ان کے تحفظ کیلئے مسلمانوں
پرامریکہ کے ڈرون حملے۔!
صاحب ِ قلم و خادم اسلام۔۔۔۔۔۔ایازمحمود۔!
مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے پوری دنیا میں جہادی
کیمپوں کا قیام عمل میں آرہا ہے۔ اس کیلئے بڑے منظم طور پر ملک ِافغانستان
کو اس کا ایک مرکز بنادیا گیا ہے۔اس ملک کاکنٹرول چند بڑی طاقتوں کے ہاتھوں
میں ہے ۔وہ ہی وہاں کے حکمران طے کرتے ہیں۔ ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ
وہاں کے سیاسی فیصلوں میں ان کا دبدبہ رہتا ہے۔ انہوں نے نا صرف افغانستان
کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے بلکہ دیگر مسلم ملک کے حکمرا ں بھی ان کی
تحویل میں ہے۔مسلم ملکوں پر قبضہ جمانا حالانکہ ان کا مشغلہ ہے۔ مگر وہ یہ
قبضہ ان پر کیوں کرتے ہیں؟۔ کبھی اس پر بحث ہی نہیں ہوئی۔امریکہ کے مسلم
ملکوں میں ڈرون حملے سلسلہ وار کیوں ہورہے ہیں؟ اس پر اصل توجہ ہی نہیں دی
گئی۔ ملکوں پر حملہ کرنے کی بات سمجھ آتی ہے۔ مگر ان پر قبضہ کی بات سمجھ
سے بالا تر ہے؟۔ مسلم ملکوں میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں امریکی و ناٹو
افواج کی تعیناتی کا مقصد کیا ہے؟۔دراصل سچائی یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں
مذہب اسلام کو اسلامی حلیہ میں ہی دھشت گرد مذہب میںتبدیل کرنے کے کام میں
منہمک ہیں۔ اس کیلئے وہ خوبصورت اسلامی ناموں کا سہارا لیتی ہیں۔اور پھر ان
کی پبلیسٹی میڈیا کے ذریعہ کی جاتی ہے۔القاعدہ، طالبان ، لشکر طیبہ ، حذب
المجاہدین و جماعت دعوة کی شکل ان کو دی جاتی ہے۔ ان کے حوالے سے مذہب
اسلام کو دھشت گرد میں تبدیل کرنے و مذہب اسلام کو بدنام کرنے کی غرض سے
جہادی کیمپ تیار کئے جاتے ہیں۔ان جہادی کیمپوں کے تحفظ کیلئے امریکہ نے خاص
طور پر ڈرون طیارے تیار کئے ہیں۔ ان سے جہادی کیمپوں کا تحفظ یقینی بنایا
جاتا ہے۔ان کے اطراف میں ڈرون طیاروں سے حملے کئے جاتے ہیں۔جب ملک کی
حکومتیں ان کا نوٹس لیتی ہے۔ اور اس جگہ کا معائنہ لینے کاپلان مرتب کرتی
ہیں۔تب اس جائزہ ٹیم کو اوران کے سیکورٹی اہل کاروں کو جہادی کیمپوں تک ان
کی رسائی روکنے کیلئے ان پر ڈرون حملے کئے جاتے ہیں۔پاکستان کے 24 نفری
فوجی دستہ پر ڈرون طیاروں سے حملہ کرکے ان کواس لئے ہلاک کیا گیا کہ وہ
مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب بنانے کیلئے چلائے جارہے جہادی کیمپ تک پہنچے
کی تیاری مکمل کرلی تھی۔ جیسے ہی وہ اس کی جانچ کیلئے موقعہ واردات پر
روانہ ہوئے راستہ میںہی ان پر بھیانک حملہ کرکے ان کو شہید کردیا
گیا۔کیونکہ اسلام کے نام کو بدنا م کرنے کا راز فاش ہونے کاخدشہ امریکی
حکمرانوں کو ستا رہا تھا۔اگر پاکستانی فوجیوں کو حملہ کے ذریعہ قتل کرکے نہ
روکا جاتا ہے۔ تو وہاں موجود اس جہادی کیمپ کی حقیقت واضع طور پر سب کے
سامنے آجاتی ۔ اورپھر پاکستان کی حکومت کے پاس امریکہ کے اس گھناﺅنے جرائم
کا ثبوت اس کے ہاتھ میں آجاتا۔کہ امریکہ مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں
تبدیل کرنے کیلئے جہادی کیمپوں کو قیام کرتا ہے۔ اور ان کے تحفظ کیلئے اس
کے اطراف میں ڈرون طیاروں سے حملے کرتا ہے۔ افغانستان میں نو سال سے قابض
امریکی فوج وہاں مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرکے کیلئے جگہ جگہ
اسلام دشمن جہادی کیمپ تیار کر چکی ہے۔جب مسلم عوام ان تک رسائی کرنے کی
کوشیش کرتی ہے۔ توان پر ڈرون طیاروں سے حملہ ہوتا ہے۔مسلم ملکوں میں دھشت
گرد واقعات کی نموداری ان ہی امریکہ کے قائم کردہ اسلام دشمن جہادی کیمپوں
سے جاری ہے۔ ان ہی کے ذریعہ سے مسلم ملکوں کرایہ کے پُر تشدد احتجاج منعقد
کئے جارہے ہیں۔ شام ان کے خصوصی نشانہ پر امریکہ نے ملک شا م میںم مذہب
اسلام کو دھشت مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے وہاں اسلام دشمن جہادی کیمپوں کا
قیام چاہتا ہے۔ وہ اپنے اس کام میںمدد کیلئے کوفی عنان کو اس مہم میں لگا
رکھا ہے۔کہ ملکِ شام میں کسی طرح ان کے گھسنے کا راستہ فراہم ہوجائے بڑی
طاقتوں نے اپنا نمائندہ بنا کر ان کو بار بار ملک شام بھیج رہی ہےں۔امریکہ
نے اپنے کچھ جہادی کیمپ شام قائم کردئے ہیں۔ ان کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے
وہ وہاں فوجی مداخلت چاہتا ہے۔ اس کام میں اس کے ہم نوا ملک اس کا ساتھ دے
رہے ہیں۔مگر شام کے صدر بشارالاسد اپنے ملک میں مذہب اسلام کو دھشت گرد
مذہب تبدیل کرنے کیلئے جہادی کیمپوں کی شدید مخالفت کرر ہے ہیں۔ اس لئے
مغرب ان کے خون کا پیاسہ ہے۔ جہاں جہاں بھی مسلم ملکوں میں کرایہ کے پُرتشد
احتجا ج کے ذریعہ اقتدار کی منتقلی ہوئی وہاں وہاں امریکہ و اسکے اتحادیوں
نے اپنے مجوزہ کیمپ قائم کرلئے ہیں۔ اسی لئے ان کو وہاں القاعدہ و طالبان و
دیگر دھشت گرد لوگ وتنظیمیں نظر آتی ہیں۔ افغانستان میںجب تک امریکہ اس کے
اتحادیوں کی فوج وہاں موجود رہے گی۔ وہاں بدستور مذہب اسلام کو دھشت مذہب
میں تبدیل کرنے والے جہادی کیمپوں کی تعداد میںسلسلہ وار اضافہ ہوتا ہی رہے
گا۔ پاکستان کے جس مقام پر امریکہ کی جانب سے فوجی آپریشن ہوا ۔ وہ جگہ بھی
مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب تبدیل کرنے کیلئے بنایاگیا ایک جہادی کیمپ
تھا۔اس کا راز فاش ہونے والا تھا۔ کہ اس جگہ حملہ کرکے ثبوت مٹائے گئے۔
وہاں اوسامہ کو قتل کرنے کا ایک ڈرامہ کرکے اپنے گناہوںپر پردہ ڈالا
گیا۔گواہ کے طور پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کا نام سامنے لایا گیا۔کہ اس مقام پر
مکارانہ جہادی کیمپ نہیں بلکہ وہاں اوسامہ کی قیام گاہ ہی تھی۔اب جبکہ
پاکستان یہ کہ رہا ہے کہ امریکہ 24 فوجیوں کی ہلاکت پر معذرت خواہی کرے۔مگر
اس واقعہ کے بعد معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے۔ کہ ”
الٹا چور کوت وال ڈانٹے والی بات سامنے آرہی ہے۔ بہرحال یہ مسلمانوں کیلئے
ایک سنگین المیہ ہے۔ کہ مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے
افغانستان ، پاکستان و دیگر اسلام ملکوں میں اسلام و مسلمانوں کو بدنام
کرنے کیلئے جہادی کیمپوں کا پختہ قیام ہوچکا ہے۔ ان کے دفاع و تحفظ کیلئے
ان کے اطراف میں رہنے والے بے قصور مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کا قتل کیا
جارہا ہے۔اور ثابت کیا جارہاہے کہ یہاں دھشت گرد آباد ہیں۔جو کہ امت مسلمہ
کیلئے بہت زیادہ تکلیف کی بات ہے۔پاکستان کے سوات علاقہ میں بھی مذہب اسلام
کوبدنام کرنے کیلئے ایک جہادی کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ اس کو اسلام دشمنوں
کی مدد سے اس علاقہ نامنہاد شریعت نافذ کرائی گئی۔پھر پاکستان حکومت کی
شبہیہ مسلم دنیا اور امت مسلمہ میں خراب کرنے کی غرض سے پاک حکمرانوں کو
حکم دیا گیا کہ وہ اس کو ختم کرے۔پاک حکمرانوں کیلئے مشکل یہ تھی کہ وہ ان
سلامی حلیہ اسلام کے ان رہزنوں پر حملہ کیسے کرے۔مگر خدا کی خفیہ مدد ہوئی
۔اور چند دنوں میں مکارانہ جہادی حکومت کا سوات کے علاقہ سے خاتمہ کردیا
گیا۔۔ جس پر امریکی حکومت چراغ پا ہوگئی کہ اس کا جہادی کیمپ کا کیوں کر
خاتمہ ہوگیا؟۔مسلم عوام نے اس پر احتجا ج کیوں نہیں کیا؟ جس سے ان کے حوصلے
پست ہوگئے۔فی الوقت امریکہ کسی اسلامی حلیہ تنظیم کی اپنی میڈیا سے تشہیر
کرتا ہے۔یا کسی مقام پر ڈرون حملے کرتا ہے تو جان جائیے کہ وہ مذہب اسلام
کو دھشت گرد مذہب میںتبدیل کرنے کے مشن پر ہے۔اور اس طرح وہ مذہب اسلام کے
خلاف صف آراءہے۔امریکہ کے سلسلہ وار حملے صرف اور صرف مذہب اسلام کو دھشت
گرد مذہب بنانے کی ایک منظم تحریک ہے۔جس کو سمجھنے کی مسلمانوں کو سخت
ضرورت ہے۔جس سے مذہب اسلام کو جہاد کی آڑ میں بدنام کرنے کی مہم کو شعوری
بیدار کے ساتھ ناکارہ بنایا جاسکے۔یہ فکر مندی دنیا کے اسلامی تعلیمات
پرفائز تمام اداروں کی بھی ہونی چاہئے۔کہ اب دشمن اسلامی حلیہ میں ہی مذہب
اسلام پر حملہ آور ہے ۔ اس لئے اس کو پہنچاننا بہت زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ
ایسی غوروفکر اس خطہ کے عوام کی بھلائی کیلئے جاری رہنی چاہئے۔ |