوشش نہیں کی ، آخر کیاوجہ تھی ؟ کیا محکمہ تعلیم سے یو ٹی سی (اردوٹیچر ٹریننگ )کے کارکنان کی سانٹھ گانٹھ تھی ؟ الہ آباد ، دریاباد ، کریلی ، لکھنو ، بنارس ، کانپور ، بریلی ، مراد آباد ، مرزاپور اور اعظم گڑھ سمیت ریاست کے مختلف اضلاع میں سیکڑوں سینٹر س قائم ہیںمگر کسی نے ا س کی حقیقت جاننے کی کو شش نہیں ، اس سے اندازہ لگائیے کہ محکمہ تعلیم اور دیگر تعلیم کو فروغ دینے والے ادارے تعلیم کے تعلق سے کس قدر لا پر واہ ہیں ؟۔

دہلی کے پرائمری اسکولوں میں خالی اسامیوں کے لئے دہلی میونسپل کارپوریشن نے پہلی مرتبہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر اساتذہ کی بحالی کے تئیں آن لائن عمل شروع کیا تھا ۔ تقریباً 48ہزار درخواستیں موصول ہوئیں ۔ جن میں سے لگ بھگ 2500امیدواروں کو میرٹ لسٹ میںشامل کیا گیا تھا ۔ جب میرٹ کی بنیاد پر منتخبہ امیدواروں کوسرٹیفکٹ چیک کرانے کے لئے بلایاگیا تو ہر تیسری امیدوار کے سرٹیفکٹ میں خامیاں نظر آئیں ۔ چانچ میں حقیقت واشگاف ہوتی نظر آئی تو بہت سے امیدواروں نے کارپوریشن جانا ہی بند کردیا ۔ جن 1767امیدواروں کوجاناتھا ان میں سے 572پہونچے ہی نہیں ۔ خبر یہ ہے کہ نریلا زون کے 57، شاہدرہ نارتھ زون کے 204میں سے 60، روہنی کے 200میںسے 70، شاہدرساؤتھ کے 200میں سے 67امیدوار میرٹ لسٹ میں آنے کے باوجود چانچ کے لئے نہیں گئے ۔

نظام تعلیم مضمحل ہے اس لئے تو تعلیمی میدانوں کے شہ سواروں میں ایسی ایسی خامیاں نظرآئیں؟سوال یہ ہوتا ہے کہ سرٹیفکٹ میں ایسی خامیاں کیوں نظرآئی ؟تعلیمی نظام میں کہاں جھول ہے کہ ایسے افراد کوڈگریاں مل گئیں ؟اسناد میں خامیاں کس کی کوتاہی کا نتیجہ ہے ؟ ایسے افراد ، جن کی ڈگریوں میں خامیاں ہیں یا جنہوں نے غلط معلومات فراہم کی، مندِدرس پر متمکن ہوکر کیسے طلباءکی کردار سازی کریں گے؟ کیسے وہ اخلاقیات پر توجہ دیں گے ؟ کیسے وہ مسند درس پر براجمان ہو نے کے بعد شفافیت کے لئے کچھ کریں گے ؟ کیوں کر ایسوں کے دل میں نظام تعلیم کی صحتمندی کا خیال آئے گا ؟لب لبا ب یہ ہے کہ ایسے افراد سے ملک و قوم کی ترقی قطعی متصور نہیں ۔ خداکا کرم ہے کہ ایسے افراد پر ایم سی ڈی افسران کی نگاہ پڑی ، اور وہ مسنددرس پر متمکن نہ ہوسکے ۔ لیکن ان کی ڈگریوں کو کالعدم قرارنہیں دیا گیا ہے ،جو کہ ضروری ہے ۔تاکہ یہ تعلیمی مافیا ان ڈگریوں کی بنیاد پر دوسری جگہ کسی مقام پر فائز نہ ہوسکے ۔ ایم سی ڈی افسران نے ایسے خاطیوں کے خلاف رپورٹ درج کروانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ، بس اب دیکھنا ہے کہ کب تک ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے ۔

مافیاؤں کے علاوہ فرقہ پرست عناصر نے بھی تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوشش تیز تر کردی ہے ۔ ملک کی کئی ایک ریاست میں زعفرانی ذہنیت کے افر اد تعلیمی نظام پر اس قدر حامی ہوتے چلے جارہے ہیں کہ مخرب اخلاق ماہناموں کو طلباءکو بستہ میں رکھنے پر مجبور کیا جارہا ہے ، گرچہ ان سے عقائد متزلزل ہوں ۔ اسی طرح بنیادی بہترین اسکولوں میں مسلم طلباءکو داخلہ دینے میںعصبیت کا کھیل اپنے عروج پر پہونچ چکا ہے ، اس کی تازہ ترین مثال دہلی کے اسکولوں کی ہے ، جہاں داخلہ دینے کے تئیں مسلم طلباء کے ساتھ نارواں سلوک کیا گیا ۔

ان تمام بدعنوانیوں کی بنیادی وجہ تعلیم تجارت بن کر رہ گئی ہے ۔ مادیت پسندی نے اخلاق ومروت اورحق شعاری کو مات دینے کی ریس شروع کردی ہے ، اسی مادیت کاغلبہ ہے کہ اساتذہ تک بھی تعلیمی ادائے فرض منصبی میں کوتاہ ہوتے چلے جارہے ہیں ، بسااوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اسکول وکالج کے درس گاہوں میں اچھی تعلیم نہ دے اپنے یہاں طلباءکو ٹیوشن کے لئے مجبور کرتے ہیں ، طلباءبھی یہ سوچ کر امتحان کی کامیابی ناگزیرہے ، خواہی نہ خواہی اپنے ایسے اساتذہ کے یہاں ہی ٹیوشن بڑے مزے سے کرتے ہیں ۔ یہ برائی بدقسمتی سے رفتہ رفتہ اسلامی مدارس میں بھی درآئی ہے کہ اساتذہ اصل تعلیمی اوقات میں صحیح تعلیم نہ دے کر طلباءکو ٹیوشن پر مجبور کرنے لگے ہیں ۔

ملک کے تعلیم دوست افراد اعلٰی تعلیمی اداروں کے قیام اور اعلی ٹیکنکل تعلیم کے فروغ پر انتہائی فکرمند ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انتہائی کم قیمت پر لیپ ٹاپ تک کی فراہمی کے دلنواز وعدے کررہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ابتدائی تعلیمی مرحلے سے ہی اگر تعلیم مافیا اورتعلیم دشمن انتظامیہ تعلیمی نظام کو مضمحل کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جائے تو انتہائی کم قیمت لیپ ٹاپ سے ”تعلیم یافتہ“نوجوان کس حد تک فائدہ اٹھا پائیں گے ؟جب ان کی بنیادی تعلیم کمزور ہوگی توکیسے اعلی تعلیمی مراکز سے خاطر خواہ استفادہ کرسکیں گے ؟یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم اداروں کی بہت کمی نہیںہے ، بلکہ تعلیمی نظام میں شفافیت پیداکرنے کی اشدضرورت ہے ، تعلیمی نظام کو مافیاگیری، ناانصافی ، بدنظمی ،فرقہ پرستی بلکہ مادیت پسندی کی بیڑیوں سے آزاد کر اخلاق ومروت کے حوالہ کرنا حالا ت کی متقاضی ہے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92557 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More