پٹھان اور کشمیری بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل

زمانہ قدیم میں ہجرت اور نقل مکانی کرنے والی مختلف اقوام پر تحقیق کرنے والے ماہرین افغانستان اور پاکستان میں بسنے والے بہت سے قبائل کا رشتہ زمانہ قبل از مسیح میں فلسطین سے نقل مکانی کرنے والے یہودی قبائل سے جوڑنے میں مصروف ہیں۔ ان قبائل میں سب سے نمایاں پشتون یا پٹھان ہیں جبکہ بعض مورخین کشمیریوں کو بھی بنی اسرائیل کی گمشدہ نسل میں شمار کرتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پشتون یا پٹھان یہودی النسل ہیں اور ان کا تعلق بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل سے ہے۔ ان قبائل کو اسرائیل کی تباہی کے بعد فاتحین نے جلاوطن کر دیا تھا جس کے بعد رفتہ رفتہ یہ لوگ پہلے ایران پھر افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے جبکہ جیوش اٹلس میں صوبہ سندھ کی قدیم بندرگاہ دیبل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بندرگاہ یہودی تاجروں کی بہت بڑی مرکز تھی۔ بنی اسرائیل کے تاجر زمانہ قدیم میں بذریعہ بحری جہاز سندھ اور بلوچستان کی بندرگاہوں پر آتے رہے اس لیئے ان دونوں صوبوں کے بیشتر شہروں اور بندرگاہوں میں یہودیوں کے تجارتی مراکز اور عبادت گاہیں قائم ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے زمانہ قدیم میں پاکستان کے بعض علاقوں میں یہودیت کے ماننے والے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے ۔ اسی طرح ماضی قریب میں جلال آباد کے قریب سے لے کر چترال تک پھیلے کافرستان میں ملتے جلتے مذاہب کے پیروکاروں کی تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج پر بھی بہت سے محققین نے کام کیا ہے لیکن چند ایک کے سوا جنہوں نے کسی حد تک اسرائیلی عنصر کا وجود ان لوگوں میں تسلیم کیا ہے کسی نے اس نظریئے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور بعض واضح اسرائیلی اثرات کو قریب کی اسلامی تہذیب کا مرہون منت قرار دیا ہے۔

اسرائیل میں بارہ قبائل آباد تھے جنہیں بنی اسرائیل کے اجتماعی نام سے پکارا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صرف دو قبائل (آج کے یہودی) توریت پر عمل کرتے تھے جبکہ باقی دس قبائل توریت کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کا حصہ تھے۔ آج کا شمالی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے نینوا کی اشوریہ قوم نے فتح کرلیا تھا جبکہ جوڈا کے نام سے موسوم جنوبی علاقہ پر صدیوں بعد بابل سے آنے والے حملہ آوروں نے قبضہ کیا۔ جب بابل کے فرماں روا بخت نصر نے یروشلم (موجودہ فلسطین )پر قبضہ کرکے اسرائیلی بادشاہت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو بنی اسرائیل کے بہت سے قبیلے بھاگ کر ایران (فارس) کے قریب غور کے پہاڑوں میں جا بسے اور پھر یہاں سے دیگر خطوں تک پھیل گئے۔ ہزاروں سال سے دنیا میں زمانہ قدیم کے گمشدہ یہودی قبائل کے بارے میں گردش کرنے والی داستانوں کے مطابق ایتھوپیا میں آباد فلاشا یہودیوں اور افغانستان، مشرقی ایران اور پاکستان کے پشتون قبائل کو ان یہودیوں کی نسل سمجھا جاتا ہے۔ پشتون افغانستان میں سب سے بڑا نسلی گروپ اور پاکستان میں دوسرا بڑا نسلی گروہ ہے۔ خود بعض افغانوں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ان کے آباﺅ اجداد کا تعلق قدیم زمانہ کے یہودیوں سے تھا جبکہ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم برملا یہ اقرار کرتے رہے کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل کے بن یامین قبیلے سے ہے۔ اس طرح پاکستان اور افغانستان کی نصف آبادی یہودی قبیلے کے بچھڑے بہن بھائیوں پر مشتمل ہے۔

عرب مسلمان حضرت اسماعیل علیہ السلام اور یہودی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں جبکہ دونوں کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک ہی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آبائی وطن عراق تھا جہاں سے وہ ہجرت کرکے فلسطین میں آباد ہو گئے۔ سفر ہجرت کے دوران آپ علیہ السلام نے حضرت سارہ اور حضرت حاجرہ سے شادیاں کیں۔ حضرت ہاجرہ سے آپ کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جنم ہوا جو نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد بھی ہیں جبکہ دوسری بیوی حضرت سارہ کے بطن سے چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل اور اُن کی والدہ حضرت ہاجرہ کو مکہ میں لا کر آباد کر دیا جبکہ خود حضرت سارہ اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق کیساتھ فلسطین میں ہی مقیم رہے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے کا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا۔ اپنے دادا اور چچا کی طرح آپ بھی اللہ کے برگزیدہ نبی ہوئے۔ حضرت یعقوب کا عبرانی لقب اسرائیل تھا لہٰذا ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ آپ علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے اس لیئے ابتداءسے ہی بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

بنی اسرائیل کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل رہا۔ اُمت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی فضیلت بھی بنی اسرائیل کو ہی حاصل رہی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی تھی۔ بنی اسرائیل میں بکثرت انبیاءو رسل آئے لیکن اس قوم نے سینکڑوں انبیاءکا نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کی نافرمانی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی یہاں تک کہ بعض کو قتل بھی کیا گیا۔ یہ قوم ایک طویل مدت کی آسائش اور حکمرانی کے بعد قطبیوں کی غلامی میں جکڑی گئی تو ان کی رہنمائی اور آزادی کے لیئے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو قطبیوں کی غلامی سے آزاد کرا کر بحر احمر کے پاس واپس فلسطین میں لے آئے۔ یہاں آپ کے بعد آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام پیغمبر اور بادشاہ ہوئے۔ اس کے بعد ایک طویل مدت تک بنی اسرائیل نے فلسطین پر حکومت کی۔ اس دوران ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی نعمتیں نازل ہوئیں جیسے من و سلویٰ وغیرہ تاہم اس قوم نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دو باپ بیٹوں حضرت داﺅد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے عزت بخشی۔ حضرت سلیمان نویں صدی ق م میں فلسطین کے مشہور فرماں روا اور پیغمبر تھے جنہوں نے یروشلم میں ایک وسیع و عریض عبادت گاہ تعمیر کی جو ہیکل سلیمانی کہلائی۔

بعد ازاں بنی اسرائیل راہ حق سے ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کے جاشین کی بھی مخالفت کی اور اسرائیل کے نام سے شمالی فلسطین میں اپنی بادشاہت قائم کرلی۔ جب بنی اسرائیل دینی، اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ میں حد سے بڑھ گئے تو حضرت ارمیا علیہ السلام کو وحی الٰہی کے ذریعے حکم ہوا کہ اپنی قوم کو بتا دیجئے اللہ تعالیٰ نے اب تک تمہارے بزرگوں کی نیکی کی وجہ سے تمہیں مہلت دی ہے لیکن تم نے میرے احکامات فراموش کر دیئے۔ اب میں تم پر ایسا حکمران مسلط کرونگا جو تم پر بالکل رحم نہیں کرے گا بلکہ تمہیں تباہ کرکے رکھ دیگا۔ جب ارمیا علیہ السلام نے اللہ کا پیغام پہنچایا تو بنی اسرائیل نے اسے جھوٹ سمجھا اور آپ علیہ السلام کو پکڑ کر قید کرلیا۔ یہی وہ وقت تھا جب بابل کے فرماں روا بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کرکے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام شروع کر دیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل دنیا بھر میں تتر بتر ہو گئے جبکہ یہود کی تاریخ میں بنی اسرائیل کی دوسری جلاوطنی اُس وقت ہوئی جب رومی بادشاہ ٹائٹس نے یروشلم پر حملہ کرکے اُن کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا۔ یہاں تک کہ بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو تاراج کرکے بنی اسرائیل کو ہمیشہ کیلئے جلاوطن کر دیا۔ دوسری بار بنی اسرائیل کی جلاوطنی کی وجوہات یہ بیان کی جاتی ہیں کہ اس قوم نے حضرت زکریا علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کے درپے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا کر بچا لیا۔ اس فساد کے نتیجے میں پھر رومی بادشاہ ٹائٹس کو ان پر مسلط کر دیا گیا۔ موجودہ فلسطین اور اسرائیل سے زمانہ قدیم میں فرار ہونے والوں میں وہ دس قبائل بھی شامل ہیں جن کی تلاش میں آج بھی یہودی سرگرداں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ قبائل فارس (ایران) کے قریب غور میں آن بسے اور پھر آبادی میں اضافے کے باعث اُن علاقوں تک بھی پھیل گئے جو اس وقت افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کہلاتے ہیں۔

تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک قریش سردار خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ اِن لوگوں کے پاس رسالت کی خبر لے کر آئے اور اس خبر کی تحقیق کے لیئے قیس نامی شخص کی قیادت میں چند سرداروں کا وفد اُن کے ساتھ مکہ روانہ ہو گیا۔ یہ قبائلی سردار بحیثیت مہمان جب مکہ پہنچے تو وہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے بعد اسلام قبول کرلیا جبکہ فتح مکہ کی مہم جوئی میں بھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔ ان سرداروں کو واپسی پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحفے تحائف بھی دیئے اور اس وفد کے امیر قیس کا اسلامی نام عبدالرشید رکھ دیا جبکہ اُسے پہطان یا بطان کا لقب بھی عطاءکیا اور پھر یہی لفظ بگڑ کر پٹھان بن گیا۔ افغانوں کی روایات کے مطابق بھی امیر قیس کا نام عبدالرشید خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا اور فرمایا کہ ان کی نسل اسلام پر اس قدر مضبوطی سے کاربند ہوگی کہ جس طرح کشتی کا بطان ہوتا ہے اور پھر یہی لقب بعد میں لسانی تغیرات کے باعث پٹھان بن گیا جبکہ لفظ پختون کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بخت نصر کے ظلم سے بھاگ کر فارس (ایران) میں پناہ لینے والے قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام بنی پخت تھا جس سے تعلق رکھنے والوں کو رفتہ رفتہ پختون کہا جانے لگا۔ اہلِ ایران انہیں افغان کہتے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب بخت نصر نے ان لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو یہ لوگ اس ظلم کے خلاف آہ فغاں کرتے رہے۔

ہندوستان والے انہیں پٹھان کہتے ہیں، پاکستانی پٹھان اور پشتون، ایرانی افغان مگر یہ خود کو پختون کہتے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت متعدد قبائل کا مجموعہ بن چکے ہیں جبکہ ان قبائل کی ہزارہا شاخوں کی متعدد ذیلی شاخیں بھی ہیں جو اشخاص یا علاقے سے منسوب کی گئی ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق پٹھان آریائی یا یونانی نسل سے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ قیس عبدالرشید کی اولاد ہیں جبکہ تیسرے نظریئے کے مطابق ان کا تعلق بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل سے ہے۔ خود کو قیس عبدالرشید کی اولاد سمجھنے والوں کا نظریہ ہے کہ مکہ میں قیام کے دوران حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی صاحبزادی اُن کے مورثِ اعلیٰ کے نکاح میں دیدی تھی جنہیں وہ ہمراہ لے کر اپنے وطن واپس آیا اور پھر انہوں نے یہاں اپنی بقیہ زندگی اسلام کی ترویج و اشاعت میں صرف کر دی۔ اس طرح قیس عبدالرشید کی اولاد پٹھان کہلاتی ہے جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود قیس عبدالرشید کا تعلق بھی بنی اسرائیل کے بادشاہ ساﺅل (حضرت طالوت) کی سینتیسویں پشت سے تھا۔ اس طرح آخری دونوں نظریات کی روشنی میں ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہی بنتا ہے اور یہ بڑی عجوبہ خیز بات ہے کہ ان میں یوسف زئی (یوسف کے بیٹے)، داﺅد خیل (داﺅد کے بیٹے)،موسیٰ خیل (موسیٰ کے بیٹے) اور سلیمان خیل (سلیمان کے بیٹے) سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ تحقیق قرین قیاس ہے اور ابھی تک کوئی بھی یہ تحقیق مکمل نہ کر سکا کہ موسیٰ خیل، داﺅد خیل، یوسف زئی، سلیمان خیل وغیرہ کا قدیم پس منظر کیا ہے۔

پٹھانوں کے بارے میں انگریزوں نے درجنوں تحقیقاتی اور تاریخی کتب تحریر کیں لیکن وہ ابھی تک بنیادی حقائق کو کھنگال نہ سکے۔ آج ایک بار پھر ماہرین پشتونوں کے یہودی النسل ہونے کے نظریہ پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ پٹھانوں اور یہودیوں کا رشتہ ثابت ہونے سے دونوں کے درمیان دوستانہ روابط کو فروغ مل سکتا ہے۔ بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کے موضوع پر ڈبل ڈاکٹریٹ کرنے والے بھارتی شہر ملیح آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان محقق ڈاکٹر نوارس آفریدی کی تحقیق بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں بسنے والے پشتون دراصل وہی گمشدہ قبائل ہیں جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی خاتون سائنس دان شہناز علی اسرائیل کے شہر حیفہ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں پشتونوں کے یہودی النسل ہونے کے نظریہ پر باقاعدہ تحقیق بھی کرتی رہیں جس کے دوران شمالی ہندوستان میں آباد آفریدی قبیلہ کے ڈی این اے نمونوں خصوصاً کروموسوم کا تجزیہ کیا گیا۔ اس بھارتی سائنسدان کے مطابق آفریدی قبائل خود یہ مانتے ہیں کہ ان کے قبیلے کا نام دراصل اسرائیلی قبیلہ افرائیم سے اخذ کیا گیا ہے جبکہ بھارت میں آباد بنائی مناشے یہودی قدیم قبیلہ بناسے کو اپنا جد امجد مانتے ہیں۔ اسی طرح مرزا قادیانی کی کتاب ”مسیح ہندوستان میں“ کے اندر بھی کشمیر اور افغانستان میں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کا ذکر موجود ہے جبکہ اسی کتاب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقبرہ کشمیر میں ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ چوں کہ بنی اسرائیل بخت النصر کے حادثہ میں متفرق ہو کر بلادِ ہند، کشمیر، تبت اور چین کی طرف چلے آئے تھے اس لیئے عیسیٰ مسیح نے ان علاقوں کی طرف ہجرت کرنا ضروری سمجھا۔ پٹھانوں کی طرح کشمیریوں کی اصلیت بارے بھی بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں ۔ کئی مورخین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کشمیری دراصل بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں اور بخت نصر کے حملے میں جب یہ لوگ منتشر ہو کر گھومتے پھرتے کشمیر پہنچے تو اس خطے کو اپنے رہنے کے لیئے سودمند پایا جبکہ مورخین کا غالب نظریہ یہ ہے کہ کشمیری دراصل یہودیوں اور آریاﺅں کی مخلوط نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

افغانوں یا پٹھانوں کے کئی اوصاف عربوں سے ملتے جلتے ہیں۔ عرب قوم مہمان نواز، بہادر اور اہلِ قلم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں سے اتنی جلد مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ ان چند اوصاف کے علاوہ کوئی اور اوصاف عربوں کے اندر زمانہ جاہلیت میں نظر نہیں آتے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہی چند اوصاف افغان یا پٹھان قوم میں بھی اسی شدت کیساتھ پائے جاتے ہیں جبکہ ان کی بیشتر چیزیں یہودیوں سے بھی ملتی جلتی ہیں۔ نسلی طور پر دونوں اپنے آپ کو دنیا کی بہترین قوم تصور کرتے ہیں، مذہبی طور پر سخت ہیں اور سر پر ٹوپی رکھنے کا رحجان بھی عام ہے جبکہ اسکے علاوہ بھی کئی رسم و رواج مشترک ہیں۔ انہی قیاسیات کی بنیاد پر کچھ لوگ ہندوﺅں اور یہودیوں کو بھی ملاتے ہیں کہ ایک گائے جبکہ دوسرے بچھڑے کو مقدس سمجھتے ہیں۔ پشتونوں کا یہودی نسل سے ہونا قابلِ فخر بات ہے نہ کہ موجبِ توہین کیونکہ یہودی النسل ہونا تو شاید تب اس قوم کے لیئے توہین کا موجب ہوتا جب وہ سید الانبیاءحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لاتے۔ یہ تو اُن کی غیرت کی بلندی اور ایمان کی عظمت کا نشان ہے کہ یہودی النسل ہوتے ہوئے بھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ یہ وہی آخری نبی ہیں جن کے اوصاف تورات و انجیل میں مذکور ہیں اور جن کی وجہ سے ہی اہلِ کتاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ”نجات دہندہ“ کے طور پر منتظر بھی تھے لیکن بعد میں انہوں نے محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا کہ اُن کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا۔ بنی اسرائیل کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا یہ انکار دلائل پر نہیں بلکہ نسلی منافرت اور حسد و عناد پر مبنی تھا۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 192452 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.