اونٹ کروٹ بدل رہا ہے

دنیا جہان کی باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں اور آچکی ہیں مگر لے دے کر ایک اپنی سیاست ہے کہ کسی بھی طرف سے سمجھ دانی میں داخل ہی نہیں ہوپاتی۔ سو سو جتن کر دیکھیے، ذہن کے گھوڑے لاکھ دوڑائیے، مجال ہے جو کہیں سے سیاست ککھ بھی سمجھ میں آ جائے! دُنیا ”رشک“ کی نظر سے دیکھ رہی ہے کہ ہم چار سال سے جمہوریت کے ”مزے“ لُوٹ رہے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ جمہوریت میں ”مزے“ لوگوں کو کہاں سے دکھائی دے گئے۔ لُوٹنے والی بات سے ہم البتہ متفق ہیں کیونکہ ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ چار سال سے کچھ لوگ جمہوریت کی آڑ میں قومی دولت کو جی بھر کے، اپنی مرضی کے مطابق یعنی من چاہے طریق سے لُوٹ کر مستی سے سیاسی زمین پر لوٹ لگا رہے ہیں۔ اور صاحب! اب لگی لپٹی کیا رکھنی ہے، یاروں نے زندوں کو قبر میں دھکیلنے کے بعد کفن پر بھی نظریں گاڑی ہوئی ہیں! ہم یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے!

قومی سیاست نے ایسی نیرنگی پائی ہے اور ایسی سَت رنگی دکھائی ہے کہ سب کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیں۔
برادرم راشد اشرف کو ہم پُرانی کتابوں کے ”دَھتّی“ تو قرار نہیں دے سکتے، مگر ہاں وہ اِن کتابوں کے شوقین، بلکہ رَسیا ضرور ہیں۔ ہر صبح صدر کے اولڈ بک بازار کا چکر نہ لگائیں تو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ کھانا وہ کتابوں کی چھانٹی کے بعد کھاتے ہیں! گزشتہ دنوں نے راشد اشرف نے ہماری ویب ڈاٹ کام پر اپنے کالم میں لکھا کہ وہ اتوار کی صبح کتابوں کی خریداری کے بعد سید معراج جامی اور دیگر احباب کے ساتھ نہاری کھانے ہوٹل پہنچے۔ نہاری سے شکم سیر ہوکر وہیں گپ شپ لگانے بیٹھے۔ نصف گھنٹے بعد جامی صاحب کہنے لگے۔ ”بھئی اب چلو، اونٹ کروٹ بدل رہا ہے!“ نہاری اونٹ کے گوشت ہی کی تو تھی!

برادرم راشد اشرف کے بقول جامی صاحب نے جس اونٹ کے کروٹ بدلنے کی بات کہی وہ کھایا جاچکا تھا۔ کسی طور سمجھ میں نہ آنے والی ہماری سیاست بھی اونٹ کے مانند ہے اور ہمیں ڈکارنے کے بعد اُس کے پیٹ میں بھی مروڑ اٹھتے رہتے ہیں! اب ایک بار پھر سیاست کا اونٹ کروٹ بدل رہا ہے۔ ڈٹ کر نہاری کھانے والوں کے پیٹ میں کروٹ بدلنے والا اونٹ تو بہر حال کچھ دیر میں اپنی منزل پر پہنچ کر بُہتوں کو سُکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرتا ہے مگر سیاست کا اونٹ کم بخت ایسا سِتم ظریف ہے کہ بس کروٹیں ہی بدلتا رہتا ہے، کِسی کے لیے راحت کا سامان نہیں ہونے دیتا۔ خوب رَج کر اونٹ کی نہاری کھانے والوں سے سیاست کے اونٹ نے انتقام لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ اُنہیں چارہ بناکر چبا ڈالا ہے۔ اور ہم ایسے بے دَم ہیں کہ سیاسی اونٹ کے پیٹ میں کروٹ بدلنے کا بھی ہم میں یارا نہیں!

حکومت یعنی منتظمہ اور عدلیہ میں ٹھنی ہوئی ہے۔ یہ تماشا فریقین ہی کو محظوظ کر رہا ہے۔ عوام بے چارے تماشا ضرور دیکھ رہے ہیں مگر محظوظ ہونے سے کہیں بڑھ کر پریشانی میں مبتلا ہیں۔ سیاست کے اونٹ کی کوئی کَل سیدھی نہیں۔ جمہوریت کے نام پر ایک بار پھر بے وقوف بننے کے عمل سے گزرنے والے عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاست کا اونٹ اگر بیٹھے گا تو کِس کروٹ بیٹھے گا! چار سال متعارف کرائی جانے والی جمہوریت کی گردن بھی اونٹ کی سی ہے یعنی بہت آسانی سے منہ مار کر قومی وسائل ڈکار جاتی ہے۔ عوام کے نصیب میں صرف گردن اٹھاکر سیاسی اونٹ کی ریشہ دوانیاں دیکھنا رہ گیا ہے!

اونٹ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ جب یہ لمبے سفر پر نکلتا ہے تو خوب کھا پی لیتا ہے تاکہ طویل فاصلے تک بھوک لگے نہ پیاس۔ ہمارے ہاں بھی جمہوریت کو چونکہ ہر چند سال بعد ایک طویل سفر پر روانہ کیا جاتا ہے اِس لیے جمہوریت کے نام پر متعارف کرائے جانے والے وقفے میں سیاسی اونٹ قومی وسائل خوب ڈٹ کے، رَج کے کھا پی جاتا ہے تاکہ دور تک بھوک پیاس نہ ستائے! عوام کا یہ حال ہے کہ بے چارگی کا بُھوسا ٹھونس کر صبر کے گھونٹ پی لینے پر اکتفا کرتے اور شاکر رہتے ہیں! ”آئیڈیل“ عوام ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اور پاکستانی قوم نے تو آئیڈیل عوام کا بہترین ورژن مارکیٹ میں متعارف کرایا ہے۔ حکمراں خواہ کچھ کرتے پھریں، ہمارا موقف یہ ہے کہ
ہم پہ الزام سہی، تو نہ ہو بدنام کہیں
اپنے ہونٹوں کو تِرے غم میں سِیے جائیں گے!

میر تقی میر بھی کی سادہ تھے۔ جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار پڑتے تھے اُسی سے دوا لینے پر بھی بضد رہتے تھے۔ ہم میں سے بھی میر کی خُو بُو گئی نہیں۔ ایک جیسے سیاسی سُوراخوں سے بار بار ڈَسے جاتے ہیں اور پھر بھی باز نہیں آتے۔ اور اگر کوئی طعنہ دے تو چنداں پروا نہیں کرتے بلکہ اُسے محض الزام تراشی قرار دے کر بے نیازانہ صرفِ نظر کرتے ہیں۔ یعنی
نام لے لے کے تِرا ہم تو جیے جائیں گے
لوگ یونہی ہمیں بدنام کیے جائیں گے!

اونٹ کا کینہ مشہور ہے۔ سیاسی اونٹ کا کینہ بھی بار بار ثابت ہوا ہے اور اور ہم سے زیادہ کون اِس حقیقت کو جانے گا کہ ہمی تو نشانہ بنتے آئے ہیں۔ سیاسی اونٹ واقعی شُتر بے مہار ہے جس نے جگہ جگہ منہ مار کر ہرے بھرے میدانوں کو ویرانوں بلکہ ریگ زاروں میں تبدیل کردیا ہے۔ یہاں بھی جیت سیاسی اونٹ ہی کی ہوئی ہے کہ اُس سِتم ظریف کو بالآخر ریگ زار ہی تو اچھے لگتے ہیں اور درکار ہیں!

اگر مقننہ اور منتظمہ سے عدلیہ کی محاذ آرائی نے ہمیں ہنسا ہنساکر بے دَم نہ کردیا اور کچھ دیکھنے سُننے کی تاب باقی رہی تو ہم بھی دیکھیں کہ پیچیدہ اور کج ترین کَلوں والا سیاسی اونٹ، جو فی الحال کروٹ بدل رہا ہے، بالآخر کِس کروٹ بیٹھتا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524515 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More