ہر آنکھ اشک بارہے، ہر دل سوگوار ہے

گزشتہ دنوں بھوجا ائیر لائن کے دل خراش فضائی حادثہ میں جہاں دیگر لوگوں کو اپنے پیاروں کی جدائی کا صدمہ سہنا پرا، وہیں ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاﺅن کراچی کو ایک عظیم مربی، مدرس ، استاد الحدیث اور انتظامی معاملات میں بے مثال ایک قیمتی گوہر سے محروم ہونا پڑا۔ یہ گوہر ”عطاءالرحمن“ کے نام سے اسم بامسمیٰ تھا۔ ہاں یقینا !وہ اس عظیم جامعہ کے لیے رب کی عطا تھے، اور وہ اس جامعہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، حضرت شہیدؒ نے اپنے دس سالہ نظامت تعلیم کے دوران جامعہ اور اس کی شاخوں کی تعلیمی معیار کو انتہائی بلندی تک پہنچا دیا تھا۔

حضرت شہید ؒ سے جامعہ کے اساتذہ وطلبہ کو انتہائی عقیدت ومحبت تھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت کی شہادت کی خبر سن کر کتنے ہی اساتذہ وطلبہ دھاڑیں مار کرروتے رہے اور جامعہ کے دارالحدیث میں موجود غم زدہ اساتذہ کی حالت دیکھ کر سخت دل انسان کا دل بھی پسیج ہوکر رہ جاتا اور آنکھ اشکبار اوردل مغموم ہوجاتا ، تادم تحریر بھی کتنی ہی آنکھیں حضرت شہیدؒ کی یاد میں پرنم ہیں۔ بقول کسے
”ہر آنکھ اشک بار ہے، ہر دل سوگوار ہے میرا شیخ عطا ءکہاں ہے، میرا شیخ عطاءکہاں ہے۔

حضرت شہیدؒ نے 1960ءمیں مردان کے ایک گاﺅں بابوزئی میں سکول کے ہیڈ پرنسپل مشفق الرحمن کے گھر آنکھ کھولی، اگرچہ آپؒ کے والد محترم خود تو عالم دین نہ تھے لیکن آپ ؒ کے دادا ہندوستان کے پڑھے ہوئے ایک جید عالم دین تھے۔ اسی وجہ سے گاﺅں میں آپؒ کا گھرانہ مذہبی مشہور ،اور ”مولوی صاحب کا خاندان“ سے یاد کیا جاتاہے ۔ سِن شعور کو پہنچتے ہی شفیق والد نے سکول میں داخل کروایا اور اپنے ہی زیر سایہ میٹرک تک عصری علوم کی تعلیم دی، اس کے بعد مذہبی ذہنیت کے حامل والد محترم نے آپ ؒ کو دینی علوم کے لیے وقف کردیا۔ آپ نے دینی علوم کی ابتدائی کتب سرحد(خیبرپختونخواہ) میں پڑھیں، اس کے بعد اعلٰی دینی تعلیم کے حصول کے لیے”مدارس کاشہر کراچی“ کی طرف رخت سفر باندھا اور جامعہ بنوری ٹاﺅن میں درجہ ثالثہ میں داخلہ لیا اور اسی جامعہ سے سند فراغت اور تخصص فی الفقہ کرنے کے بعد یہیں سے ہی اپنے استاذوں کے زیر سایہ تدریس کا آغاز کیا۔ اور پھر تادم شہادت اسی جامعہ سے وفاداری نبھاتے رہے، اور پھر اچانک اس پھیلتے پھولتے گلشن کو اپنی جدائی کا بوجھل صدمہ دے کرکوچہ آخرت کو روانہ ہوگئے۔
کلیوں کو میں خون جگر دے کے چلاہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضاءیاد کرے گی

حضرت شہیدؒ بچپن سے ہی انتہائی ذہین و فطین ،محنتی ، شریف الطبع اور خوش طبعیت تھے۔

جامعہ بنوریؒ ٹاﺅن کے استاذ ، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا رزین شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ : ”میں نے اور حضرت شہیدؒ نے جامعہ میں ایک ساتھ داخلہ لیا تھا ، آپ اسباق میں انتہائی محنت فرماتے اور اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کرتے تھے، اور اللہ نے آپ کو حسن صوت کے ساتھ عبارت خوانی کا بھی خاص انداز عطا فرمایا تھا، دورہ حدیث شریف والے سال استاذ العلماءمفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ خصوصی طور پر حضرت شہید کو عبارت پڑھنے کا فرماتے تھے“ اور پھر یہی انداز بلکہ اس سے مزید بڑ ھ کر اللہ رب العزت نے آپ ؒ کی تدریس میں نکھار عطا فرمایا تھا۔ جامعہ کے طلبہ جانتے ہیں کہ حضرت شہیدؒ کے درس میں وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا تھا، آپ برموقع عربی ، اردو اور پشتو اشعار ، محاورات اور علمی وادبی چٹکلے کا استعمال فرماتے تھے ۔ اور ساتھ ساتھ فرقِ باطلہ کا بھی انتہائی مدلل انداز میں رد فرماتے تھے۔

آپ کی تدریس میں مہارت اہل علم کے ہاں مسلم تھی اسی وجہ سے آپ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصابی کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔ اور آپ اصول وضوابط کے انتہائی پابند تھے، اصول کی خلاف ورزی پر اگرچہ وہ آپ ؒ کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو، نرمی کا معاملہ نہ بر تتے تھے۔

حضرت شہیدؒ کے جہاں اندرون ملک ہزاروں شاگرد ہیں وہیں بیرون ممالک میں بھی آپ کے ہزاروں شاگرد ہیں جن کی دعوت پر آپؒ نے کئی ممالک کا دورہ فرماکر وہاں کے دینی پروگرامات میں شرکت اور کئی مدارس ومساجد کا افتتاح فرمایا تھا۔

حضرت شہیدؒ کے مزاج میں تصنع ، تکلف اور ریانام کی کوئی چیز نہ تھی اتنے بڑے جامعہ کے ناظم تعلیمات ہونے کے باوجود کار، موٹر سائیکل نامی کسی سواری کے بھی مالک نہ ہوئے۔ اور ساری زندگی درویشانہ گزاری۔

حضرت شہیدؒ کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ” گاﺅں کے عام لوگوں کو حضرتؒ کے اتنے بڑے مقام کا علم نہ تھا، اگرچہ آپؒ سال میں ایک ،دو بار گاﺅں بھی تشریف لاتے تھے مگر عام پبلک ٹرانسپورٹ یا کسی جاننے والے دوست کی گاڑی میں تشریف لاتے، لیکن آپ کے جنازے میں اتنی بڑی خلقت اور جید علمائے کرام کی شرکت کو دیکھا تو سر پکڑ کر رہ گئے کہ یہ تو بہت بڑے عالم تھے!!“

ایک اور واقعہ جس سے بھی حضرت شہیدؒ کی درویش صفت مزاج کا پتہ چلتاہے، جو جامعہ کے استاذ الحد یث ،شیخ التفسیر مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب نے سنایا ” ایک سال جب میں حج پر گیا جب کہ میں حضرت مفتی زرولی خان صاحب مہتمم جامعہ احسن العلوم کراچی کے گروپ میں شامل تھا، اور ہماری رہائش وغیرہ کا بھی انتظام پہلے ہی سے ہوچکا تھا۔ اچانک مولانا شہیدؒ سے ملاقات ہوگئی۔ جب میں نے ان سے رہائش کے متعلق پوچھا تو جواب ندارد میں تھا۔ پھر میں نے حضرت نے شہیدؒ کو اپنے قیام گاہ میں ٹھہرنے کی دعوت دی جسے آپؒ نے قبول فرمایا اور چار، پانچ دن ہمارے ساتھ گزارے“سبحان اللہ ! کیا عجیب درویشانہ مزاج تھا!!

حضرت شہیدؒ جامعہ بنوریؒ ٹاﺅن سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ، جامع مسجد صالح صدر میں امامت وخطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے ۔ آپ ؒنے 20اپریل کو اسی مسجد اپنی زندگی کا آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، پورے خطبہ میں آپؒ نے عوام الناس اور نئی نوجوان نسل کو موت کی تیاری اور توبہ کی تلقین کی اسی خطبہ کا اقتباس ملاحظہ ہو ” نوجوانو! توبہ کرو موت کا کوئی پتہ نہیں ، دنیا میں آنے کی ترتیب ہے کہ پہلے باپ آتاہے پھر بیٹا، لیکن جانے کی کوئی ترتیب نہیں“۔

پھر آپ اسی دن 5بجے بھوجا ائیر لائن میں اپنی نیک سیرت ہمیشرہ کے ساتھ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے کسے معلوم تھا کہ آج علم وعمل کا بحر بیکراں، سراپا عجز وتقویٰ درحقیقت آخرت کا راہی ہورہاہے۔

وہ سرتاج دیوبند ، منبع علم وعرفان چھپ گیا حکمتوں کا بحر بیکراں ، آج پھر سے غزالی زماں چھپ گیا
تاریخ نے خود وکو دھرایا دوبارہ
ثانی احمد الرحماں چھپ گیا

حضرت شہید ؒ کے نماز جنازہ کی امامت اسلام آباد میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب اور آپ کی آبائی گاﺅں میں جہاں آپ کا ابھی مدفن بھی ہے ، شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے کی دونوں میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کرکے حضرت سے عقیدت کا ثبوت دیا ۔ شنید ہے کہ تاحال اندرون وبیرون ممالک سے تعزیت کے لیے آنے والے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

حضرت شہیدؒ کے شہادت کے بعد استاذ العلماءحضرت مولانا انور بدخشانی صاحب نے دورہ حدیث کے طلبہ کے سامنے حضرت شہیدؒ سے وابستہ یادوں کے دریچے وا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :۔
ماہر چہ خواندم ایم
فراموش کردہ ایم
الا حدیث عطا ءکہ
تکرار می کنم

استاذ محترم مولانا رزین شاہ صاحب نے اپنے محبوب دوست اور رفیق سفر کے وصال میں کچھ اس انداز میں درد دل تحریر فرمایا:
یاد کرتے ہیں سدا احباب مے خانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
تم اچانک کس سفر پر ہم سے رخصت ہوگئے
منتظر ہیں، سوچتے ہیں یہاں آنا تجھے
وہ تبسم ، وہ علم کی جاشنی محبوبیت ،
دے دئیے تھے رب نے کیا اوصاف جانا نہ تجھے
زینت محفل لکھوں ، یا زینت اہل چمن
یالکھوں بلبل تجھے، یادین کا پروانہ تجھے
جامعہ، شاخیں سب تری فرقت میں ہیں سوگوار،
پیش کرتے سبھی اشکوں کا نذرانہ تجھے
صاحب اخلاق تھا، علم وادب کا شہسوار
رب اکرم نے دئیے خلق کریمانہ تجھے
دیں تسلی کیسے دل کو تری فرقت میں رزیں !
کیسے بھولے اے عطاءیہ قلب دیوانہ تجھے

حضرت شہیدؒ کے ساتھ ایک اور نوجوان عالم دین مولاناپیر عثمان رشید جو ہمارے مخدوم ومکرم مولانا عبدالمجید ہزاروی مہتمم جامعہ فرقانیہ روالپنڈی کے بھتیجے تھے اور گزشتہ سال جامعہ بنوریہ سائٹ سے درس نظامی سے فراغت حاصل کی تھی ، ان نوجوان عالم دین کے متعلق معلوم ہوا کہ انتہائی ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے، اور روحانی علاج خاص طور پر سرطان کے علاج میں یدطولیٰ حاصل تھا اور اکثر مریضوں کے علاج کے لیے کراچی آنا جانا رہتاتھا۔ اس مرتبہ کراچی آنے کے بعد واپسی پر اسی بدقسمت طیارہ میں حادثہ کا شکار ہوگئے۔

اسی بدقسمت طیارہ کے ایک اور مسافر، انتہائی مشفق ومحترم حضر ت مولانا یوسف کاشمیری ؒ کے بڑے بھائی محترم یونس کاشمیریؒ تھے، جو براستہ اسلام آباد اپنے آبائی علاقہ کشمیر کے لیے عازم سفر تھے، مگر تقدیر الہی آڑے آگئی اور سفر آخرت کو روانہ ہوگئے۔

اللہ رب العزت اس فضائی حادثہ میں شہید ہونے والے سب مسلمانوں کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ، اور سب کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین
Muhammad ASad Ullah Ghalib
About the Author: Muhammad ASad Ullah Ghalib Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.