اسلامی جمعیت طلبہ طاغوت کے نشانے پر

 ایک بار پھر اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں یہ نیا سلسلہ اس وقت شروع ہو ا جب مبینہ طورپر پنجاب یونیورسٹی کے چند اساتذہ (ویسے خونی بھیڑیوں کو استاد کہنا اس مقدس پیشے کی توہین ہے ) کی معاونت سے ایک اوباش نوجوان نے جمعیت کے رہنما اویس عقیل کو یونیورسٹی کے اندر سر عام گولیاں مار کرشہید کردیا اور اس کے بعد بغیر کسی رکاوٹ کے وہاں سے فرار ہو گیا ۔وہاں کے گارڈ ز خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے ۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا کیونکہ جمعیت تو ہمیشہ سے طاغوت کے نشانے پر رہی اور ا سکے رہنما اپنا گرم لہو پاکستان اور امت مسلمہ کےلئے پیش کرتے رہے حالیہ واقعہ بھی ان دشمنان اسلام وپاکستان کے خوف کی عکاسی کرتا ہے جو پیچھے بیٹھ کر ٹرائیگر دبا رہے ہیںکیونکہ ان کے مذموم اور مکروہ عزائم میں واحد اسلامی جمعیت طلبہ ہی رکاوٹ ہے جو طلبہ کے حقوق کی حقیقی محافظ ہے پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی قوت سے خوفزدہ وفاقی وصوبائی حکومت کے نمائندوں کی سازشیں اور ہٹ دھرمی جمعیت کوکمزور کرنے کی بجائے اسے مزید مضبوط اور توانا کررہی ہیں کیونکہ ہمیشہ آزمائشوں کی بھٹیوں کے بعد ہی مومن کندن بنتا ہے جمعیت پر تشدد٬ زبردستی اور اساتذہ کی توہین کے الزام لگے ۔اس جمعیت پر ٬ جس نے تکریم اساتذہ کی ایسی تابندہ مثالیں قائم کیں کہ جب بھی کسی استاد پر کوئی وار ہوا اس کے کارکنا ن نے وہ وار اپنے سینے پرروکا ۔تکریم اساتذہ کا صرف دن ہی نہیں منایا بلکہ ہر موڑ پر اس کا عملی ثبوت بھی دیا ۔جمعیت کی تاریخ نا م نہاد دانشور وں کے الزامات کی تردید کرتی نظر آتی ہے ۔ جمعیت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے جب برادرم سراج الحق ناظم اعلیٰ تھے جمعیت کے ذمہ داران کےلئے وہ بڑا کٹھن دور تھا طاغوتی اور سیکولر قوتیں کارکنان کو تشدد کا نشانہ بناتیں لیکن حکم تھا کہ آپ نے اس کا جواب تشدد سے نہیں دینا برادرم سراج الحق ایک مرتبہ پنجاب کے دورے پر آئے تو ایک اجتماع میں کارکنان آبدیدہ ہوگئے کہ ناظم صاحب آپ نے ہمارے ہاتھ باندھ دئیے لیکن اب ظلم حد سے بڑھ گیاہے ہمیں بدلہ لینے کی اجازت دیں لیکن انھوں نے اس کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیااور تشدد کے جواب میں پرامن طریقے سے قرآن وسنت کی دعوت دینے کی کوششوں کو جار ی رکھنے کا حکم دیا ایسے حالات کے حوالے سے مجھے وہ واقعہ بھی یاد آرہا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ” ایک غلام صحابی رسول جن کی مالکہ نے انگاروں کا بستر دہکا کر اس پر انھیں پیٹھ کے بل لٹایا جس سے ان کی پیٹھ جل گئی تھی اور بیت اﷲ میں نبی ﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ یا رسولﷺظلم حد سے بڑھ گیا ہے اﷲ کی مدد کب آئے گی تو نبی بیت اﷲ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے آپ نے ٹیک چھوڑ دی اور آپکا چہرہ مبارک سرخ ہو گیااور کہاکہ ابھی سے بے صبرے ہوگئے تم سے پہلے راہ حق پر چلنے والوں کوزمین میں آدھا گاڑ کر آروں سے چیر دیا جاتا تھالوہے کی کنگھیوں سے ان کے جسم کے گوشت کو نوچا جاتاتھا لیکن یہ مظالم انھیں راہ حق سے نہ ہٹا سکے پھر نبی مہربانﷺ نے انھیں خوشخبری سنائی کہ ایک وقت آئے گاکہ صنعا سے حضر موت تک خاتون اکیلی سفر کرے گی اور اسے اﷲ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا“یہاں بھی نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی وہی سنت کارکنان جمعیت نے زندہ کی کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ناظم کی حکم عدولی ہوجائے بے شمار ایسے واقعات ہوئے کہ جمعیت کے کارکنان نے طاقت ہونے کے باوجود اپنے ہاتھ بندھے محسوس کئے یونیورسٹیوں اور کالجز کے بدمعاش گروہوں کا تشدد سہتے رہے اور جواب میں نبی اقدس ﷺ کی میراث قرآن وسنت کی دعوت دیتے ہوئے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اﷲ کے حضور ان کی ہدایت کی دعائیں مانگتے رہے جمعیت کی تاریخ اور روایات کو جاننے والا کوئی فرد یہ تصور بھی نہیں کرسکتایہ تنظیم بھی دیگر تنظیموں کی طرح کبھی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کرسکتی ہے ۔

جس طرح کی قربانیاں جمعیت نے اس نظریاتی مملکت کےلئے دیں اپنے قیمتی نوجوان اسلام اور پاکستان کےلئے قربان کئے یقینا وہ اسی کی روایات ہیں” تحریک ختم نبوت“ کا ذکر ہوتا ہے تومیرے سامنے ربوہ سٹیشن پر خون میں لت پت بے ہوش پڑے جمعیت کے نشتر میڈیکل کالج میں یونین صدر ارباب عالم اوران کے 135 ساتھیوں کی تصویریں آجاتی ہیں جنھیں30مئی 1974ءکی نوائے وقت کے مطابق2000قادیانی غنڈوں نے سریوں سے مارکر مارکر محض اس لئے لہو لہان کردیا تھا کہ وہ ”رہبر ورہنما ....مصطفی مصطفی “کے فلک شگاف نعرے لگاتے تھے ان کا جرم یہ تھا کہ نبی ﷺکے منکر ین کا طلبا ءمیں تقسیم کیا گیا ”الفضل “میگزین پرزے پرزے کرکے ہوا میں بکھیر دیا تھا .... اور پھر وہ جمعیت ہی تھی جس نے جوابی تشدد کی بجائے امن کی راہ اختیار کی حالانکہ مقابل غیر مسلم تھے لیکن اس کے باوجود انتقام کی بات نہیں کی بلکہ جمہوری انداز میں اپنے ناظم اعلٰی ظفر جمال بلوچ ٬لیاقت بلو چ ودیگررہنماﺅں کی قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک شروع کی اس کو عروج پر پہنچایا پورے ملک میں اجتماعات اور ریلیوں کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا کہ قادیانی محمد عربی ﷺ کا منکر ہے اور پھر علماءکے تعاون سے قادیانیوں کو غیر مسلم قراردلو انے میں اپنا کردار ادا کی....جیلنڈر پوسٹن جرمنی میں موجود گستاخ رسولﷺبیورو چیف پر خنجر سے وار کرکے جہنم واصل کرنے والا راولپنڈی کے پروفیسر نذیر چیمہ کا سپوت اور پوری امت مسلمہ کا ہیرو عامرعبدالرحمن چیمہ شہید اسی جمعیت کا رفیق تھا اسی تربیت کی بدولت وہ محمد عربی کی شان میں گستاخی برداشت نہ کرسکا اور شاتم رسول کو واصل جہنم کر کے اپنا تمام کیرئیر داﺅ پر لگا کر اپنی جان پر کھیل گیا (اطلاعات کے مطابق وہ ملعون گستاخ رسول اس وقت زہر میں بجھے خنجر سے زخمی ہوا تھا اور بعد میں مردار ہو ا)یہ جمعیت ہی کا دیا ہوا سپرٹ اور اﷲ کی مدد تھی کہ شہید نے نہ صرف گستاخ رسول کوواصل جہنم کیا بلکہ جرمن پولیس کی تفتیش کے دوران ایک پولیس آفیسر نے اس کے سامنے نبی اقدس ﷺکے بارے میں مغلظات بکیںتو محمد الرسولﷺ کے سچے عاشق نے اس وحشی درندے کے منہ پر تھوک دیا تھااور پھر اس کے بعد تشدد کا دور شروع ہواجس نے بالآخر اس کی جان لے لی(اﷲ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے( آمین) جمعیت نے ناموس رسالت اور اسلام کی حرمت پر کٹ مرنے والے لاکھوں فرزاندان اسلام کو تیار کیا جو افغانستان ٬کشمیر کے جہاد میں اپنا کردار اداکرتے ہوئے اپنی جانیں قربانیں کرچکے ہیںاور پاکستان میں اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی انقلاب کےلئے بھی اپنی جان کی قربانیوں کی تاریخ رقم کی آج تک ایم کیو ایم اور ہر دور کے حکومتی غنڈو ں نے تو جمعیت کے کارکنان کو شہید کیا لیکن جمعیت کے قیام23 دسمبر1947ءسے آج تک کوئی ایک کیس بھی ایسا ثابت نہیں کہ جمعیت نے کسی معصوم انسان کی جان لی ہو۔ ....1971ءمیںپاکستا ن کی بقاءاور تحفظ کےلئے اسلامی جمعیت طلبہ کے شاہینوں نے البدر و الشمس کے نام سے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی جس کی مثال صدیوں میں ملتی ہے اس کی ہلکی سی جھلک سلیم منصور خالد کی اس تحریر سے واضح ہوتی ہے ”سقوط مشرقی پاکستان کے 8برس بعدجب میں اپنے ایک بنگالی دوست کے ہمراہ سائیکل رکشا پرڈھاکہ یونیورسٹی اور ریس کورس گراﺅنڈ کی درمیانی شاہراہ سے گزر رہا تھا تو اپنے رفیق سفر سے پوچھا :آپ سے البدر میں شامل (شہید) دوستوں کے بارے میں کچھ تفصیل جاننا چاہوں گا اس سوال پر اس کا ہشاش بشاش چہرہ اداس ہوگیاآنکھیں اشک آلود ہوگئیںریس کورس کی جانب اس نے درد بھری نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے کہنے لگا........”اگر تم البدر کے شہیدوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہوتو یہ بتانے کی مجھ میں سکت نہیںمیں جب اس ظلم واستبداد کے بارے میں سوچتا ہوں ٬جس کانشانہ وہ بنائے گئے تو میر ا دل چھلنی ہو جاتا ہے اور روح لرز جاتی ہے میں اس موضوع سے انصاف نہ کرسکوں گااس لئے تم ریس کورس گراﺅنڈ اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی خاموش دیواروں سے پوچھو ٬ان کی بے زبانی اس داستان رنج والم کو بہتر انداز میں بیان کرسکے گی....بھائی میں تصور کرتا ہوں تو اپنے آنسو ضبط نہیں کرسکتا کہ اس سرزمین کا چپہ چپہ ہماری محبوب ہستیوں کے خون سے لہو رنگ ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ ہم اس المیے کا اظہار بھی نہیں کرسکتے قوم ان قربانیوں کی معترف بھی نہیںاور مسلم امت نے اس کی قدر نہیں پہچانی ہم گھر(بنگلہ دیش)میں اجنبی ہیں اور پاکستان میں غیر ملکی....“۔اس کی آواز میں لمحوں کے جبر ٬قربانیوں کی ناقدری اور سیکولر سیاست کی چنگیزیت کے خلاف مجبوروں کا احتجاج پنہاں تھایہ آشوب تاریخ ہے کہ قوموں نے اپنے محسنوں کی ناقدری کی ہے لیکن مسلمانوں میں ناقدری کی روایت بڑی پرانی اور دردناک ہے۔جو قومیں اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں ٬وہ کسی وقت بھی اپنی آزادی سے محروم ہوسکتی ہیں۔جنوبی ایشیا میں باب الاسلام کھولنے والے نوجوان محمد بن قاسم جو خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید ہو ئے مدتوں مطلق العنان حکمرانوں نے اسے مسلک تاریخ میں جائز مقام نہ دیا۔لیکن وقت نے جب ناانصافی کی گردہٹائی تو ابن قاسم کا روشن چہرہ روشن تر ہو گیااور تاریخ کے اوراق نے اسے سینے سے لگا لیا اور غیر ت مندوں نے اسے حمیت کی علامت بنا لیا“۔

البدر کے کمانڈرزنے ہندو فوج اوراس کی بغل بچہ مکتی باہنی کو انتہائی زک پہنچاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دفاع کیااور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)کے عوام کو ان کے شرسے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اس کی پاداش میں ان کے گھر اجڑ ے ان کی خواتین کو ذبح کیا گیاغرض ہر طرح کے مظالم ان پر ڈھائے گئے لیکن ملک کی سلامتی اور پاکستان کو متحد رکھنے کےلئے ان فرشتہ صفت نوجوانوں نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے 16دسمبر 1971ء کے بعد آل انڈیا ریڈیواور بنگلہ دیش ریڈیونے البدر کے کمانڈروں کی گرفتاری پر انعام کا اعلان کیالیکن جب میر جعفر اور میر صادق اپنے اقتدار کی ہوس کےلئے ”ادھر تم ادھر“ ہم کا نعرہ لگا کر اپنا حصہ وصول کرنے کےلئے ملک کو دولخت کرنے کےلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگادیں تو باہر سے کسی دشمن کو اتنی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور پھرسقوط ڈھاکہ جیسے واقعات رونما ہوجاتے ہیںآج بھی پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہیں دشمن صرف اسلام کی نام لیوا قوتوں سے خوفزدہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کاری وار کرنے سے قبل اپنے آلہ کاروں کے ذریعے ان حقیقی محب وطن تنظیموں کو کمزور کرنے کی سازش کررہا ہے اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے آز مانے والے طاغوت کے آلہ کار بھی رسوا ہوں گے اور اسلام کی نظریاتی مملکت میں اسلامی نظام کا نفاذ شرمندہ تعبیر ہو گا کیونکہ اﷲ کاوعدہ ہے کہ حق ہمیشہ غالب ہو گا اوربے شک باطل مٹنے کےلئے ہے۔
INAM UL HAQ AWAN
About the Author: INAM UL HAQ AWAN Read More Articles by INAM UL HAQ AWAN: 24 Articles with 25206 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.