یہ قانون اور قوم

پاکستان دُنیا کا واحد ملک نہیں جہاں لاقانونیت،چوری،قتل،دہشت گردی اور دیگر جرائم کا پودا جنم لئے ہوئے ہے،بلکہ دُنیا کہ تقریباً تمام ممالک کو ان مشکلات کا سامنا ہے۔یورپی ممالک میں بھی چوری،قتل،لاقانونیت اور دیگر جرائم ہوتے ہیں مگراُن ممالک میں ایسے واقعات بہت کم رونما ہوتے ہیں۔اُن ممالک کی نسبت پاکستان میں جرائم کی شرح بہر حال بہت زیادہ ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس میں جرائم کی شرح کو بڑھانے والے حقیقت میں جرائم کو روکنے کے ذمہ دار ہیں۔یعنی پاکستان پولیس!جس کا کام جرائم کو روکنا اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کی گرفت کرنا ہے۔مگر اکثرواقعات میں پاکستانی پولیس ہی ماسٹر مائنڈ نظر آتی ہے۔گلی محلوں میں جنم لینے والے جرائم اور مجرم آہستہ آہستہ جرم کی بلندیوں کو چھوتے چلے جاتے ہیں اور ایک دن وہ مجرم دہشت گرد کہلانے لگتے ہیں۔جن کی گرفت سے بھی پولیس ڈرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سزا یافتہ مجرموں میں سے پولیس سب سے زیادہ قتل کے مجرموں سے ڈرتی ہے۔اس کی وجہ مجھے یوں معلوم ہوئی کہ ایک مشہور شہر کی جیل میں قیدیوں کی زندگی کے بارہ میں رپورٹ تیار کرنے کی غرض سے جانا پڑا۔عام مجرموں کے ساتھ پولیس کا رویہ دیکھ کرذہن میں دوزخ کے خیالات آنے لگے،جیسا کہ بچپن سے دوزخ میں مشرک انسان کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے بارہ میں سُنتے آرہے ہیں۔مگر جیل میں چند مجرموں کو دیکھ کریہ محسوس ہوا کہ وہ دوزخ نہیں بلکہ پاکستانی جیل ہی ہے۔کیونکہ جن مجرموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا وہ قتل کے کیس میں سزا کاٹ رہے مجرم تھے اور پولیس اہلکار اُن سے جس وجہ سے ڈرتے ہیں وہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ”قاتل ایک بار قتل کرے یا سو بار،پھانسی اُسے ایک بار ہی ملتی ہے“۔یعنی پولیس اہلکار اس بات سے ڈرتے ہیں کہ قاتل یا اُس کا کوئی ساتھی جو جیل سے باہر ہووہ پولیس اہلکار کے رویے کی وجہ سےاُسکو کو اپنا نشانہ نہ بنا لے اس لئے پولیس والے اُن کے ساتھ ڈاکٹر باپ اور بیمار بیٹے والا سلوک کرتے ہیں۔خیر پاکستان کو ایک پولیس اسٹیٹ کہنا غلط نہیں،کیونکہ پاکستان میں ایک نوجوان کوپولیس کی وردی پہناتے وقت یہ اختیار دے دیا جاتا ہے کہ جاﺅ سفید و سیاہ کے مالک تم ہی ہو۔پولیس والے جِسے دل چاہئے اُٹھائیں،جسے مرضی لوٹیں،جسے مرضی ماریں،جسے مرضی اپنے تشدد کا نشانہ بنائیںاُنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔جیسے سانپ کی نسلوں میں سب سے زیادہ خطرناک کالے ناگ کو سمجھا جاتا ہے ویسے ہی پولیس میں سب سے زیادہ خطر ناک تفتیشی افسر کو سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ پاکستانی پولیس کے بارہ میں ہاتھی کو ہرن بنانے والے لطیفہ کے ذمہ دار بھی تفتیشی ہی ہیں۔یہ افسران وہ مہارت رکھتے ہیں جو گوانتاناموبے والے بھی نہیں رکھتے،یعنی وہ اصل مجرموں کے منہ سے بھی یہ نہیں اگلوا سکتے کہ وہی مجرم ہیں اور یہ پاکستانی پولیس اہلکار ایک عام آدمی سے بھی کئی جرم قبول کروا لیتے ہیں اور اگر اس قبول کروانے کے عمل کے دوران وہ عام آدمی اللہ کو پیارا ہو جائے تو اُسی پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے یعنی یہ مردوں کو بھی نہیں بخشتے!!!

پاکستانی قوم کے بارہ میں بات کریں تو افسوس صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود اس قوم میں اتحاد نہیں۔پنجابی کی مثال”جِنے لایا گلی،اودھے نال ٹُر چلی“اس قوم پر خوب بیٹھتی ہے۔کُچھ آباﺅ اجداد نے پیروں فقیروں کو اپنی نسلیں فروخت کر دیں یعنی گدی نشین کوئی شیطان بھی ہو تو ووٹ اُسی کو دینا ہے اوردوسری طرف سیاستدانوں نے اس قوم کو اپنا غلام بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس قوم نے خود کو سُدھانے کی کوشش ہی نہیں کی اور اگر کوئی قوم خود ٹھیک نہ ہونا چاہے تو سیاستدانوں کےلئے اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے۔یہ قوم خود ٹھیک نہیں ہونا چاہتی،اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ماہ ہونے والے ٹریفک چالان اور ٹریفک قانون توڑنے کے جرائم کا اندازہ لگا لیں تو اس بات کی تسلی ہو جاتی ہے کہ ہر شخص قانون جان بوجھ کر توڑتا ہے جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ ٹریفک کے بنیادی قوانین کیا ہیں۔
Inam Ul Haq
About the Author: Inam Ul Haq Read More Articles by Inam Ul Haq: 38 Articles with 44161 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.