شاہ صاحب گاﺅں کی چھوٹی سی مسجد
میں بیٹھے نمازیوں سے مخاطب تھے اور بڑی سادگی سے حاضرین کے سوالات کے جواب
دے رہے تھے کہ ایک نوجوان نے عجیب وغریب سوال کردیا، جس سے حاضرین پر سکتہ
طاری ہوگیا۔ نوجوان نے پوچھا کہ ”شاہ جی اس بات کی کیا دلیل ہے کہ آپ سید
ہیں“۔ حاضرین حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے کہ بوڑھے شاہ صاحب کو
نوجوان نے شرمندہ کردیا ہے اور شاید شاہ صاحب کے پاس اسکا جواب بھی نہیں
ہوگا۔ اس سے پہلے کہ پریشانی بڑھ جاتی شاہ صاحب نے نوجوان کو اپنے قریب
بلایا، دلاسہ دیا، شکریہ ادا کیا اور پھر بولے: ”دیکھو! ہم یہاں کئی پشتوں
سے آباد ہیں، لوگ ہمیں سید مانتے ہیں، دینی اور شرعی مسائل پوچھتے ہیں، عزت
واحترام سے پیش آتے ہیں مگر آج تک ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ کوئی ہم سے
ہمارے سادات ہونے کی دلیل مانگے“: پھر کہنے لگے کہ ”دینی مسائل ہم سے بہتر
بیان کرنیوالے عالم دین، مفتی اور مفکر ہر روز ریڈیو اور ٹیلیویژن پر آتے
ہیں اور اُن میں کچھ سید بھی کہلواتے ہیں مگر کبھی کسی سننے اور دیکھنے
والے نے یہ سوال نہیں اُٹھایا، حالانکہ یہ سوال بنیادی اور ضروری ہے“۔ شاہ
صاحب نے فرمایا کہ یہ سوال حضورﷺ سے ان کے اصحاب نے بھی پوچھا کہ ”یا رسول
اللہ ﷺ آپ کی اولاد کی پہچان کیا ہوگی؟۔ آپﷺ کی اولاد سے مراد اہلِ بیتﷺ
تھے جن کی نسل حضرت امام حسنؓ و حسینؓ سے چلی۔ آپﷺ نے فرمایا ”میری نسل کی
چار نشانیاں ہونگی، اول صاحب علم وبصیرت ہونگے، دوئم سخی وبُردبار ہونگے،
سوئم خوش شکل وخوش گفتار ہونگے اور آخر میں فرمایا رحم کرنیوالے اور درگزر
کرنیوالے ہونگے۔
شاہ صاحب نے ان چار نشانیوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ حضورﷺ کا ارشاد
ہے کہ ”میں علم کا گھر ہوں اور حضرت علیؓ اسکا دروازہ ہے“۔ یہ علم ظاہری
بھی تھا اور باطنی بھی۔ آپؓ کے ظاہری علم کی میں چند مثالیں آپ لوگوں کی
سہولت کیلئے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ میری باتیں آسانی سے سمجھ
سکیں۔ حضرت علیؓ سے بڑھ کر آج تک کوئی ماہر فلکیات اس دنیا پر پیدا نہیں
ہوا۔ آپؓ نے ستاروں، سیاروں اور کہکشاﺅں کے متعلق جو بیان فرمایا آج کی
جدید سائنس اُس سے ایک قدم آگے نہیں جاسکی، اس طرح آپؓ نے زمین کی گردش،
موسموں کی تبدیلی اور دیگر تغیر وتبدل کے متعلق جو پیشن گوئیاں فرمائیں وہ
وقت کے ساتھ سچ ثابت ہورہی ہیں۔ تاریخ میں ہے کہ آپؓ نے ایک نوجوان لڑکی کو
دیکھا اور فرمایا کہ ”یہ لڑکی بانجھ ہے“۔ اصحاب پاکؓ نے تحقیق کی تو بات سچ
ثابت ہوئی، اس پر کچھ فتنہ پردازوں نے شور مچایا کہ آپؓ غیب کا علم جانتے
ہیں۔ آپؓ نے فوراً اُن لوگوں کو طلب کیا اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ
غیب نہیں بلکہ انسانی علم ہے“۔ یہ وہی علم ہے جسے آج ہم بائیالوجیکل سائنس
کہتے ہیں۔ آج جتنے ظاہری سائنسی علوم اس کائنات میں موجود ہیں انکی تشریح
حضرت علیؓ نے ظاہری قرآنی علوم سے کی۔ کسی نے پوچھا ”اے علی کرم اللہ وجہہؓ
آپ نے یہ علم کس سے اور کیسے سیکھا“۔ آپؓ نے فرمایا کہ ”اونٹھنی کا بچہ ماں
کے قدموں کے نشانات پر قدم رکھ کر چلتا ہے، میرا تعلق حضور اکرمﷺ سے بھی
ایسے ہی تھا جو حضورﷺ نے کہا میں نے سیکھ لیا“۔ حضرت علیؓ ظاہری وباطنی
علوم کا چشمہ تھے، آپؓ کی اولاد کی مثال بھی ایسے ہی ہے کہ جو کہ اس چشمے
سے نکلنے والی ندیاں، نہریں اور دریا۔ ندیاں وہ ہیں جنکا تعلق تو خانوادہ
رسولﷺ سے ہے مگر زیادہ محنت نہ کی۔ نہریں اور دریا وہ ہیں جو راہ حق کے
متلاشی ہوئے اور اپنے حسب ونسب پر قائم تزکیہ و مجاہدہ سے اعلیٰ ترین
روحانی منصب پر فائز ہوئے، حسب و نسب کا خیال ہر انسان کی فطرت میں ہے،
حضرت میاں محمد بخش فرماتے ہیں کہ
”کمی تے کنگال کمینے اے گل کہنہ نہ بھاوے،دیہیی چوڑے دی سید منگے تے او
دیندا شرماوے“۔
شاہ صاحب نے فرمایا کہ ”حسب ونسب کے خیال واحترام کے ضمن میں اس سے بہتر
مثال میرے علم میں نہیں۔ اگر کمی اور نیچ پیشے سے منسلک شخص کو اپنی ذات،
نسل اور نسب سے اتنا لگاﺅ ہے کہ وہ اپنی بیٹی سید کو دینے پر شرمندہ ہوتا
ہے تو سید یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ اسکی اولاد رقص وموسیقی کے پیشے
اختیار کرے اور پھر اپنے نام کے ساتھ سید بھی لکھے۔ کوئی شخص ولی، پیر اور
مخدوم بھی بنا پھرے اور جھوٹ، فریب، ریاکاری، بدعہدی اور بداخلاقی کا بھی
مرتکب ہو، شاہ صاحب نے کچھ سوچا اور پھر بولے:۔ سنو میرے بھائیو! اور اہل
بیت کی تاریخ پڑھو، خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ کے در پر سوالی آتا ہے اور ہاتھ
پھیلاتا ہے مگر گھر میں کچھ بھی نہیں، حسینؓ اور شیر خداؓ فاقے سے ہیں مگر
سیدہؓ نے سوالی کو خالی ہاتھ نہ جانے دیا اور اپنی چادر دیکر کہا کہ فلاں
یہودی کی دکان سے یہ چادر خریدی تھی اسے واپس کرکے اپنے لئے کچھ رقم لے لو۔
یہودی نے سوالی کو رقم تو دیدی مگر چادر نہ خریدی اور کہا کہ یہ چادر سیدہؓ
کو واپس کردو۔ سوالی واپس آیا تو خاتون جنتؓ نے فرمایا کہ ”جاﺅ اور چادر
یہودی کو دیدو اور کہو کہ نبیﷺ کے گھر سے کوئی سوالی خالی ہاتھ نہیں جاتا
اور نہ ہی ہم دی ہوئی چیز واپس لیتے ہیں۔ اس واقعہ نے یہودی کے دل پر اثر
کیا اور وہ مسلمان ہوکر اصحاب رسولﷺ میں شامل ہوگیا۔
دوستو! غور کرو اور سوچو کہ سیدہؓ جیسی سخی، بُردبار، رحمدل اور اعلیٰ
کردار ماں کی اولاد کیسی ہوگی، وہ لوگ جو دن رات لوٹ مار کرتے ہیں، سیاست
کو کاروبار سمجھ کر عوام الناس کی جیبیں خالی کرتے ہیں، جن کے سوٹ اور بوٹ
فرانس سے سِل کر آتے ہیں وہ اہل بیت کیسے ہوسکتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی نم
آنکھیں صاف کیں اور اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بولے:۔ حسنؓ اور حسینؓ کا
مطلب ہی حسن وجمال کا پیکر ہے۔ یہ نام حضور پرنورﷺ نے خود رکھا تو آپﷺ کی
اولاد اس وصف سے مبرا کیسے ہوسکتی ہے۔ دوستو تاریخ گواہ ہے کہ غزوات میں سب
سے زیادہ کفار حضرت علیؓ کی تلوار کی زد میں آئے اور واصل جہنم ہوئے۔ کفر
واسلام کے درمیان ہونیوالے ان معرکوں میں صرف دو آدمی علیؓ سے بچ گئے اور
آپؓ نے اُنہیں چھوڑ دیا۔ ایک وہ شخص جس نے خوف کی وجہ سے آپؓ پر تُھوک دیا
اور دوسرا جس نے تلوار پھینک دی اور اپنا کُرتہ اُتار کر بھاگ پڑا۔ حضرت
علیؓ سے اصحاب رسولﷺ نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ پہلا موت سے خوفزدہ ہوا اور
مجھ پر تھوک دیا، اگر میں اُسے مار دیتا تو یہ ذاتی انتقام ہوتا جبکہ میری
تلوار صرف اسلام کی سربلندی کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ دوسرا بُزدل تھا اور
ہتھیار پھینک چکا تھا اسلئے ایک نہتے اور ہارے ہوئے شخص پر وار کرنا بھی
درست نہیں۔
دوستو آج یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جو لوگ سادات ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،
اپنے ناموں کے ساتھ سید، گیلانی، ہاشمی، قریشی اور پتہ نہیں کیا کیا لکھتے
ہیں، اُنکی ذاتی زندگیوں میں خانوادہ رسولﷺ کا ایک بھی وصف نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ یزید نے حضرت امام حسینؓ کے اخراجات کیلئے لاکھوں دینار
وظیفہ مقرر کیا جو موجودہ دور میں کروڑوں کے حساب سے تھا مگر آپؓ نے یزید
کا وظیفہ مسترد کردیا اور اس بات کی تحقیق پر چل نکلے کہ یزید کے متعلق جو
خبریں دمشق سے آرہی ہیں کیا وہ واقعی درست ہیں یا نہیں۔ آپؓ نے ایک فاسق
وفاجر حکمران کا وظیفہ خور بننے پر اکتفا نہ کیا اور میدان کربلا میں اسلام
کی سربلندی اور اپنے نانا کی شریعت مطہرہ کی عظمت پر اپنی جان قربان کردی۔
دوستو! آج میں ٹیلیویژن پر اور اخبارات میں اُن لوگوں کی کرپشن، لوٹ گھسوٹ
اور بدعہدی کی خبریں سنتا اور پڑھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے کہ انہیں ذرہ بھر
شرم بھی نہیں آتی کہ وہ اپنا تعلق تو اہل بیت سے جوڑتے ہیں اور عمل یزید سے
بھی بدتر کرتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ اہل بیت کبھی اقتدار کے
پیچھے نہیں بھاگے اور نہ ہی اہل اقتدار کے غلط رویوں کی تائید کی ہے۔ اہل
بیت کبھی دربان اور درباری نہیں بنے۔ فقر اہل بیت کا فخر رہا ہے اور اسی
فخر کی عظمت کا علم بلند کرنے کی خاطر آل رسولﷺ نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج اہل بیت سے تعلق کا دعویٰ کرنیوالے اقتدار پر فخر
کرتے ہیں اور مادی لالچ اور حرص پر قربان ہوئے جارہے ہیں۔
آپ نے تاریخ میں پڑھا ہوگا کہ حضرت امام رضاؓ خلیفہ ہارون الرشید کے داماد
تھے، آپؓ نے ہارون الرشید کے شاہی محلوں اور آسائشوں کو ترک کیا اور صحرا
نشینی اختیار کی۔ آج نہ ہارون الرشید کے محل ہیں نہ باغات اور اقتدار مگر
حضرت عالی مقام امام رضاؓ کا روحانی اقتدار پوری شان وشوکت سے قائم دوائم
ہے۔
حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے اُسوقت تک اپنے نام کے ساتھ گیلانی نہ لکھا جب تک
اس بات کی تحقیق نہ کرلی کہ آپؒ کا سلسلہ نسب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے
ملتا ہے۔ آپؒ کی تحقیق وجستجو دیکھئے شیخ پیران پیر کے خانوادے سے تعلق
رکھنے والے سادات نے بغداد سے اپنا ایلچی گولڑہ شریف بھجوایا اور اس بات کی
تصدیق کی کہ گولڑہ شریف اور حسن ابدال کے سادات کا تعلق شاہ گیلانیؒ سے ہے۔
حسن ابدال کے سادات حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے ننھیال اور سسرال تھے اور
دونوں گھرانے حسنیؓ وحسینیؓ ہیں۔
حضرت پیر مہر علی شاہؒ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے والے مجاہد اسلام تھے،
آپؒ نے سکھوں، انگریزوِں، قادیانیوں اور مقامی بااثر لوگوں سے علمی اور
عقلی محاذ پر جہاد کیا اور فتح یاب ہوئے، سکھ آپ کے اجداد سے ٹکرائے تو
اقتدار سے محروم ہوگئے، انگریزوں نے مقامی لوگوں اور قادیانیوں کی ایماءپر
آپؒ سے ٹکر لی تھی، آپؒ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انگریز نے آپ کے خاندان کو
طرح طرح کے مادی لالچ دیئے مگر آپ نے سنت حسینؓ پر عمل کرتے ہوئے اقتدار
اور اہل اقتدار کو اپنے پاﺅں کے ٹھوکر پر رکھا۔ آپؒ کے کسی مرید نے جو
سرکاری عہدے پر فائز تھا آپ کو اطلاع دی کہ انگریز حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے
کہ آپ کو خاندان سمیت جلاوطن کردیا جائے، جناب مہر علی شاہؒ صاحب مسکرائے
اور فرمایا: ”انگریز خود جانیوالے ہیں، ہمیں کیا جلاوطن کریں گے“۔ کچھ ہی
عرصہ بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انگریز کا اقتدار ختم ہوگیا۔ آپؒ حج پر
تشریف لے گئے تو کسی مجبوری کے تحت عشاءکی سنتیں ترک کردیں۔ اُسی رات حضورﷺ
خواب میں آئے اور فرمایا: ”خانوادہ رسولﷺ کیلئے ترک سنت منع ہے“۔ آپ فوراً
اُٹھے اور سنتیں ادا کیں۔
دوستو! سید ترک سنت کرے تو اس پر پکڑ ہوتی ہے چہ جائیکہ سید کہلوانے والے
انگریزوں سے جاگیریں لیتے پھریں اور پھر فخر سے انگریزی اقتدار میں شمولیت
کا بیان کریں، سیدوں کیلئے بلدیہ کی چیئرمینیاں اور انگریز کی عطاءکردہ
آسائشیں حاصل کرنا ثابت کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کا خانوادہ رسولﷺ سے کوئی
تعلق نہیں، اگر کہیں تھا تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اپنے مرتبے اور مقام
سے گر چکے ہیں۔
اُس دن آکڑ تے مغروری نِکل جاسی سب تیری
جدوں کہیا محمدسرورﷺ اے نئیں اُمت میری
آخر میں شاہ صاحب نے حضرت میاں محمد بخش کا یہ شعر پڑھا:
خاصیاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کُتیاں اگے دھرتی |