اللہ گواہ ہے دماغ ماﺅف ہے۔دل
ڈوب ڈوب جاتا ہے۔آنکھوں میں بار بار نمی آجاتی ہے۔قلم شل ہے۔خیالات منتشر
ہیں ۔الفاظ غائب ہیں۔جملے جذبات کے سیلاب میں بہتے ہوئے کہیں دور نکل گئے
ہیں ۔پورے وجود کو گھیر لینے والے حزن والم کا اظہا رکیا جائے توکیسے
کیاجائے ؟سوالات کی ایک یلغار ہے جو بار بار دماغ پر دستک دے رہی ہے۔کیا
پاکستان کاآئین اپنے شہریوں کے مال ،جان ،عزت اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت
نہیں دیتا؟ کیا کراچی حدود مملکت میں شامل نہیں ؟کیا ملک میں بسنے والوں کے
لیے کوئی قانون ،کوئی اصول اور کوئی ضابطہ نہیں ہے؟کیا انہیں کھلی اجازت دے
دی گئی ہے کہ وہ جب جہاں اور جیسے چاہیں ،شہر ،محلے اور کسی بھی شاہراہ کو
بلاک کردیں۔
یہ اس عظیم ہستی کا دردِدل ہے جو مملکت ِاسلامی کی روزبروز بگڑتی ہوئی صورت
حال پر او رآئے دن رونماہونے والے المناک حادثات پر تادم مرگ خون کے آنسو
بہاتا رہا ہے۔کونسی ایسی خوبی تھی جس کی تازگی کا احساس آپ کے دیدار سے نہ
ہوتاہو۔کونسی ایسی ہستی تھی جس کی رخصتی پر آپ نے مرثیہ نہ لکھا ہو۔کون سی
ایسی برائی تھی جس کے مٹانے کے لیے آپ نے جان کی بازی تک نہ لگائی ہو۔کون
سا ایسا ظلم تھا جس کے خلاف آوازِحق بلند نہ کی ہو۔کون سی ایسی جگہ تھی
جہاں علم ِالہی کی بہاریں نہ پہنچائیں ہوں ۔دعوت ِقرآن اور دعوت ِاسلام کے
لیے کیا کیا جتن نہیں اٹھائے ۔کیا کچھ برداشت نہیں کیا ۔کس قدر جذبہ ،ولولہ
اوردرد تھااُن کے سینے میں اِس قرآن کی دعوت کوگھر گھر تک پہنچانے کے لیے
کیا کیا خوبصورت تدبیریں کیں ۔ اس محنت کو بارآور بنانے کے لیے کون سا ایسا
حربہ ہے جس کو نہ آزمایا گیا ہو ۔
کیاجرم تھااُن کا، وہ تو خود خداکے امتحان کو زندگی بھر ہنس کر اٹھاتا
رہا،وہ بھلا کیا پنجہ آزمائی کر سکتاتھا کسی سے؟بس یہی اس کا جرم تھا،کہ وہ
بے حمیت اور غفلت کی نیند سونے والی اِس بھولی بھالی عوام کو صدائے بلالی ؓ
کی گونج سے بیدار کرتے تھے۔ وہ پیغامِ الہی اور معرفت الہی کی چمکتی دمکتی
کرنوں کو گھر گھر تک پھیلانا چاہتے تھے۔یہی جرم تھا کہ وہ نام نہاد ،بے
ضمیر اور بدکردار حکمرانوں کو ملک وملت کی آبرو کے ساتھ دو ہاتھ کرنے سے
روکتے تھے۔یہی جرم تھا کہ وہ اُٹھنے والے فتنوں کو بھانپ لیتے تھے اور پھر
ایک ماہر نباض کی طرح اس کا علاج بھی کرتے تھے ۔ وہ ارض ِپاک میں پرسکون
زندگی اور پر امن معاشرے کے قیام کے خواہاں تھے۔ وہ قتل وغارت گری کے
ہولناک گھناﺅ نے کھیل کے مخالف تھے ۔ وہ اس قوم کو اپنے آباء کی میراث
اغیار کے ہاتھوں سے واپس دلوانا چاہتے تھے۔ وہ قوم کے ہر ہر فرد کو تعلیم
یافتہ دیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ نظریہ تخلیق پاکستان کو عملا بحال کروانا
چاہتے تھے۔ وہ ملک میں اسلامی نظام کے حامی تھے ۔اگر یہی جرم ہے ،توپھر سب
سے بڑے مجرم اس قوم کے نام نہاد لیڈر ہیں جو عوام کو دن بدن روشنی کے خواب
دکھا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں ۔
افسوس !ملک میں کسی قانون کی بالا دستی نہیں ہے۔ اس ملک میںسب سے بڑا مجرم
سب سے بڑے عہدے پر براجمان ہوتا ہے اور ہے ۔ کوئی نہیں جو غریب کا پرستار
ہو،کوئی نہیں جو غم زدہ کو دلا سہ دے۔بحثیت قوم ہماری بے توقیری بے حمیتی
پر زمیں تو رہی فلک بھی اشک بہارہا ہے۔ہماری نا انصافی پر اپنے تو اپنے غیر
بھی نوحہ کناں ہیں۔جہا ں دیکھو عدل ہی لٹ رہا ہے ۔انصاف ہی جل رہا ہے۔کسی
کو ظلم نظر آتا ہے نہ ظالم ۔حکومتی اداروں سے لیکر عوامی اداروں تک ہر جگہ
نا انصافی کی انتہاہے۔اگر کہیں بدکردار لوگوں کی تشہیر کرنی ہو تو یہی
میڈیا ہفتہ پہلے تشہیری مہم اس انداز میں چلاتے ہیں جیسے آج ہی بے حیائی کے
گل کھلنے والے ہیں ۔اگر کہیں اسلا م چاہنے والوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنی
ہو تو باقاعدہ پروگرام نشر کیے جاتے ہیں اور اپنے آقاﺅں کو خوش کیا
جاتاہے۔لیکن اگر کہیں کسی مظلوم پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو اسکی فریا د
سوائے خداکے کوئی نہیں سنتا۔کسی کو اس کے خون سے لت پت نعش پر دکھ نہیں
ہوتا،اس کے معصوم بچوں اور غم زدہ لواحقین کی آہ وبکا سے کسی کے کلیجے نہیں
پھٹتے۔
اب ہمیں یہ فیصلہ کر لینا ہو گا کہ ہم کس راہ پر چلتے ہیں ۔قلم ،ضمیر
فروشوں کی صفوں کا انتخاب کرتے ہیں یا سچائی کے مشعل برداروں کے ہمنوا بن
کر تاریخ کے سنہرے متون میں اپنی جگہ بناتے ہیں ۔اگر تو تلخی ایام کا گلہ
کرتے رہنا ہے تو پھر یہ وقتی پھڑپھڑاہٹ بھی ختم کرنی چاہیئے اس سے جور وستم
کی گھٹا ٹوپ اندھیری رات میں اجالا نہیں ہونے والا۔یہ وقت ہے کہ ایک مفسر
،قلم کار ،نباضِ وقت کے خون کی خاطر یک جائی سے سفر کا آغاز کر دینا چاہیئے
۔ |