”مدر ڈے“پراس بار پاکستان میں
بھی خاصا جوش و خروش دیکھنے میں آیا ، جس کی بڑی وجہ میڈیا کی بھرپور کوریج
ملنا تھا، ملک بھر میں تقریبات منعقد ہوئی جن میں ماﺅں کو خراج تحسین پیش
کرنے کے ساتھ ساتھ ماں کی عظمت و قربانیوں کو بھی سراہا اور عظیم ماﺅں کی
کاوشوں کا تذکرہ کرکے تقلید کی دعوت دی گئی مگر ایک کمی جو محسوس کی گئی وہ
یہ تھی کہ سیکولر،لبرل، کمیونزم و دیگر طرز معاشرہ کے بارے میں تو بڑھ چڑھ
کر بیان بازی نظر سے گزری اور خطابات سننے میں آئے مگرمذہب اسلام کے جس نے
عورت جوماں، بہن ، بیٹی اور بیوی کے درجات کی حامل ہے کو اسکا حقیقی مقام
دیا اس پر بہت کم بات ہوئی جو یقینا قابل افسوس امر ہے کیونکہ اسلامی
تعلیمات کا تذکرہ نہ کیا جانا چاہئے کم علمی کے باعث ہو یا سیکولر سوچ کا
شاخسانہ دونوں صورتوں میں بدنصیبی کے ہی ذمرے میں آتا ہے، لہذا آج کے کالم
میں اس کمی کو پورا کرنے کا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں، قارئین!اسلامی تعلیمات
کی رو سے ماں اس دنیا کا خوبصورت ترین تحفہ ہے ، اللہ تعالیٰ ہر ماں کی
درازی عمر عطا فرمائے ، ماں دنیا کے کسی خطے کی بھی ہو ، رنگ کی گوری ہو یا
کالی، امیر ہو یا غریب، کوئی بھی زبان بولنے والی ہو ، رب کائنات کی طرف سے
انسانی رشتوں میں سب سے بڑھ کر مقام مقدس و عظمت کی حامل ہے لفط ”ماں“ ادا
کرتے ہی منہ شہد کی سی مٹھاس بھر جاتا ہے ، ماں کو رب کا دوسرا روپ بھی کہا
جاتا ہے کیونکہ جب ماں بچے کو جنم دیتی ہے اور وہ دنیا میں آنکھ کھولتا ہے
تو زمین پر سب سے پہلے قدرت الٰہی کو ماں کی شکل میں دیکھنے کا شرف حاصل
کرتا ہے اور جب اپنے دونوں معصوم ہونٹوں کو جنبش دیکر کچھ پکارنے کی کوشش
کرتا ہے تو بے اختیار منہ سے پہلا لفظ ”ماں“ ہی نکلتا ہے، ماں بچے کے سکون
و راحت کا اہتمام کرتی ہے خود رات بھر گیلے بستر پر پڑی رہتی ہے مگر اپنے
جگر گوشہ کو بستر کے خشک اور آرام دہ حصہ پر سلاتی ہے ، اولاد بڑی ہو کر
اپنی ماں کی خدمت و تکریم کرے یا نہ کرے مگر اولاد کو عمر کے کسی حصہ میں
بھی ماں دکھ و تکلیف میں ہرگز برداشت نہیں کرسکتی، ماں جب تک زندہ رہتی ہے
اولاد کیلئے بہترین حفاظت اور پناہ گاہ بنی رہتی ہے، کوئی ڈر اور خوف اولاد
کے قریب تک بھٹکنے نہیں دیتی ، ماں باخوبی جانتی ہے کہ اولاد کیلئے کی
جانیوالی ماں کی دعا اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتا اس لئے وہ ہر وہ نعمت جو
اولاد کو میسر نہیں اس کیلئے خدا کے حضور التجاءو درخواست گزار رہتی ہے،
ماں کی عظمت و تکریم اور اولاد کیلئے پیش کی جانیوالی عظیم قربانیاں کو اس
مختصر کالم میں احاطہ تحریر لانا لانا ممکن نہیں، البتہ دنیا کے ہر مہذب
معاشرے اور ادیان میں ”ماں“ کا رشتہ وہ واحد کلید ہے جسے بنیادی حیثیت کا
حامل قرار دیا گیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز ”اولاد“ کو ماں کی
بابت پکارے جانے کا اعلان فرماکر ثابت کردیا ہے کہ ماں جنم سے لیکر نامہ
اعمال کی جانچ تک پہنچان عطا کرنےوالا ایسا راستہ ہے جس کا زاد راہ دعاﺅں
اور وفاﺅں سے مزین ہے، اسلامی تعلیمات میں اولاد کی جنت ماں کے قدموں تلے
بیان کرکے ایک ایسا باب رقم کیا گیا ہے کہ اہل دانش و معرفت بھی دنگ رہ
جائیں، ایک جگہ ارشا د ہے کہ جو شخص اپنے والدین کو روزانہ پیار و محبت اور
شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اسے ایک مقبول حج کے برابر ثواب ملتا ہے،
حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے شرف گفتگو حاصل کیا کرتے تھے اور
جود و سخا ءکے مستحق تھے ایک روز شرف گفتگو سے قبل انوار و تجلیات کے ظہور
کی غیر معمولی تبدیلیاں دیکھ کر دست دعا ہوئے اور التجاءکی کہ مالک کائنات
آج کس قصور کی بابت آج یہ تبدیلیاں واقع ہوئیں تو فرمایا کہ اے موسیٰ آج
تیری دعائیں کرنے والی ماں زندہ نہیں رہی، جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے
کہ ایک شخص رسول خداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ میری خدمت اور نیک
سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے تو آپﷺ نے فرمایا ”تیری ماں“ اس نے پوچھا
پھر کون آپﷺ نے فرمایا”تیری ماں“ اس شخص نے تیسری بار پوچھا کہ پھر کون آپﷺ
نے فرمایا ”تیری ماں“اور چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ -
آج کل اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کو کوئی کام یا بیماری کی حالت میں
دوائی وغیرہ کیلئے کہتے ہیں تو بچے لاپرواہی کرتے ہوئے کہنا نہیں مانتے
بلکہ گھنٹوں فون پر دوستوں سے گپ شپ لگاتے یا کرکٹ و دیگر کھیل کود سے
فراغت پر ہی کام کی حامی بھرتے ہیں، ٹی وی پروگرامز میں مگن رہتے ہیں یا
دور جدید کی ایجاد کمپیوٹر میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ یوںلگتا ہے کہ نظام
سلطنت کا بوجھ انہیں کے کاندھوں پر ہواگر کسی کام کیلئے اٹھ گئے تو نظام
تباہی و بربادی کا شکار ہو جائے گا، حدیث نبویؑ ہے کہ عورت پر سب سے زیادہ
حق اسکے شوہر کا جبکہ مرد پر اسکی ماں کا ہے، ماں کی نافرمانی کو گناہ
کبیرہ قرار دیا گیا ہے نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ اگر میری
والدہ زندہ ہوتیں اور حالت نماز میں بھی مجھے پکارتیں ”اے محمد“تو میں نماز
توڑ کر ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتا، آپﷺ اپنی رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ
ؓ کی انتہائی عزت و تکریم فرماتے اپنی چادر ان کیلئے بچھاتے اور میری ماں
میری ماں کہہ کر ان کی طرف لپکتے، اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے بعد زمین
کو آباد کرنا چاہا تو اولاد آدم کیلئے بہتر طور پر ایک ماں ”اماں حوائ“
آباد کاری کا فرض سونپا، جسے رہتی دنیا تک بنت حواءسرانجام دیتی رہے گی،
ماں کے دل سے اولاد کیلئے ہمیشہ دعا ہی نکلتی ہے کہ اللہ پاک میری اولاد کو
دنیا کی ہر آسائش سے مستفید فرمائے، کہتے ہیں کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے
کسی عورت کا ہاتھ (یعنی کسی عورت کی تربیت کا عمل دخل ) ہوتا ہے یقینا وہ
عورت ماں ہی ہے، کیونکہ ماں جنم دینے سے لیکر پال پوس کر ، پڑھا لکھا کر
جوان کرتی ہے تو اس دوران ماں کے علاوہ کسی اور عورت کا کوئی عمل دخل قطعی
نہیں ہوتا ، ماں کارشتہ اولاد کیلئے ایسا ہے کہ ماں زندہ ہو تو رحمت و
برکتوں کے حصول کا ذریعہ اور بعد از مر گ اسکی قبر کی زیارت بھی باعث سکون
و اطمینان قلب کا موجب ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ ماں ہی وہ ہستی ہے کہ جس
نے بچے کو پیٹ میں اٹھانے کی صعوبت برداشت کی پھر پر تکلیف اور جاں گداز
مرحلہ سے گزر اسے جنم دیااور جوانی تک اسکی ہر ممکن نگہداشت کی اور ماں کی
یہ پر مشقت کاوشیں ہی ہیں کہ انسان ماں کا نعم البدل تراش نہیں سکتا یقینا
ماں جیسی انمول ہستی کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا، بیٹا ہو یا بیٹی ماں اسکی
بہترین راز دان ہوتی ہے ماں کی محبت بے غرض ہوتی ہے اور ماں سے بڑھ کر کوئی
استاد نہیں ہوتاکیونکہ ماں کی آغوش اولاد کی بنیادی درسگاہ ہوتی ہے ، ماں
کے رشتہ اور اولاد سے محبت اور اصلاح احوال کا ایک راز بیان کرتا چلوں جو
میرا ذاتی مشاہدہ ہے ایک رات ایک دوست کے گھر کے بیرونی کمرہ میں بیٹھے
خاصا وقت بیت گیا اور اندر سے پکارنے کی آواز آئی کہ رات بہت ہو چکی سو جاﺅ
، میرے استفسار پر میرے دوست نے بتایا کہ میری ماں یوں ہی فکر مند رہتی ہیں
اب ہم کوئی بچے نہیں ہیں اچھا برا خوب جا نتے ہیں ، میں اپنے دوست کے اس
جواب پر تو خاموش رہا مگر متفق نہیں کیونکہ اولاد عمر کے کسی بھی حصہ میں
ہو ماں کیلئے بچوں کی مانند ہوتی ہے -
پاکستان میں مدر ڈے منانے پر کروڑوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں، مہنگے ترین
ہوٹلز کے ہال تقریبات کیلئے بک کئے جاتے ہیں، سرکاری و غیر سرکاری این جی
اوز اور تنظیمیں بڑی بڑی قد آور فلیکسز اور بینرز آویزاں کرکے خود نمائی کی
کاوش کرتی ہیں جبکہ کھانے پینے ،تحفے تحائف بانٹنے اور ہلہ گلہ کرنے پر خوب
فضول اخراجات اٹھائے جاتے ہیں چاہئے تو یہ کہ ٹی وی اور اخبارات پر دکھلاوے
کی بجائے یہی پیسہ ان ماﺅں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں کہ جن کی نافرمان
اولاد اور بدنصیب اولاد نے انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ہے
یا قطع تعلقی کئے ہوئے ہیں، جبکہ دوسرا مصرف وہ مائیں ہیں کہ جو دوران زچگی
موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں بد نصیبی سے جسکی شرح ناقابل بیان حد تک پہنچ
چکی ہے ، پر خرچ کرکے زچگی کے عمل کو بہتر بنانے کے اسباب مہیا کئے جائیں ،
تاہم مدر ڈے کو بھی ایک فیشنی تہوار کی طرح منانے کی بجائے ماں کی حقیقی
عظمت و رفعت اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے دوسروں تک پہنچائی جائیں تو ہی مدر
ڈے منانے کے مقاصد کما حقہ حاصل ہوسکتے ہیں دنیا بھر میں ماں بننے والی
خواتین اور نوزائدہ بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر طبی سہولیات پہنچائی جاتی
ہیں لیکن پاکستان میں ماں اور شیر خوار بچوں (زچہ بچہ)کے ساتھ جس قدر غیر
اخلاقی و غیر فطرتی رویہ روا رکھا جاتا ہے اسے احاطہ تحریر میں لانے سے قلم
قاصر ہے، پاکستان میں سرکاری سطح پر زچہ بچہ کو درکار سہولیات میسر نہیں
جبکہ اچھی اور متوازن غذا بھی ماں اور نوزائیدہ بچے کی صحت اور زندگی کیلئے
بنیادی حیثیت کی حامل ہے جس کا فقدان دونوں کی صحت کیلئے شدید نقصانات کا
باعث ہے، فی زمانہ ملکی اقتدار پر قابض افراد دیگر شعبوں کی طرح زچہ بچہ کو
بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی غیر ملکی امداد پر انحصار کئے ہوئے ہیں
اور امداد ملنے پر ہی متوازن غذا و ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے
جس کے باعث امداد کی منتظر متعدد مائیں اور بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں
، تو دوسری طرف پاکستان میں جہاں غربت اور مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص ”باں
باں“ کررہا ہے وہاں ایک دن کیلئے پاکستانی لوگ فون کے ذریعے ایس ایم ایس ،
ای میل اور عید کارڈز کی طرز پر ایک دوسرے کے گھروں میں ”مدر ڈے“کے کارڈز
بھیج کر مبارکباد دیتے رہے اور یوں سارا دن لوگ ”ماں ماں “ کہہ کر اپنے
دکھوں اور پریشانیوں کو بھلانے کی کوشش کرتے رہے۔(پی ایل آئی) |