ٹپ ٹپ گرتے آنسو

بھائی صاحب :١٤روپے کرائے کادور گیا۔١٦روپے دو ١٢والا زمانہ گیا آیا۔
نوجوان:یار اس صدر کے بچے نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔(ایک دم گاڑی سے دو تین اور آوازیں ایسی ہی درمند اُٹھیں )۔

خیر یہ تو روز کا معمول ہوگیاہے ۔بس ہویا انتظارگاہ،اسپتال ہویا بل جمع کروانے کی طویل قطار ،کہیں بھی دو آدمی مل جائیں ۔مہنگائی ،معاشی پریشان موضوع سخن ہوتاہے ۔کبھی غور کیا کہ ہم کتنی تیزی کے ساتھ فاقہ کشی ،خود سوزی کی رسم کو عام کرنے کی جانب بڑھے چلے جارہے ہیں ۔انسان ان نامساعد حالات کی وجہ سے جرائم کی دنیا میں خود کو جھونکتا چلاجارہاہے ۔ہمارے کتنے ہی پڑھے لکھے نوجوان کسم پرسی کی زندگی سے تنگ آکر موت کو گلے لگالیتے ہیں ۔

دیکھیں گذشتہ سطور میں میں نے بھی یہی رونا رویا ،یہی تبصرہ کیا ۔لیکن اس کے محرک اور اس کا حل کون تلاش کرے گا؟میں آپ یا کوئی مریخ ،پلوٹو ،نیپچون سے کوئی مخلوق ہماری مدد کو اترے گی۔نہیں نہیں یہ سب ہمیں خود ہی کرنا ہوگا۔

محترم قارئین:میں کوئی بہت بڑا معاشیات دان تو نہیں لیکن معاشرے کا فرد ہو۔گردونواح کے حالات دیکھ رہا ہوں ۔عالمی دنیا پر بھی بتوسط میڈیا نظر جاتی ہے ۔کچھ حقائق ہیں جو آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتاہوں ۔

معاشیات دان ،اقتصادیات کے ماہرین کسبِ معاش کے متعلق کچھ اُصول وضع کرتے ہیں ۔جن میں کسب معاش کی راہ آسان، انسانی دسترس میں اور اس کے لیے نفع بخش ہے ۔وہ تین اصول ہیں ۔پہلااصول:دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اپنے لئے وسائل حاصل کرنا دوسر اصول : ایسے طریقے اختیار کرنا جن میں اپنا بھی بھلا ہو، دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے۔ تجارت اِسی ذیل میں آتی ہے :تیسر ااصول :اگر فرد خودمعقول آمدنی تک پہنچ گیا تو دوسروں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے کام کرے ۔

جبکہ بات اسلام کی جائے جو کہ عالمگیر مذہب ہے کسی خاص فرد یا خطہ کے لیے نہیں تو اس کے زریں اصول تو اپنی مثال آپ ہیں ۔لیکن بدقسمتی سے اسلام دنیا میں غالب تو آیا لیکن سرکش انسان نے اس نعمت کی قدر نہ کی میری مراد یہ ہے کہ جومسلما ن تھے ۔بعد میں آکر انھوں نے اسلامی قوانین سے کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھایا اور بیساکھیوں کے عادی ہوگئے ۔دوسروں کے بنائے ہوئے ضابطوں کے مقلد ہوکررہ گئے۔

مذکورہ اصولوں کی اسلام توثیق کرتا ہے۔ مگر انسانوں کی بدقسمتی سے ایک ایسا اصول دنیا میں رائج ہوکر فروغ پاگیا ہے، جو سراسر ظلم اور بے انصافی پر مبنی ہے۔ وہ ہے دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ چاہنا۔ اس اصول پر عمل کا دائرہ ہندوستانی گاؤں کے ایک سود خور مہاجن سے لے کر آج کی واحد بڑی عالمی طاقت امریکہ تک وسیع ہے۔ آج کے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد یہی اصول ہے، بڑے بڑے مالی ادارے ،کمپنیاں اور بینک اسی پر عمل کرتے ہیں۔ اس اصول کی ایک صورت تو وہ ہے جو چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار کی شکل میں سامنے آئی ہے جسے ہر کوئی برا کہتا ہے، لیکن دوسری صورت یعنی مہاجن اور مالی اداروں کی لوٹ کھسوٹ کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ اور پوری دنیا اسے تسلیم کرتی ہے۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون عام ہوتا چلاگیا۔

محترم قارئین :آپ پر ایک بات واضح کردوں کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ جو بات بھی بیان کی جائے دیانت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑوں ۔کہیں عصبیت کا جن نہ بولے ۔بلکہ وہ بیان کروں جو سچ ہوکہ سچ ہی کو دوام ہے ۔خیرآپ ذرا عالمی افق پر نظر دوڑائیں تو ایک ملک اس وقت پوری دنیا کے لیے کباب میں ہڈی بن کر رہ گیاہے ۔کسی ملک کی امن و سلامتی کی بات ہویا عالمی منڈی میں تجارت کا مسئلہ ہو ۔بن بلائے مہمان کی طرح بے باک ،مسلم دشمن ،پرتشدد ملک امریکہ پوری دنیا پر معاشی بحران پیدا کرکے راج کرنا چاہتاہے ۔جو اپنے مالی اداروں کے ذریعے دنیابھر کو سودی نظام میں جکڑنے کے ساتھ دوسرے ملکوں کے قدرتی وسائل پر قبضہ بھی کرتا ہے ۔ عراق اس کی بدترین مثال ہے۔ مختلف بہانوں سے اس نے اس ملک کو تباہ کرکے وہاں کے عوام کو کنگال کردیا اور ان کے تیل کی دولت پر قبضہ کرکے اپنے عوام کو مزید خوشحال بنادیا۔ آج کسب معاش کے اس طریقے کو برا سب کہتے ہیں لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانے اور منظم ہونے کی ہمت دنیا میںنہیں ہے ۔ آج کی عالمی کساد بازاری کا واحد سبب سودی نظام ہی ہے اگرچہ دنیا اس کاادراک نہیں کرپائی ہے۔ اگر ادراک کسی درجے میں ہو بھی تو اعتراف کی جرات نہیںہے۔ بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور سودی معیشت کے بانیوں کی کوشش یہ ہے کہ دنیا اسی میں جکڑی رہے۔ اس سے باہر نہ نکلنے پائے۔ !نومبر کو واشنگٹن میں جی، کی سربراہ کانفرنس میں، جس میں کہ ہندوستانی وزیر اعظم بھی شریک ہوئے تھے، امریکی صدر بش نے کسی تیسرے متبادل کے امکان کو خارج کردیا تھا اور کہاتھا کہ دنیا کو موجودہ مالی بحران کاحل موجودہ معاشی نظام ہی کے دائرے میں رہ کر تلاش کرنا ہوگا۔ لہجے سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ بش کو کسی تیسرے متبادل کاخوف لاحق ہے۔

غور طلب بات :
موجودہ بحران کا سرسری حل یہ بتایا کہ خود غرضی، سود اور جوئے کو ترک کردیاجائے۔ مگرظاہرہے کہ دنیا کے لئے اسے قبول کرنا آسان نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ بلکہ موجودہ نظام کے بانیوں کے لئے تویہ تجویز نیوکلیئر بم سے کم نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بات پسند سبھی کو آئی لیکن ایک صاحب چاہتے تھے کہ اس قسم کی باتیں ہم مسلمان، اسلام کا نام لئے بغیر کہیں۔ ان کا جذبہ نیک تھا نیت بھی صاف تھی۔ ان کی تجویز کو حکمت بھی کہا جاسکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس صورت میں تجویز کے پیچھے قوت نافذہ کافقدان ہے۔ محض اخلاقاً انسانی ہمدردی ایک جگہ جاکر رُک جاتی ہے۔ جب کہ قوتِ نافذہ ایسی کسی بھی تجویز کو کارگر بنادیتی ہے۔ یہ قوتِ نافذہ قانون کے پاس بھی نہیں ہے اگر وہ ملکی یا بین الاقوامی سطح پر وضع بھی ہوجائے۔ اس تجویز کو عقیدے کی قوت ہی روبہ عمل لاسکتی ہے اور عقیدے کی یہ قوت اسلام کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایمان یعنی توحید ، رسالت اور آخرت اور پھراس کے تقاضوں کی تکمیل ہی وہ قوت ہے جو کسی قانون کے خوف کے بغیر انسان کو اپنے آپ اندر سے اس کے لئے تیار کرتی ہے کہ غلط کاموں سے باز رہے۔ لیکن انسانیت کا المیہ یہ ہے کہ جن کے پاس یہ عقیدہ ہے وہ خود بے عمل ہیں۔وہ سستی و کاہلی کا شکار ہیں ،خواب ِ غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔بے حسی و مفاد پرستی ان میں اس قدر عام ہوتی چلی جارہی ہے کہ ایک طرف ایک بھائی دولت کے جاہ وحشمت کے نظارے کروا کرواکر دل و دماغوں کو خود سے مانوس کررہا ہے ۔دنیا کی محبت ،دنیا والوں سے نفع کے لالچ میں پانی کی طرح دولت بہادے گالیکن اپنے سفید پوش بھائی پر خرچ کرنے میں عار محسوس کرتاہے ۔

قارئین :میں آپ سے اک بات عرض کروں۔آپ جتنے احباب تک میری آواز پہنچ رہی ہے ۔میرے بھائیوں، بہنوں، میرے بزرگو:جو ماضی میں اچھا کیا ،براکیا ۔اس سے تائب ہوکرنئے عزم کے ساتھ عہد کرلیجیے کے ہم اپنے عزیز اقربا میں کسی بھی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیں گئے ۔جتنی طاقت و قدرت ہوگی اس کی مدد کریں گئے ۔آپ ذرا پاؤں سے ننگے اس بچے کے بارے میں وسوچیے ،جو میلے کچیلے کپڑوں میں گھوم رہاہے ۔جن ننھے ہاتھوں میں قلم ہونا تھا کہیں پانا ،کہیں کچرا جمع کرنے کے لیے تھیلا،کہیں بھیک والا کشکول ،آہ :ہمارے گر د بلک بلک کر ہمارا بھائی سفید پوشی ،تنگدستی کے باعث رورہا ہوتاہے ۔بھوک و پیاس ،غم و ملال اسے مرجھائے ہوئے چہرے سے عیاں ہوتاہے ۔لیکن کبھی اس دل میں خیال تک نہ پید اہوا کہ یہ بھی ہمارے ہیں ۔اک لمحے کے لیے سوچیے اگر ہم اس مقام پر ہوتے تو ہمارے کرب کا عالم کیا ہوتا۔دیر نہ کیجیے !اس سے قبل کے سانس کا دھاگہ ٹوٹ جائے ۔خدمت انسانیت کے لیے پہلا قدم اُٹھائیے ۔

طالب دعا:
ڈاکٹرظہوراحمد دانش
چیرمین :ورلڈ اسلامک ریوولیوشن
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545591 views i am scholar.serve the humainbeing... View More