برطانیہ میں مقیم پاکستانی شاعر
نعیم حیدر کے اعزاز میں سرگودھا اور میانوالی میں تقریبات اور ریڈیو
پروگرام
دیار غیر میں مقیم کئی پاکستانی یورپ میں رہتے ہوئے بھی اپنے کلچر اپنی
ثقافت اور اپنی زبان کی نہ صرف حفاظت کرتے ہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے
شبانہ روز کام بھی کر رہے ہیں ۔ نعیم حید ر کا تعلق اٹک سے ہے مگر وہ ایک
عرصہ سے یوکے میں مقیم ہیں اور وہاں اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ اردو زبان و
ادب کی ترویج کے سلسلہ میں بھی کوشاں ہیں ۔ وہ لفظوں کو اپنی انگلیوں پر
نچانے کے علاوہ لفظوں میں موسیقیت بھی تلاشنے کا ہنر جانتے ہیں اس کے علاوہ
رب العزت نے انہیں مترنم آواز سے مالا مال کیا ہوا ہے ۔ وہ نہ صرف شاعری
کرتے ہیں بلکہ انہیں کمپوز کر کے خود گاتے بھی ہیں ۔ انھوں نے کئی غزلوں کی
بہت اچھی دھنیں بنا کر گائی ہیں ۔ ان کا کلام کئی معروف گلوکاروں نے بھی
گایا ہے۔ ان کا اولین شعری مجموعہ ’’ تم سے مل کر ‘‘ ماورا پبلشر نے بڑے
اہتمام سے شائع کیا ہے ۔ گزشتہ دنوں جب وہ پاکستان تشریف لائے تو سرگودھا
کے معروف صحافی ملک امیر افضل نے انہیں سرگودھا آنے کی دعوت دی اور ان کی
کتاب ’’ تم سے مل کر ‘‘ کی تقریب رونمائی پاکستان ادب اکادمی کے زیر اہتمام
پریس کلب سرگودھا میں منعقد ہوئی ۔ جس کی صدارت یونیورسٹی آف سرگودھا کے
وائس چانسلر پر وفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے کی ۔ ایڈیشنل کمشنر سید
مبشر حسین مہمان خصوصی تھے ۔ اعزازی مہمانوں میں صدر پریس کلب اشرف ندیم،
سابق ممبر قومی اسمبلی الحاج محمد اسلم کچھیلا ، سابق میئر سرگودھا حامد
حمید ، سماجی رہنما مرزا محمد الیاس ، مرزا محمد اسلام ، اور ممتاز ماہر
تعلیم پر وفیسر صاحبزادہ عبدالرسول شامل تھے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہارون
الرشید تبسم نے انجام دئیے ۔تلاوت قرآن پاک کی سعادت قاری خالد سیف اللہ نے
حاصل کی جبکہ ہدیہ نعت ذوالقرنین علی نے حاصل کی ۔’’ تم سے مل کر ‘‘کے شاعر
اور کتاب کے بارے میں امیر افضل ملک ، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ، ممتاز
عارف ، اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان خالد اقبال ، صاحبزادہ عبدالرسول اور
اشرف ندیم نے اظہار خیال کیا ۔
امیر افضل ملک نے کہا کہ دیار غیر میں ملنے والے اجنبیت کے احساس نے جہاں
انہیں اپنے اندر جھانکنے پر مجبورکیا وہاں یاد ان کی شاعری کے مرکزی
استعاروں میں شامل ہوگئی ۔ وطن کی یاد ہو کہ والدہ یا والدمحروم کی یاد
انھوں نے ہر واردات قلبی کو لفظوں کا پیرہن دے کر شاعری کا روپ بخشا ۔وطن
کی یاد میں انھوں نے کئی ملی گیت لکھے ۔ نعیم حیدر کی تم سے مل کر جدید
شاعری تخلیقات کے درمیان نہ صرف خوشگوار پر اعتماد اضافہ ہے بلکہ ان کی
اولین شعری کاوش ہے ۔ اس سے ان کی ادبی راہوں کا تعین بھی ہو سکے گا ۔ ۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے کہا کہ ’’ تم سے مل کر ‘‘ شعری سفر میں نعیم
حیدر ،وفا ، پیار ، بہار ، آئینہ ، رابطہ ، زندگی ، خواب ، کہکشاں ، چاند ،
پتھر ، انسان ، محبت ، عشق ، گھر ، عمل ، تبسم ، خوشبو ، آنچل ، خاموشی ،
سفر ، تماشا ، ہاتھ ، ہجر ، صبا ، چاندنی ، پھول ، روشنی ، جدائی ، اداس
ایسے لفظوں سے اتنی خوبصورت شیرازہ بندی کرتا ہے کہ قاری اس کا ہمسفر ہو
جاتا ہے ۔ وطن سے دور برطانیہ میں مغرب زدہ ماحول کے باوجود اردو غزل کی
روایات کو برقرار رکھنا نعیم حیدر کاکمال ہے ۔ ولایتی شراب کی بوتل میں
دیسی لفظوں کا آب حیات نعیم حیدر کا ہی حصہ ہے ۔ نعیم حیدر کے ہاں سادگی ،
روانی ، سلاست ، سہل ممتنع موسقیت او رجدید شعری رویے موجود ہیں انھوں نے
نہ صرف دل بہلا یا بلکہ یاد کو سینے سے لگا کرجینے کا سہارا ڈھونڈ لیا ہے ۔
ممتاز شاعر و ادیب ممتاز عارف نے کہا کہ نعیم حیدر بنیادی طور پر غزل کے
شاعر ہیں لیکن نظم اورگیت بھی بڑی عمدگی سے لکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں
بلبل کی آواز کا سوز و گداز ، کوئل کی کوک کا کرب ، چڑیوں کی چہکار کی
پاکیزگی ، کلیوں کی چٹک کی لطافت ، آبشاروں کی روانی کا سحر ، دریاؤں کے
بہاؤکی دلفریبی ، بہتی ندیوں کی گنگناہٹ ، بارش کی رم جھم کی مہکار اور
گھڑی کی ٹک ٹک کی گزرتے لمحوں کا احساس اجاگر کرنے والی صدائیں جا بجا
محسوس کی جا سکتی ہیں ۔ نعیم حیدر لمحہ موجود میں رہتے ہوئے بھی نہ صرف یہ
کہ اپنے ماضی سے جڑا ہوا ہے بلکہ مستقبل پر بھی اس کی گہری نظر ہے ۔ خالد
اقبال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نعیم حیدر کے ہاں رومانویت کا عنصر بدرجہ
اتم موجود ہے ۔ ان کی شاعری میں وطن سے دوری اور اپنوں کی یادوں کی کسک بھی
ملتی ہے ۔ نعیم حیدر یوکے میں رہنے کے باوجود اپنی مٹی اور اپنے کلچر سے
بہت جڑے ہوئے ہیں اور یہی تعلق ان کو ایک دن شہرت کی بلندیوں پر لے جائے گا۔
میری دعا ہے کہ نعیم حیدر ہمیشہ اسی طرح فعال رہے اور ادب کی خدمت کرتا رہے
۔
صاحبزادہ عبدالرسول نے کہا ہے کہ نعیم حیدر کی شاعری میں دیار غیر میں رہتے
ہوئے اپنے وطن کی یاد اپنے ملنے والوں کی یاد کا عنصر بہت زیادہ ملتا ہے ۔
نعیم حیدر کے ہاں رومان بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی نبض پر ہاتھ
بھی بڑے مضبوطی سے رکھے ہوئے ہیں ۔ نعیم حیدر نوجوان ہونے کے باوجود بہت
پختہ شاعری کر رہا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے فن سے خلوصِ نیت سے
ریاضت کر رہا ہے ۔ ان کی غزلوں میں بہت سی غزلیں بہت مترنم ہیں آدمی خواہ
مخواہ پڑھتے ہوئے گنگنانا چاہتا ہے ۔ نعیم حیدر انسانی رویوں کو نہ صرف
قریب سے دیکھتے ہیں بلکہ انہیں شعروں کا روپ بھی دینے میں ذرا دیر نہیں
لگاتے اور انسان کو انسان سے بیزار ی کی وجہ تلاش کرنے میں سرگرداں دکھائی
دیتے ہیں ۔اشرف ندیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ نعیم حیدر غزلیں محبت کے حسین
جذبوں میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔ بعض اشعار تو آنکھوں کے راستے سیدھے دل پر اثر
کرتے ہیں اور انہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
ایڈیشنل کمشنر سید مبشر حسین نے کہا اظہار رائے کا بہترین اسلوب شاعری ہے ۔
شاعری سے ہم مختصر لفظوں میں بڑی سے بڑی بات کہہ سکتے ہیں ۔ نعیم حیدر کی
شاعری سادہ لفظوں میں گہری باتوں پر مشتمل ہے ۔ محبت معاشرے کالازمی جزو ہے
۔ محبت کا پر چار امن کا راستہ ہموار کرتا ہے ۔ محبت بھرے اشعار سے ہم خلوص
اور وفا کے موتی تقسیم کر سکتے ہیں ۔ شعراء کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے کلا م
میں اخوت و مروت او ر بھائی چارے کے جذبات کا درس دیں ۔ یونیورسٹی آف
سرگودھا کے وائس چانسلر پر وفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے کہا کہ قومی
زبان اردو کے فروغ کے لیے شاعری نے ایک کلید ی کردار ادا کیا ۔حسن الفاظ
اور حسن معانی کا ذخیرہ شاعری ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ دیار غیر میں رہنے والے
شعراء کرام وطن کی مٹی سے کبھی فراموش نہیں رہتے ۔ وطن کی یاد سے ان کی
یادوں کا گلستاں مہکتا رہتا ہے ۔وہ دوسروں کادرد اپنے سینے میں محسوس کرتے
ہیں ۔ نعیم حیدر ایک عرصہ سے یورپ میں مقیم ہونے کے باوجود اردو زبان و ادب
کی جس طرح آبیاری کر رہا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ نعیم حیدر سفیر اردو ہے جو
دیار غیر میں اپنی قومی زبان اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہے ۔ اردو کے فروغ
میں شعرا نے ہمیشہ ہراول دستے کا کام کیا ہے ۔ان کا شعری مجموعہ ’’ تم سے
مل کر ‘‘ اردو پنجابی اور ہندکوزبان پر دسترس پر آئینہ دار ہے ۔’’ یاد‘‘ن
کی شاعری کا ایک ایک استعارہ ہے انھوں نے چھوٹی بحر میں بڑی گہری باتیں کی
ہیں ۔ نعیم حیدر نے پاکستان ادب اکادمی اور پریس کلب کے اراکین کا شکریہ
ادا کیا۔ انھوں نے امیر افضل ملک کے ساتھ اپنی یاد اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے
اسے خوشگوارقراردیا۔ انھوں نے کئی غزلیں ترنم کے ساتھ پیش کیں ۔ شاعری کے
علاوہ اپنی دیگر مصروفیات و مشاغل کا تذکرہ کیا ۔
قبل ازیں وہ باغ جناح سرگودھا میں میڈیا کلب کے دفتر میں تشریف لے گئے ۔
میڈیا کلب کے صدر نعیم اختر خان ، عبدالحنان چودھری ، ظہور احمد شائق ، ،
سیف خان ، خواجہ شجاعت ، محمد تنویر ، منظور قادر بھٹی، قیصر شکیل، امیر
افضل ملک اور مہر طارق عزیز نے ان کی شخصیت اور فن پر اظہار خیال کیا ۔
نعیم حیدر ریڈیو پاکستان سرگودھا کے پر وگرام ’’ شہر کے لوگ ‘‘ میں بھی
شریک ہوئے ۔پروگرام پروڈیوسر محترمہ فریحہ کنول ، اسٹیشن ڈائریکٹر خالد
اقبال ، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اور ممتاز عارف نے ان کا خصوصی شکریہ ادا
کیا۔ نعیم حیدر دوران تعلیم اور برطانیہ میں اپنی تمام سرگرمیوں پر روشنی
ڈالی انھوں نے سامعین کو بتایا کہ شعر و سخن کا ذوق سکول کے زمانے سے شروع
ہوا جو کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ کر رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا ۔ کبھی
کبھار کوئی شعر یا غزل لکھ کر ترنم سے سناتا تو دوستوں سے دادتحسین پا کر
طمانیت کا احساس ہوتا ۔ تاہم شاعری کا باقاعدہ سفر برطانیہ جاکر شروع ہوا ۔پیاروں
کی جدائی ، وطن سے دوری اور دیار غیر میں اجنبیت کا احساس اس سفر کا محرک
ثابت ہوا۔ کبھی کبھار اپنی ذات کے شکستہ درودیوار سے باتیں کرتا تو کبھی دل
کی وادیوں میں محبتوں کی قوس وقزح ، رنگ و نور کا ایک طلسمی منظر پیش کرتی
۔ ایک عجیب سی کیفیت سے خود کو دوچار پاتا ، اسی کیفیت نے جب اظہار کا رستہ
تلاش کرنا چاہا تو شاعری نے اپنی بانہیں کھول کر اس خوبصورت کیفیت کو اپنے
گلے لگا لیا ۔
میانوالی علم و ادب کے حوالے سے ایک فعال خطہ ہے ۔معروف ادیبہ، سہ ماہی’’
تمام ‘‘کی مدیرہ محترمہ ارم ہاشمی نے ایک شاندار شعری نشست کا اہتمام
میانوالی کے سٹی سکول کے خوبصورت ہال میں کیا ۔ اس شعری نشست کو نعیم حیدر
اور محترمہ ثمینہ گل کے اعزاز میں سجایا گیا تھا جبکہ صدارت سہ ماہی ادبی
مجلہ ’’ اسالیب ‘‘ سرگودھا کے مدیر ، معروف شاعر و نقاد ذوالفقاراحسن نے کی
۔ نظامت کے فرائض انوار حسین حقی نے بخوبی انجام دیئے ۔ سٹی سکول کے طلبا و
طالبات نے تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبولؐ بارگاہ رسالت مآب میں پیش
کیے ۔ ہال رنگا رنگ بینرز ، پلے کارڈ ز اور دیواروں پر نقش و نگار سے ایک
الگ بہار دکھا رہا تھا ۔ اسی روز ہونے والی بارش سے موسم بہت خوشگوار ہو
چکا تھا ۔ ڈاکٹر محمد آصف مغل ، ظہیر شاہ ، نذیر درویش ، وقار احمد ملک ،
اور دیگر مقامی شعراء نے کلام پیش کیا ۔میانوالی کی اہم شخصیات میں ذکاء
اللہ قریشی ، ندیم عباس بخاری ، دلشاد خان ، اویس ذوالفقار،مدیر اعلیٰ ’’
امیر شہر ‘‘ سرگودھا ممتاز صحافی ا میر افضل ملک اور ڈائر یکٹر انفارمیشن
آفیسر میانوالی تنویر خالد نے بھی شرکت کی ۔ ثمینہ گل نے کہا کہ میں سب سے
پہلے تو محترمہ ارم ہاشمی کی شکر گزار ہوں جنھوں نے ہمارے لیے آج کی یہ
محفل سجائی ۔ ثمینہ گل نے کچھ غزلیں اور نظمیں سنائیں حاضرین نے خوب داد
نچھاور کی۔ اس کے بعد نعیم حیدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں سہ ماہی ’’
تمام ‘‘ کی مدیرہ کا ممنون ہوں جنھوں نے آج کی اس تقریب کا اہتمام کیا۔
نعیم حیدر نے اپنا کلام سنایا اور جب کچھ غزلیں ترنم سے پڑھیں تو محفل ان
کی خوبصورت آواز سے جھوم اٹھی ۔ اللہ تعالیٰ نے نعیم حیدر کو اچھی آواز سے
بھی نواز ا ہے ۔ وہ اپنی غزلوں کی خود دھن تیار کر کے خود ہی گانے کا ہنر
بھی جانتے ہیں ۔ نعیم حیدر نے اپنے ترنم سے محفل پر سحر طاری کر دیا ۔
ابھرتے ہوئے نوجوان نقاد، شاعر اور سہ ماہی ’’ اسالیب ‘‘ کے مدیر
ذوالفقاراحسن نے خطبہ صدارت میں کہا ہے آج کل ہر طرف فضائی آلودگی کا شور
ہے مگر میرے خیال میں فضا کی آلودگی سے زیادہ رویوں کی آلودگی انسان کے لیے
زیادہ خطرے کا باعث ہے کیونکہ فضا آلودہ ہو تو سانس لینے میں دشواری ہوتی
ہے اور جب یہ آلودگی رویوں میں در آئے تو روح کی قاتل بن جاتی ہے ۔ محبت کے
حسین جذبات نفرتوں کی آلودہ فضا میں پرورش پاتے ہیں جو آنکھ دریچوں میں جنم
لینے والے خواب تعبیر کی پہلی سیڑھی پر ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔فضا کی اس
آلودگی کو کم کرنے کے لیے ارم ہاشمی نے نعیم حیدر اورثمینہ گل کے اعزاز میں
تقریب کا اہتمام کیا ہے۔نعیم حیدر نے غزل کے ساتھ ساتھ گیت ، اور نظم میں
بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ نعیم حیدر کے ہاں ’’ محبت ‘‘ کا استعارہ ایک بنیادی
اہمیت کا حامل ہے ۔ وہ وطن سے دوری کا کرب اپنے شعروں میں بیان کر تے ہیں
اور اپنوں کے بچھڑنے کا غم بھی سینے میں محسوس کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں
محبت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ مجھے امید ہے کہ انھوں نے اسی طرح ریاضت
کا سفر جاری رکھا تو بہت جلد منزل کو پا لیں گے ۔ ذوالفقاراحسن نے مزید کہا
کہ ثمینہ گل نے بہت جلد اپنا ایک حلقہ احباب بنا لیا ہے ثمینہ گل نے بہت
قلیل عرصہ میں بہت زیادہ سفر طے کر کے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے ۔ذوالفقاراحسن
نے خطاب کے بعد اپنی تازہ غزلیں اور پنجابی کلام بھی سنایا اور خوب داد
وصول کی ۔تقریب کے آخر میں مہمانوں کو سٹی فلاور ہوٹل لے جایا گیا جہاں ان
کے اعزاز میں پر تکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔
اہل میانوالی نے اس عظیم پاکستانی کو پر تپاک انداز میں نہ صرف خوش
آمدیدکہا بلکہ انہیں اخبارات میں بھی پذیرائی بخشی ۔ علم و ادب کی خدمت میں
سرگرداں محترمہ ارم ہاشمی نے اپنے زیر ادارت میانوالی سے شائع ہونے والے
ادبی مجلہ سہ ماہی ’’ تمام ‘‘ کا اپریل تا جون 2012 ء خصوصی شمارے کا ایک
گوشہ نعیم حیدر کے نام کر کے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی ۔ سہ ماہی’’ تمام
‘‘ نے قلیل وقت میں ادبی حلقوں کو اپنے حلقہ دام میں شامل کر لیا ہے ۔ اس
ادبی مجلہ میں نعیم حیدر کے اس گوشے کو بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا ہے ۔ ادارہ
’’ تمام ‘‘ نے نعیم حیدر سے ایک خوبصورت مکالمہ کیا ہے ۔ اس کے بعد نعیم
حیدر کے بارے میں مختلف اہل دانش کی آراء موجود ہیں اور نعیم حیدر کا منتخب
کلام اس گوشہ خصوصی زینت ہے ۔ ’’ تم سے مل کر ‘‘کا انگریزی تعارف ، سکاٹ
لینڈ کے مشاعرہ میں نعیم حیدر کی شرکت اور ان کی سرگرمیوں کا خصوصی تذکرہ
اس گوشہ میں موجود ہے ۔ نعیم حیدر کی پاکستان کے مختلف علاقوں میں خصوصاً
میانوالی اور سرگودھا میں منعقد ہونے والی تقریبات اس بات کی غماز ہیں کہ
صلاحیتیں پھول کی مانند ہوتی ہیں ۔ جن کی خوشبو اپنا راستہ خود تراش لیتی
ہے ۔المختصر نعیم حیدر ایک عرصہ کے بعد پاکستان آئے اور اپنے مداحوں کے دل
مسخر کر گئے ۔ |