مومن یا مشرک؟قسط 2

کفار مکہ تو خدا پر یہ بہتان باندھتے تھے کہ خدا نے ان پتھروں اور بتوں کو اختیار دے رکھا ہے اور اذن دے دیا ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا اور جب ہم نے ان انبیاء و اولیاء پر اذن کی شرط لگائی تو شرک دور ہوگیا اور جب انکے اختیار کو ثابت کردیا تو کفر بھی جاتا رہا۔ الحمدللہ عزوجل ہم باذن اللہ کا اعتقاد کرکے شرک سے پاک اور انبیاء و اولیاء کے اختیارات ثابت کرکے کفر سے بھی پاک ہیں۔مذکور تفصیلی بحث سے امید ہے کہ آپ کے وسوسے دور ہوجائیں گے کہ اولیاء کرام سے مدد طلب کرنا توحید کے منافی نہیں جیسا کہ تفصیل سے گذرا نیز یہ حضرات قدسیہ اللہ کی عطا سے مشکل کشا ہوتے ہیں اس پر بھی گفتگو مذکور ہوچکی لہٰذا اہلسنت کاانبیاء علیھم السلام و اولیاء کرام سے مدد مانگنا توحید کے منافی نہیں لہٰذا اہلسنت انبیاء و اولیاء اللہ سے مانگ کر '' توحید '' سے ہٹے نہیں بلکہ عین توحید پر ہیں ۔

اب بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ جب اللہ عزجل مدد کرنے پر قادر ہے، مشکل حل کرنے پر قادر ہے تو پھر انبیاء واولیاء سے مدد کیوں طلب کی جائے '' ڈائریکٹ '' اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جائے یہ بات اسوقت پیدا ہوتی ہے جب '' وسیلہ '' کو چھوڑ دیا جائے اور جب وسیلہ کی طرف توجہ کی جائے تومذکورہ سوال کا جواب سمجھ میں آجاتا ہے اب یہ دیکھئے کہ وسیلہ سے متعلق کیا ارشاد ہوتا ہے۔
( سورۃ المائدۃ اٰیۃ نمبر ٣٥) یاایھاالذین امنوا اتقوا اﷲ وابتغوا الیہ والوسیلۃ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو (ترجمہئ کنزالایمان )

اب دیکھئے مذکورہ آیت مقدسہ میں اللہ عزوجل نے مؤمنین متقین کو اپنی بارگاہ میں پہنچنے کے لئے وسیلہ کی تلاش کا حکم فرمایا۔ لہٰذا ہمارا اولیاء اللہ کی بارگاہ میں جانا ان سے مدد طلب کرنا اس آیت مقدسہ کے مطابق ہے کہ ہم اولیاء اللہ کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ سمجھتے ہیں او ران کی برکت سے اللہ عزوجل ہماری تکالیف وغیرہ دور فرمادیتا ہے واضح رہے کہ آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لیکر حضور سید عالم ؐ تک ہر دین میں ہر امت کا یہ عقیدہ رہا اور حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لیکر آج تک تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا اور ہے کہ رب کائنات تک رسائی کے لئے حضرات انبیاء و اولیاء بلکہ انکے تبرکات بھی وسیلہ ہیںیہ بھی خیال رہے ہم قدرت و قانون دونوں پر یقین رکھتے ہیںاللہ عزوجل کے قانون کو بھی مانتے ہیں اور اسکی قدرت پر بھی ہمارا ایمان اور اس نے خود اپنی قدرت کے بارے میں ارشاد فرمایا '' ان اﷲ علی کل شی قدیر'' ہمارا ایمان ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں رزق دینے پر قادر ہے مگر یہ اسکا طریقہ ہے کہ ہمیں رزق وسیلہ کے ذریعے ملتا ہے وہ اولاد دیتا ہے مگر قانون یہ ہے کہ مرد و عورت کے ملاپ کے ذریعہ اولاد دیتا ہے بیمار کو شفا اللہ دیتا ہے مگر طریقہ یہ ہے کہ اس شفا یابی کا وسیلہ کسی حکیم یا ڈاکٹر وغیرہ کو بناتا ہے الحاصل یہ کہ وہ بے نیاز و غنی ہے ہم محتاج و فقیر ہیں وہ وہ ہرگز ہرگز کسی بھی معاملہ میں کسی کا بھی محتاج نہیں وہ اگر چاہے تو بغیر کسی وسیلہ کے ہماری حاجات کو پوری فرمادے لیکن اس نے اس طریقہ کو اختیار فرمایا کہ اسی بارگاہ میں وسیلہ پیش کیا جائے تو محتاج ہم ہیں رب نہیں اس سلسلہ میں دلائل او رمثالیں تو بے شمار ہیں لیکن عقلمند کو سمجھنے کے لئے ایک بات ہی کافی ہے کہ تحت صرف اتنا تحریر کیا جاتا ہے کہ اگر اللہ کے برگزیدہ بندوں سے مانگنا ان کی بارگاہ میں جانا توحید کے منافی ہے تو پھر اس سے آخرت میں بھی کوئی نہیں بچے گا یہ نہیں ہوسکتا کہ اب تو (دنیا میں ) توحید کے راستے سے ہٹنا ہو اور آخرت میں یہی بات عین توحید ہوجائے۔ کیونکہ شرک تو ہر زمانہ میں شرک ہی رہےگا تو غور کرلیجئے یہ بات کہاں تک پہنچے گی کیوں کہ قیامت کی مشکلات سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی مشکل ہوگی اس وقت تمام لوگوں کی نظر کسی اللہ کے بندے کو تلاش کرنے میں ہوگی کیا مسلمان کیا کافر ہر ایک کی فکر یہ ہوگی کہ اس مشکل وقت میں کسی ایسی ذات کو تلاش کیا جائے جو مشکل کشائی کرے چنانچہ '' ڈائریکٹ '' اللہ سے دعاکرنے کی بجائے سب لوگ کسی ایسے کامل بندے کو ڈھونڈیں گے جو ان کے لئے اللہ کی بارگاہ میں سفارش کرے اسطرح ان کی مشکل کشائی ہو چنانچہ سب لوگ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہوئے حاضر ہوں گے، وہ ( انبیاء کرام ) یہ نہیں فرمائیں گے کہ تم ہمارے پاس آکر توحید کی لائن سے ہٹ گئے بلکہ کسی اور کے پاس جانے کی راہنمائی فرمائیں گے اور ارشاد فرمائیں گے '' اذھبوا الی غیری '' ، پھر آخر میں محبوب رب اکبر ؐ کی بارگاہ میں حاضری ہوگی اور سب پکار اٹھیں گے '' اَسْئَلُکَ الشَّفَاعَۃَ یَارَسُوْلَ اﷲ '' تو نبی کریم ؐیہ نہیں فرمائیں گے کہ تم میرے پاس آکر توحید کی لائن سے ہٹ گئے بلکہ وہ تو یہ فرمائیں گے '' اَنَا لَھَا '' ہاں ہاں اس کام کے لئے میں ہوں اور پھر اسطرح اس مشکل وقت میں آپ ؐ شفاعت فرماکر مشکل کشائی فرمائیں گے۔
کہیں گے اور نبی اذھبوا الی غیری میرے حضور کے لب پر انا لھاہوگا ؐ

پیچھے کالم میں گذرا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ میرا بندہ جب میرا مقرب ہوا تو اس نے اپنے کلام کو میرے کلام کا اور اپنی صفات کو میری صفات کا آئینہ دار بنادیا تو اب مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسکو عطا کروںگا، وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے پناہ دوں گا اس حدیث میں وقت کی کوئی قید نہیں مطلب یہ ہے کہ جب مانگے میں ضرور دوں گا تو اب وہ چاہے دنیا میں مانگے ہم اولیاء اللہ کے مزارات پر اس لیے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتے ہیں تو میںان کو ضرور دیتا ہوں تو کسی کے مزار پر جاکر یہ کہناکہ اے اللہ کے ولی خدا سے دعا کریں کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو کوئی قباحت نہیں اب اگر کوئی کہے ہ ولی کے پاس جانے سے کچھ نہیں بنتا تو اس نے ولی کا کچھ نہ بگاڑا بلکہ اللہ تعالی کے وعدہ کوجھٹلایا۔
شرح عقائد نسفی ص ١٦ پر منقول ہے
الاشراک ھو اثبات الشریک فی الالوھیۃ بمعنی وجوب الوجود کما للمجوس او بمعنی استحقاق العبادۃ کما لعبدۃ الاصنام
'' اشراک الوہیت یعنی واجب الوجود ہونے میں کسی کو شریک کرنا جیسے مجوسی کرتے ہیں یا عبادت کا مستحق ہونے میں کسی کو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک کرنا جیسے بتوں کے پجاری کرتے ہیں '' ۔ لہذا جو کسی کو خدا کے علاوہ واجب الوجود یعنی معبود مانیں وہ مشرک ہیں ۔ اس کے علاوہ حیلے بہانوں سے کسی کو مشرک کہنا حرام ہے۔ اور اگر مشرک اعتقاد کرکے کہے تو خود کافر ہے ۔ اور مسلمانوں سے شرک کا صادر ہونا بہت بعید ہے کیونکہ نبی کریم ؐ نے فرمایا
''خدا کی قسم مجھے تم پر یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے لیکن تم دنیا کی محبت یں مبتلا ہو جاؤ گے۔''

نبی کریم ؐ تو قسم کھاکر ارشاد فرمارہے ہیں کہ میری امت میرے بعد شرک نہ کرے گی ۔ مگر جہلاء زمانہ کو شرک کے فتوے کا ایسا نشہ ہے کہ گرتے پڑتے اٹھتے بیٹھتے شرک کے فتوے ہی صادر کرتے ہیں ۔ اور خصوصا شرک کے فتاوی بھی ان کاموں پر جو آیات و احادیث سے ثابت ہوں ۔ مثلًامنکرین کہتے ہیں اللہ تعالٰی کے سوا کوئی کار ساز نہیںجہان کی تدبیر کرنے والا وہی ہے حالانکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔ فالمدبرات امر ا '' ان کی قسم جو جہان کے کاموں کی تدبیر کرتے ہی۔ '' (سور۔ۃ النٰزعات ٥) بعض حضرات کہتے ہیں '' اللہ کے سوا کوئی مالک نہیں '' لیکن اللہ عزوجل فرماتا ہے قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء '' اللہ کے سوا کوئی مالک نہیں '' اے محبوب آپ کہیے اے مُلک کے مالک تو جسے چاہتا ہے ملک عطا فرماتا ہے ''
( سورۃ آل عمران آیت ٢٦ )

منکرین کہتے ہیں '' اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو غنی کرنے والا سمجھنا شرک ہے '' لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ وما نقموا الا ان اغنھما اللہ و رسولہ من فضلہ '' اور انہیں کیا برالگا یہی کہ انہیں اللہ و رسول نے اپنے فضل سے غنی کردیا '' ( سورۃ التوبۃ آیت ٦٧٤ ) منکرین کہتے ہیں کہ '' اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا '' لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہے وتعاونوا علی البرو التقوی '' اور نیکی اور پرہیز گار ی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ' '
( سورۃ المائدۃ آیت ٢ ) منکرین کہتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی کے سوا کسی کے لئے کارخانہ جہاں میں قدرت ماننا شرک ہے '' لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہے قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم '' اے محبوب آپ فرمادیں کہ اے لوگو تمھیں موت کا فرشتہ فوت کرتا ہے جو تم پر مقرر ہے ۔ (السجدۃ ١١ ) منکرین کہتے ہیں '' اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی کے لئے زور سے سننے کی طاقت ماننا شرک ہے '' لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہے فتبسم ضاحکا من قولھا '' حضرت سلیمن ( زور سے ) چیونٹی کی بات سن کر مسکرادئیے '' (سورۃ النمل ١٩ ) منکرین کہتے ہیں کہ '' یہ بات ماننا کہ اللہ تعالٰی کہ سوا کوئی غیب کی بات جانتا ہے یہ شرک ہے '' لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہـے۔ وما ھو علی الغیب بضنین '' اور یہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں '' (التکویر ٢٤ ) اور فرمایا وماکان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء '' اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ اے عام لوگو تمھیں غیب کا علم دیدے لیکن اللہ اپنے رسولوں کو چن لیتا ہے '' (انہیں غیب کا علم دیتا ہے ) (آل عمران ١٧٩ ) منکرین کہتے ہیں '' کسی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ شفا دے سکتا ہے شرک ہے'' حالانکہ قرآن مجید میں ہے قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلما زکیا '' فرمایا جبرئیل نے ( اے مریم ) میں تیرے رب کا قاصد ہوں تاکہ میں تمھیں ستھرا بیٹا عطا کروں '' ( سورۃ مریم ١٩) منکرین کہتے ہیں شفاء دینا ، مریضوں کو تندرست کرنا صرف اللہ تعالٰی کے لئے خاص ہے لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہے وتبری الاکمہ والابرص باذنی '' ( اے عیسی ) تم میرے حکم سے مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دیتے ہو '' (سورۃ المائدۃ آیت ١١٠ ) منکرین کہتے ہیں اللہ تعالٰی کے علاو ہ کسی کو مددگار سمجھنا شرک ہے لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہے یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملٰئکۃ مسومین '' تمھارا رب مددفرمائے گا پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ جو نشان والے ہوں گے ''
( آل عمران ١٢٥) چنانچہ میدان بدر میں فرشتوں نے مدد کی۔ منکرین کہتے ہیں اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی سے مدد مانگنا شرک ہے۔ لیکن اللہ تعالٰی فرماتا ہے یاایھا الذین امنوا کونوا انصار اللہ کما قال عیسی ابن مریم للحواریین من انصاری الی اللہ '' اے ایمان والو ( دین) خدا کے مدد گاربن جاؤ جیسے عیسی بن مریم نے حواریوں سے کہا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میرا مددگار بنے '' ( سورۃ الصف آیت ١٤)
الغرض خدا ورسول جل و علا و ؐ نے جو کچھ فرمایا ہے۔منکرین نے اسکی پرواہ نہ کی اور شرک کی رٹ کی ایسی بار مار کی کہ اس کی رو سے انکے نزدیک خدا و انبیاء ، صحابہ و تابعین ، تمام مسلمان اور فرشتے سبھی مشرک ہوگئے ۔ گویا کہ شرک امور عامہ میں سے ہے۔ جیسے کان یکون افعال عامہ سے ہے کہ ہر جگہ استعمال ہوتا ہے یونہی شرک منکرین کے نزدیک امور عامہ سے ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی فرد مخلوق اس سے بری نہیں ۔ بلکہ خود خالق کائنات بھی منکرین کے فتوے کی رُو سے مشرک ہے۔ ( العیاذ باللہ معاذاللہ )

ان دلائل کو پڑھنے کے بعد اگر دل میںرتی بھربھی ایمان موجود ہے۔ توا ن عبارتوں کی سنگینی ضرور معلوم ہوجائے گی اور دل ان منکرین سے نفرت کرے گا ۔ اور ایسے عقائد رکھنے والوں سے مومن دور رہے گا اور ایسوں کی اقتدا سے مومن ہمیشہ بچتا رہےگا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ حق بات کرنے ،حق بات سمجھنے،حق بات پر عمل کرنے،اور دوسروںتک پہنچانے کی توقیق عطا فرمائے۔اور ہمیں خوف خدا،عشق رسول ،عشق صحابہ ، اور عشق اولیاء کی چاشنی سے مرقع فرمائے۔ اٰمین۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 355167 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.