کہتے ہیں اگر کسی قوم کی ترقی کا
گراف دیکھنا ہو تو اس کی توتعلیمی شعبے پر ایک نظر ڈال لی جائے تو سب دودھ
کا دودھ اور پانی کا پا نی واضع ہو جاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں
تعلیمی شعبے کو سب سے اہمیت دی جاتی ہے تمام ممالک کے سربراہان اور تعلیمی
شعبے کے اعلی عہدیدار اپنی قوم کو اہم ، تیز ترین ، باخبر ،نئی جدتوں سے ہم
آہنگ اور اعلی ترین تعلیم دینے کے لئے بروقت کوشیش کرتے رہتے ہیںتاکہ اس
ملک کے نونہال وطن اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کر دار
ادا کر سکیںاور صنعتی شعبے میں پڑ ھے لکھے اور ہنر مند افراد کے آ نے سے
جہاں کام کی کو الٹی بہتر ہو تی ہے بلکہ ہنر مند اور پڑ ھے لکھے لوگ ملک
کاوقت بچانے میں بھی کام کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آ ج دنیا کہاں کی کہاں
پہنچ چکی ہے اور چاند سورج پر کمندیں ڈال رہی ہے مگر افسوس! صد افسوس قیام
پاکستان سے لے کر آ ج تک کسی نے بھی تعلیمی شعبے کو اہم نہیں سمجھااور نہ
ہی اس بارے میں کو ئی جامع حکمت عملی اپنا ئی جس کی وجہ سے یہ شعبہ آ ج تک
زوال پذیر ہی ہے اور آج حالا ت اس بدتر نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یہاں پڑھائی
کا مطلب صرف گدھے کی طرح کتابیں اٹھانا ہی رہ گیاہے تعلیم ملک سے ختم ہو
چکی ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ بلکہ تعلیم سے بیزاری ہمارے طالب علموں کے چہروں
سے واضع نظرآ تی ہے اور ان طلباکے بس یہی مشاغل پسندیدہ ترین رہ گئے ہیں جن
میں اپنے ادارے سے باہر نکل کر تماشے لگانا ، سگریٹ پینا،شیشہ گھر میں سوٹے
(حقہ پینا)لگانا اور اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ سے کھانے کا چسکہ پورا کرنا
بھی سر فہرست رہ گیا ہے اور تواور جب میڑک کے بعد کالج جانے کے لئے تھوڑی
سی آ زادی ملتی ہے تو مسافربھری گاڑیوں کو روکنا اور بدمعاشنہ رویہ اپنانا
ہمارے طالب علموں کی عزت و وقار کا مسئلہ بن چکا ہے اور شہزادوں کی طرح
مرضی کے خلاف اپنی پسندیدہ جگہ پر گھڑی لے جانااور شہزادوں کی طرح اس سے
اترنا عام کی بات سمجھی جا رہی ہے اور یہی ان کے تمام کے تمام تعلیمی سال
میں کامیابیاں نظرآ تی ہیںاور جو ان کاموں سے بچ جائے اور اعلی تعلیم حاصل
کر تے کر تے کسی یونیورسٹی تک پہنچ جائے تو وہاں نام نہاد طلباءتنظیموں کا
شکا ر ہو کر اور فرقے بازی میں پڑ کر خود کو برباد کر بیٹھتا ہے چلیئے آ ج
ان طلباءتنظیموں کے کردار کو دیکھتے ہیں کہ ان کے ناہو نے سے ملک میں کو ن
سی قیامت آ جا تی ہے کو ن سی ملکی ترقی رک جاتی ہے اور کون سا حکومتی نظام
ختم ہو جاتا ہے ۔کوئی بھی طالب علم کسی سکول ،کالج یا یونیور سٹی میں اپنی
شخصیت کا نکھارنے جدید ترین علوم اور تعلیم حاصل کر نے کے لئے،اپنی سیرت
کردار، افہام تفہیم کر بہتر کرنے کے لئے ان جگہوں پر جاتا ہے اور استاتذہ
کرام وہ ہستی وہ شخصیت ہو تے ہیں جو ان نونہال وطن کو ہر شر، ہر بڑائی
بھلائی، گناہ ثواب، عزت، قدر، سیرت و صورت، افہام تفہیم ذہن کو کشادہ، کند
کو کندن اور سونے کو ہیرا بنانے کے لئے اپنی تمام کی تمام کوشیش بروئے کار
لاتے ہو ئے ان طالب علموں کو امید کی ایک نئی کرن اورروشن راہ پر اپنے
ہاتھوں سے گامزن کر تے ہیںاور یہاں(سکولوں۔کالجوں یو نیورسٹیوں میں) کو ئی
تفرقہ بازی، اور نہ ہی بازاری زبان استعمال ہوتی ہے ان جگہوں پر ہم صرف
تعلیم اور تعلیم لینے جاتے ہیں تو پھر ان نام نہاد طلباءکی فلاحی
تنظیموںاور ان کے کارکنوں کا کیا مقصد ان تعلیمی جگہوں پر رہ جاتاہے؟؟یہ
بات قابل غور ہے کہ صرف طالب علم اور تعلیمی درس گاہ کا رشتہ صرف تعلیم اور
تعلیم ہے کوئی اور غرض اس میں داخل نہیں ہو تی اور نہ آ ج تک ہو ئی ہے۔اور
با ت یہاں سے ہی قابل ذکر نظرآ نے لگتی ہے کہ یہ تمام کی تمام نام نہاد
تنظیمیں اور ان کے کارکن صرف اور صرف اپنا وقت گزارنے ان جگہوں پر آ تے ہیں
اور اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لئے اوراپنی دہشت پھیلانے کے لئے ایسے
اقدامات کر تے ہیں جو بعد میں ملک کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں اور یہی
کچھ چند دن قبل ملک کی ایک نجی یونیو رسٹی میں ہوا طلباءتنظیموں کی آ پسی
تقرار نے جہاں تعلیمی ماحول کو خراب کیا وہاں استاتذہ کرام کو اور ان کی
عزت و حرمت کو بھی ان لوگوں نے روند دیا راقم پہلے بھی اپنے ملک کے طلباءکے
غیر اخلاقی رویے اورجوانی کے خون کی گرمی کے بارے میں کئی بار لکھ چکا ہے
جو کہ کالج آ تے ہی سر انجام دینے شروع کر دیتے ہیںاور یہی دہشت پسند طبقہ
بعد میں سیاسی جماعتوں کی حمایتوں میں استعمال ہو تاہے اور تمام کے تمام
محب وطن لیڈر بھی ان کو ساتھ ملانے کا عزم اپنے جلسے و جلوسوں میں کرتے ہیں
اور اپنے نعرو ں سے ان کو اپنی طرف متوجہ کر تے ہیں اور یہ طلباءاپنی تعلیم
کو چھوڑ کر ان سیاست دانوں کے ساتھ ہو چلتے ہیں غرض نہ تو ان تنظیموں کی
طالب علموں کو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی وجہ سے کو ئی کام رک جاتاہے
نا ہی ان کی وجہ سے کسی کا سائنس کا پریکٹیکل ہو جا تا ہے اور نہ ہی فزکس
کے نمبرز بڑھ جاتے ہیں اور نہ ہی کسی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملتی ہے بلکہ ایک
طالب علم اور کالج ،یونیورسٹی کا رشتہ صرف تعلیم دینے اور لینے تک ہو تا ہے
طالب علم چاہے کئی بار سوال پوچھے ٹیچر کا کام بتانا ہوتا ہے اور وہ بتاتا
بھی ہے تو پھر ان تنظیموں کو ختم کر دینا ہی بہتر ہے اور آئندہ سے ملک میں
ان تمام نام نہا د تنظیموں پر پابندی ہو نی چاہیئے کہ وہ نا تو اپنے
کارنامے جاری رکھیں گی اور نہ ہی کوئی تنظیم سازی ہو گی کیونکہ یہ صرف اور
صرف ملک میں اپنی دہشت پھیلاتی ہیں لوگوں اور طلباءکو گمراہ کرتی ہیں ان کے
مقصد حیات سے ان کو دور کرتی ہیںجب کہ طلباءکی کوئی خدمت نہیں کرتیں اور نہ
ہی طلباءکو ان کی کو ئی ضرورت ہے٭٭٭٭ |