حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سناآپ فرماتے تھے کہ بلاشبہ تمام اعمال کا تعلق
دل کے ارادوں سے ہے اور ہر کسی کو اس کی نیت کے مطابق ہی ثمرہ حاصل ہوتا ہے
جس کسی کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی نیت سے ہو گی
تو اس کی ہجرت اسی غرض کے لئے شمار ہو گی ۔ ﴿بخاری﴾
اعمال ظاہری کی اچھائی برائی کا دارومدار دل کے اچھے برے ارادوں پر ہے حتیٰ
کہ ہجرت جیسی بڑی سعادت و عبادت بھی بری نیت کے سبب اکارت ہو جاتی ہے ،امام
بخاری(رح) نے اپنی کتاب کو اس حدیث سے شروع کیا تاکہ یہ بات اچھی طرح واضح
ہو جائے کہ ہر عمل خیر سے پہلے دل کے ارادہ کو صحیح کرنے کا اہتمام کیا
جائے، نیت صحیح ہو اچھی ہواور ہر بھلائی و نیکی صرف خدا کی خوشنودی کے لئے
ہو اگر ایمان، اسلام، تحصیل علم،تمام اعمال صالحہ،طاعات، عبادات،جہاد،صرف
مال،زکوٰۃوصدقات،حج بیت اللہ وہجرت وغیرہ بھی اخلاص،للہیت اور اچھی نیت سے
نہ ہوں بلکہ کسی غرض دنیوی یا ریاو نمود کے لئے ہوں تو ان کی کوئی قدر و
قیمت اللہ کے یہاں نہیںاور للہیت و اخلاص کے ساتھ ہر چھوٹی بڑی نیکی حتیٰ
کی زبان سے کوئی کلمہ خیر کہہ دینا اور راستوں سے کوئی معمولی تکلیف کی چیز
ہٹا دینا بھی موجب اجر وثواب ہے۔
ثواب اعمال کے سلسلہ میں امام غزالی(رح) نے یہ تفصیل دی ہے کہ اگر کسی کام
میں غرض دنیوی کی نیت غالب ہے تو اس میں کوئی ثواب نہیں ملے گا، اگر غرض
دینی غالب ہے تو بقدر اس کے ہی ثواب ملے گا اگر دونوں برابر ہیں تب بھی اجر
نہیں ملے گا،اگر کسی عبادت کی ابتدا میں نیت خالص تھی پھر نیت میں اخلاص کے
خلاف کوئی چیز آگئی تو ابو جعفر بن جریر طبری نے جمہور سلف سے نقل کیا ہے
کہ اعتبار ابتد ا کا ہے اور بعد کو جو فسادنیت طاری ہوا خدا کے فضل و احسان
سے امید ہے کہ اس کو بخش دے اور اس کا عمل خیر اکارت نہ ہو، لہٰذا ہر نیک
عمل کرنے والے کو چاہئے کہ خضوع و خشوع کے ساتھ کام کی ابتدا میں بھی نیت
کی تصحیح کا پورا اہتمام کرے پھر اس پر استقامت کی بھی پوری سعی کرے اور
اللہ تعالیٰ کی توفیق و نصرت کی ضرورت سے ہرگز غافل نہ ہو۔
شیخ الحدیث علامہ محمد انور شاہ کشمیری(رح)نے اس حدیث کی شرح کے ضمن میں
فرمایا کہ اس عالم میں اجسام ظاہر ہیں اور دلوں کے ارادے مستور ہیں، محشر
میں صورت برعکس ہو گی اور تمام لوگ نیتوں کو اجساد کی طرح برملا دیکھیں گے
پس محشر محل ظہور نیات ہو گا۔
اسی لیے اگر کسی ایک عمل میں ایک ہزار نیتیں ہوں گی تو قیامت کے روز وہ ایک
ہزار اعمال کی شکل میں ہوگا۔﴿انوار الباری﴾
حضرت شیخ الہند کا ارشاد:
استاد الکل شیخ الہند حضرت مولانامحمود حسن قدس سرہ نے حدیث’’انما الاعمال
بالنیات‘‘ کی شرح کرتے ہوئے فرمایا۔
نیت اعمال کے لئے مبدائ اور منشا ہے، نیت اصل ہے اور اعمال اس کی فرع، تو
جس شخص سے اعلیٰ درجہ کے اعمال ظاہر ہوں گے ہم ضرور سمجھ جائیں گے کہ اس کی
نیت اعلیٰ ہے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ حق سبانہ اپنے جس بندہ سے جو معاملہ
فرماتا ہے اور اس سے جس درجہ کاکام کینا منظور ہوتا ہے اول ضرور ہے کہ اسکی
نیت بھی اسی درجہ کی ہو، چنانچہ شیخ دائود کبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی
کتاب عیون الحقائق میں اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’تیری نیت میں تیری ہمت جتنی بلند ہو گی اتنا ہی دنیا میں تیرا درجہ بلند
ہوگا‘‘۔﴿تقاریر حضرت شیخ الہند علیٰ ترمذی و ابو دائود﴾
اخلاص سے خالی عمل جہنم میں لے جائے گا:
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے تین شخصوں کے متعلق حق
تعالیٰ کی عدالت سے جہنم کا فیصلہ سنایا جائیگا سب سے پہلے ایسے شخص کی
پیشی ہو گی جوجہاد میں شہید ہوا ہو گا، وہ جب حاضر عدالت ہو گا تو اللہ
تالیٰ پہلے اس کو اپنی نعمتیں جتلائے کا اور یاد دلائے گا وہ اس کو یاد
آجائیں گی اس سیفرمایا جائے گا بتلاتونے ان نعمتوںکیا حق ادا کیا اور کیا
عمل کئے؟ وہ عرض کرے گا خداوندا میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا
طلبی میں جان عزیز تک قربان کردی، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو
نے تو صرف اس لئے جہاد کیا تھا کہ تو بہادر مشہور ہو، تو دنیا میں تیری
بہادری کا چرچا ہو چکا، پھر اللہ کے حکم سے اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دیا جائے گا، اسی طرح ایک قاری قرآن ایک عالم دین حاضر عدالت کیاجائے گا
اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے کیا اعمال کئے؟ وہ کہے گامیں
نے تیرے دین کا علم حاصل کیا اور تیری کتاب کے علم کو پڑھا پڑھایا اور یہ
سب تیری رضا کے لئے کیا، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے عالم،
قاری اور مولانا کہلانے کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا پھر بحکم خداوندی اس کو
دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص پیش ہو گا جس کو اللہ
نے بہت کچھ مال و دولت دیا ہوگا، اس سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تونے دنیا
میں کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا خداوندا میں خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا
جس میں تیری رضا جوئی کے لئے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو، حق تعالیٰ فرمائے گا
تو جھوٹا ہے تونے صرف اس لئے مال خرچ کیا تھا کہ دنیا تجھ کو سخی کہے تو
دنیا میں
تیری سخاوت کا خوب چرچا ہو لیا، پھر اس کو بھی اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا
جائے گا۔﴿مسلم﴾
الغرض اللہ کے ہاں وہی عمل کام آئے گا جوصالح نیت سے یعنی محض رضائے الہٰی
کے لئے کیا گیاہو، دین کی اصطلاح میں اسی کا نام اخلاص ہے۔
فائدہ:اسی حدیث کی شرح کے ضمن میں علامہ محمد انور شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے
ایک زریں اصول کی طر ف اشارہ فرمایاکہ وظیفۂ نبوت، کلیات مہمہ اور عمومی
ہدایات ہیں، جزئیات و فروعی مسائل کا استنباط و استخراج مجتہد کا کام ہے،
اس لئے کسی کامل الاجتہاد یعنی مجتہد مطلق کے متعلق ایسی کچی بات کہنا کہ
اس نے سنت صحیحہ ثابتہ کی مخالفت کی ہے یا اس کے صحیح جانشینوں نے سنت رسول
اللہ سے بغض رکھا،بڑی بے محل بات ہے جو اہل علم و اصحاب انصاف کی شان سے
بہت بعید ہے،درحقیقت تمام مجتہدین علم نبوت کے صحیح خادم تھے، پھر امام
اعظم(رح) کا درجہ تو تمام مجتہدین میں سے بہت بلند ہے اور ان کی فقہ ہر فقہ
پر فائق ہے اور فرمایا کہ ہم نے تمام فقہ حنفی کو قرآن و حدیث سے مؤ
یدپایا ہے ، سوائے ایک دومسئلوںکے۔﴿انوار ا لبا ر ی ج۱ ص۱۳﴾
نیز حضرت شاہ صاحب(رح) نے فرمایاکہ یہ توسب کو تسلیم ہے کہ قرآن و حدیث کی
مراد سمجھنے کے لئے اعلیٰ درجہ کی فقہی و اجتہادی صلاحیت کی ضرورت تھی جو
خدا کے فضل و کرم سے ہمارے امام اعظم(رح) اور دوسرے آپ کے تلامذہ و
مستفیدین میں بدرجہ اتم موجود تھی، ان کا زمانہ بھی خیر القرون کا تھا ان
کے زمانے میں اکثر احادیث شائع تھیں کہ صرف ایک صحابی(رض) اور ایک
تابعی(رح) کے واسطہ سے رسول اللہسے مروی تھیں اس لئے جھوٹ وغیرہ کا امکان
تقریباًنداردتھا اس مبارک دور میں امام الائمہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی
سر پر ستی میں سینکڑوں کبار محدثین و فقہائ کی موجودگی اور چالیس جلیل
القدر ائمہ محدثین و فقہائ کی تقریباً تیس سال کی شبانہ روز بحث و تمحیص کے
بعد ساڑھے بارہ لاکھ فقہی مسائل کی تدوین عمل میں آئی، جو عملی طور سے بھی
تمام اسلامی ممالک میں رائج ہوئے اور سلطنت عباسیہ کے طول و عرض میں حکومتی
سطح پر بھی نافذ کئے گئے اور دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت امام اعظم(رح) ہی
کی مقلد ہے۔ ﴿انوار ا لبا ر ی ج۱ ص۱۳﴾
﴿ماخوذ:تجلیات نبوت۔تالیف:ڈاکٹرصاحبزادہ محمد حسین چشتی جہلمی نوراللہ
مرقدہ﴾ |