ہمارے ذہن میں جب پردے کے متعلق
خیال آتا ہے تو فوراً ہمارا خیال عورتوں کی طرف گھوم جاتا ہے اور سمجھتے
ہیں کہ پھر کسی مولوی صاحب نے عورتوں کو گھر سے باہر جانے کے آداب بتائے
ہوں گےمگر یہاں پربات کچھ ایسی نہیں ہےاس تحریر میں ہم قرآن کریم سے یہ
ثابت کریں گے کہ پردہ محض عورتوں کیلئے مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ مرد حضرات
کیلئے بھی پردہ ضروری ہے-
ہمارا مقصد قارئین کو علمی بھول بھلیوں میں الجھانا نہیں بلکہ بحیثیت
مسلمان اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ پردے کے ان بنیادی احکام سے آگاہ
کرنا ہے جس پر عمل کرنا دنیا کے تمام مسلمان مرد وعورت دونوں پر فرض کیا
گیا ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے
کر دنیا کے آخری انسان کی دنیوی واخری فلاح وبہبود کیلئے اپنی نازل کردہ
کتاب قرآن کریم کو ہدایت کا سرچشمہ بنایا ہے ایک مسلمان کی عملی زندگی کے
تمام تر اصول ومبادی اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نازل
کردیئے ہیں پس انہی پر عمل کرکے ایک مسلمان اپنے آپ کو دنیا وآخرت میں
کامیاب انسان بناسکتا ہےاللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مرد اور عورت کے
پردے کےمتعلق صرف چار بنیادی اصول بیان کردیئے ہیں جن پر عمل کرنا ہر
مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے وہ چار بنیادی اصول یہ ہیں اللہ تعالیٰ
قرآن کریم کی سورہ نور آیت 30اور 31 میں فرماتے ہیں کہ
قل للمومنین یغضو من ابصارھم ویحفظو فروجھم۔۔30
جبکہ ساتھ ملحقہ آیت میں فرمایا
قل للمومنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظہر
منھا والیضربن بخمرھن علی جیوبھن۔۔۔31
مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں کل چار بنیادی اصول سامنے آتے ہیں دو اصول
مرد اور عورتوں دونوں کیلئے جبکہ دو اصول صرف عورتوں کیلئے خاص ہیں مر د
اور عورتوں کیلئے جو دو اصول بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے پہلا اصول یہ
ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چاہے جہاں کہیں بھی ہو ں کیسے حالات سے بھی کیوں
نہ گزر رہے ہیں سو اپنی نظریں نیچی رکھیں نظریں نیچی رکھنے سے مراد آنکھوں
میں حیا پیدا کرنے کے ہیں مطلب ایک مسلمان مرد اور عورت کو چاہئے کہ وہ
اپنی آنکھوں میں حیا پیدا کرے بخدا اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازک کردہ یہ
ایک اصول ہی مسلمان مرد اور عورت دونوں کیلئے کافی وشافی ہے کیونکہ اس میں
کیا شبہ ہے کہ جنسی شوریدگی کی ابتداء نظر ہی ہوتی ہےاور جب نظر نیچی رہے
تو پھر کسی بات کا بھی اندیشہ باقی نہیں رہتا-
دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ مسلمان مرد اور عورت اپنے شرمگاہوں کی حفاظت
کریں شرمگاہوں کی حفاظت سے مرادمسلمان مرد اور عورت آپس میں غیر قانونی رہ
ورسم سے بالکل گریز کریں واضح رہےکہ آیات میں صرف مذکر اور مونث کے صیغوں
(الفاظ) کا فرق ہے باقی حکم دونوں آیات میں ایک ہی ہےباقی کے دو اصول صرف
عورتوں کیلئے خاص ہیں ان میں پہلا اصول یہ کہ مسلمان عورتیں جب میک اپ(بناؤ
سنگھار) کرلیں تو پھر خاوند اور محرمات کے علاوہ کسی کے سامنے بھی اپنے
بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں محرمات سے مراد خاوند ،والدین ،سسر،اولاد
،ماموں،تایا،بھائی اور بھانجے ہیں البتہ وہ اعضاء جو خود بخود ظاہر ہوجاتے
ہیں مثلاً ہاتھ،چہرہ وغیرہ ، آیت میں عورتوں کیلئے دوسراور آخری ابنیادی
اصول یہ کہ وہ چاہے گھر میں ہوں یا پھر گھر سے باہر ہروقت اپنے سینوں کو
اوڑھنیوں (دوپٹہ )سے چھپائے رکھیں،اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان مرد اور عورت
کیلئے جس پردے کا حکم نازل فرمایا ہے وہ صرف یہی ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے
ہیں اس کے علاوہ کوئی خارجی اصول نہ تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوسکتا ہے
اور نہ ہی کسی مسلمان مرد یا عورت کو اس پر عمل کرنے کا مکلف کیا جاسکتا
ہےیہاں پر ایک وضاحت نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ سورہ احزاب میں جن پردے
کے احکام کا ذکر آیا ہے وہ احکام ازواج مطہرات کیلئے خاص تھے ان آیات کے
سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ازواج مطہرات کیلئے خاص تھا البتہ مسلمانوں کی نظم اجتماعی (ریاست) پردے کے
جزئیات (قانون )مقررکرنےکے وقت ان آیات سے استفادہ ضرور حاصل کر سکتی ہے
درج بالا مضمون کے مطالعہ کے بعد ایک اشکال یہ سامنے آجاتا ہے کہ آیاعورت
کا سر ڈھانپنا اور چہرہ کے چھپانے کا ذکر تو نہیں کیا گیا تو قارئین محترم
اس سوال کا سیدھا ساجواب یہ ہے کہ عورت کا سر ڈھانپنا یا چہرے کا پردہ
تہذیب(Civilization (کا حصہ ہے نہ کہ کوئی دینی حکم اگر یہ کوئی دینی احکام
ہوتے تو اللہ تعالیٰ نے اتنی وضاحت فرمادی تو کیا یہ اللہ تعالیٰ کیلئے
مشکل تھا کہ عورت کے سرڈھانپنے یا چہرے کے پردہ کے جملےساتھ نازل فرما دیتا
دراصل بات یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جمود کا قائل ہی نہیں کرنا چاہتا وہ صرف
ان معاملات میں ہماری رہنمائی فرماتا ہے جن میں ہماری عقل کوئی فیصلہ کرنے
سے قاصر ہوتی ہے پردے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات میں نہایت
صریح(واضح)، مختصر اور عام فہم اصول بیان کردیئے ہیں باقی رہا سرڈھانپنے کا
مسئلہ تو اس کا تعلق ہماری تہذیب سے ہے اور تہذیب کے معانی علامہ شبلی
مرحوم اپنی معرکتہ الآراء کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جلد دوم
صفحہ 205 میں "طرز معاشرت، رہن سہن کے طریقے "بیان کرتے ہیں فلہٰذا اس کا
تعلق دین سے نہیں بلکہ ہماری معاشرت سے ہے دین کے ابدی احکام وہی ہیں جو ہم
اوپر ذکر کرچکے ہیں اور یہی احکام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہیں نہ ان میں کچھ
تبدیلی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی کمی بیشی۔
پردے کے متعلق جدید ذہن کے سوالات
سوال: کیا اسلام نے ایک عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے؟(عظمیٰ
آفتاب۔۔کراچی)
جواب: اسلام نے عورت کو پابہ زنجیر نہیں کیا بلکہ اسے وہ عظیم المرتبت مقام
عطا کیا جو دنیا کے کسی مذہب میں بھی اسےحاصل نہیں تھااسلام نے کبھی بھی
عورت کو چاردیواری کے اندر محصور نہیں رکھا آپ تاریخ اسلامی کا مطالعہ
کرلیں کہ کسی طرح جنگوں میں مسلمان عورتیں نہ صرف حصہ لیتی تھیں بلکہ
زخمیوں کی مرہم پٹی بھی انہی کے ذمہ تھی قوانین خداوندی کی اتباع کرتے ہوئے
عورت کو نہ صرف گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے بلکہ ضرورت کے پیش نظر
دفاتر وغیرہ میں بھی کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سوال: آپ کے بقول کیا اب مرد بھی پردہ کریں گے؟(طارق انور۔۔۔۔اسلام آباد)
جواب: میرے انتہائی قابل احترام دوست اب مرد بھی پردہ کریں گے سے کیا مراد؟
اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتے ہیں کہ ایک مسلمان اپنی دنیاوی زندگی کو پاکیزہ
بنالے یہ حکم صرف خواتین کیلئے مخصوص نہیں بلکہ مردوعورت دونوں کیلئے ہے اس
لئے جس طرح عورتیں اپنی آنکھوں میں حیاء پیدا کریں گی ٹھیک اسی طرح مرد
حضرات بھی اپنی آنکھوں میں حیاء اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں گےپس
معلوم ہوا کہ عورت کے ساتھ ساتھ مرد حضرات بھی پردے کا اہتمام کریں گے اور
ان کا پردہ وہی ہے جو ہم درج بالا سطور میں ذکر کرچکے ہیں۔
سوال: کیا اسلام گرل فرینڈ رکھنے کی اجازت دیتا ہے؟ (اسد جیلانی۔۔نمل
یونیورسٹی اسلام آباد)
جواب: اسلام کا بنیادی مقصد ایک مسلمان کا تزکیہ نفس ہے ایک مسلمان کو تمام
تر جسمانی اور اخلاقی گندیوں سے پاک کرنا ہے پس یہی اسلام اور تما م تر
انبیاء کی بعثت کا مقصد اصلی ہے اسلام نے ایک مرد اور عورت کے اختلاط کا
جوقانون بتایا ہے وہ صرف اور صرف نکاح ہے آپ نکاح کرلیں انشاء اللہ آپ کو
ایک اچھی گرل فرینڈ مل جائے گی علاوہ ا زیں کوئی متبادل صورت موجود نہیں۔
کیااسلام مخلوط تعلیم( Co-Education ) کی اجازت دیتا ہے؟ (حصہ اول)
(ڈاکٹر نصیر احمد۔۔کراچی)
جواب: اسلام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کا نظام تعلیم کیا ہے اسلام تو
چاہتا ہے کہ ایک مسلمان ہر حالت میں تزکیہ نفس Purification of soul) (کی
پاسداری کرتا رہےیہی اسلام کا اصل الاصول ہے نظام تعلیم مخلوط ہو یا پھر
غیر مخلوط اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اصل بات یہ ہے کہ تعلیم حاصل کون کررہے
ہیں مسلمان ہیں یا پھر غیر مسلم اگر چہ مسلمان ہیں تو پھر اس بات کی توقع
ہی محال ہے کہ ایک مسلمان اپنی دوسری مسلمان بہن کے ساتھ ایسے غیر اخلاقی
اور غیر اسلامی رہ ورسم روا رکھےگا جو ایک مسلمان کے کسی طور بھی شایان شان
نہیں فلہٰذا اس سوال کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی کہ مخلوط تعلیم جائز ہے
یا ناجائز۔
سوال: عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ برائی اور بے حیائی کے مواقع پیدا کرنا بھی
جائز نہیں جب ایک لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ تعلیم حاصل کریں گے تو انکے
درمیان روابط تو ضرورپیدا ہونگے اور جب روابط پیدا ہونگے تو خدشہ کا امکان
بڑھ جائے برا ہ کرم اس کے متعلق وضاحت فرمادیں؟ (حصہ دوم)
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے مخلوط نظام تعلیم کو برائی اور بے حیائی
سے کیسے تعبیر کرلیا؟
دوسری بات یہ کہ آپ نظام تعلیم کو بدلنے کی بات تو شدومد سے کرتے ہیں جبکہ
تربیت ذات پر کوئی توجہ نہیں دیتے آپ ایک ایسا معاشرہ تشکیل کیوں نہیں
دیتے جس میں سےایک اچھے انسان اور بہترین مسلمان پیدا ہوں جوزندگی کے ہر
موڑ پر اپنے نفس کو آلودگی سے پاک رکھنےکا مصمم عزم رکھتے ہوں اسلام کا
مقصد ایک مسلمان کی انفرادی زندگی کو آلائشوں سے پاکیزہ کرنا ہے اسلام نے
ہمیشہ تربیت ذات پر توجہ دی ہے جبکہ اسی مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء
علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا اور اس سلسلہ کی آخری کڑی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "ھوالذی
بعث فی الامیین رسول منھم ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمہ" (سورہ جمعہ آیت
2)
"وہ اللہ جس نے انہی(عرب قوم) ان پڑھوں میں سے ایک رسول انکی طرف بھیجا جو
انکے نفوس کو پاک کرتا ہے اور انہیں قرآن اور دانائی کی باتیں سکھاتا ہے"
لہٰذا ایک مسلمان سے اس بات کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ ماحول کا
فائدہ اٹھا کر برائی کی طرف راغب ہوجائے اور وہ تمام حدیں پھلانگ لےگا جو
اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں مقرر کی ہیں
رہی بات مرد اور عورت کے درمیان روابط کی تو اس میں کوئی ممانعت نہیں بس
شرط یہ ہے کہ دوران ملاقات ان چار بنیادی احکام کی سختی سے پابندی کرنی
چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے کتا ب اللہ میں بتا دیئے ہیں تاکہ کسی قسم کی
اخلاقی قباحت کا امکان باقی نہ رہے۔
سوال: کیا اسکارف اور نقاب پہننا ضروری ہیں؟ (زیبا نورین۔۔۔ملتان)
جواب: ایک عورت کیلئے اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں جوپردہ بیان فرمایا ہے
وہ ہم نے اپنے مضمون "اسلام میں پردے کے احکام" میں تفصیل کے ساتھ بیان
کردیا ہے آپ سے گزارش ہے کہ وہ مضمون پڑھ لیں علاوہ ازیں آپ نے جن مخصوص
حجابات کا ذکر کیا ہے ان کا تعلق ہماری تہذیب سے ہے اسکارف کی تہذیب عموماً
غیر ملکی ہے برطانیہ امریکہ اور یورپی یونین میں رہنے والی مسلمان عورتیں
بالخصوص اس کا اہتمام کرتی ہیں جبکہ نقاب کی تہذیب ہماری قدیم دیہاتی تہذیب
ہے آپ اس کا مشاہدہ عموماً ہمارے دیہی کلچر میں کرسکتی ہیں۔ |