5 جون کی خوبصورت شام اسلام آباد
پر یس کلب کی روشنیوں ورعنائیوں میں مزید رنگینیاں پھیلا رہی تھی ایک ایسے
وقت میں جب سینٹ کا اجلاس جاری تھا زندگی معمول کے مطابق تھی شام ڈھلی
جارہی تھی اور پروگرام کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا چلا جارہا تھا ، مہمانا
ن گرامی کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا ، یہ تقریب ایک باہمت ، نو
جوان سکالرر اور معروف کا لم نگار عظمت علی رحمانی کی کوششوں کی بدولت ایک
ننھی پری کو خراج عقیدت و تحسین پیش کر نے کے لیے منعقد تھی ، مردہ پر ست
اس قوم کے کیا کہنے ....؟ جب تک انسان اس دنیا میں اپنے وجود کے ساتھ رہتا
ہے کوئی اس کی خبر گیری نہیں کرتا لیکن جب دار فانی سے دار بقا کی طرف رخت
سفر با ندھ لیتا ہے تو اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے
ہیں ، عظیم مسیحا کے نام سے موسوم ہونا شروع ہو جاتا ہے ، اس بات کو بیتے
کچھ لمبا عرصہ نہیں گزرا کہ آئی ٹی کی دنیا میں تہلکہ مچا دینے والی ”دہشت
گردوں “کی سرزمین سے ایک شہزادی کم عمر ترین مائیکروسافٹ پروفیشنل کا اعزاز
حاصل کرتی ہے ، دنیا کا امیر ترین اور کمپیوٹر کی دنیا میں” ونڈو “بنا نے
والا شخص جسے لوگ بل گیٹس کے نا م سے یا د کرتے ہیں اس شہزادی کو اپنے
آستانہ پر حاضری کی دعوت دیتا ہے ، یہ شہزادی اپنے شرمندہ خواب کی تعبیر کے
لیے بل گیٹس سے ملا قات کر کے اسے ورطہ حیرت میں ڈا ل دیتی ہے ، وہ شخص بھی
حیرت کی وادیوں سرگرداں گھومنا شروع ہو جاتا ہے کہ جس ملک کو ہم ”دہشت گردی
“کا مرکز اور اڈا سمجھتے ہیں یہ اس ملک کا دوسرا رخ ہے ، تاہم وہ تعریفی و
توصیفی کلمات ، انعامات کے ساتھ اس ننھی پری کو الوداع کہتا ہے ۔ 4سال کے
وقفے کے بعد پھر اسے نجانے کیا سوجھی کہ اس نے پھر اس ننھی پری سے ملاقات
کی ٹھا ن لی اور اس کے لیے امید ظاہر کر دی ۔ 2009کی بات ہے جب دختر
پاکستان دوبارہ بل گیٹس سے ملاقات کا شرف حاصل کرتی ہے ، بل گیٹس اس کی
آنکھوں کی چمک اور خدادا ذہانت سے متاثر ہو کر اپنے ہاں کام کرنے کی دعوت
دیتا ہے لیکن ”دختر پاکستان “نے وطن کی مٹی اور اس کے باسیوں کے ساتھ محبت
کا اظہار کچھ یوں کیا کہ میں اپنے ملک میں کام کرنا چاہتی ہوں میں اپنے
پسماندہ ترین گاﺅں رام دیوالی کے مکینوں کو کمپیوٹر کی روشنیوں سے متعارف
کرانا چاہتی ہوں ۔ اس کے بعد کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ ایک آنجہانی
خبر پردہ سماعت سے ٹکراتی ہے کہ دنیا میں پاکستان اور پاکستانی قوم کا سر
فخر سے بلند کرنے والی کم عمر ترین مائیکروسافٹ ماہر ارفع کریم سخت بیماری
کی حالت میں اسپتال منتقل ہو گئی ہے ، اور ایک دن یہ خبر بھی سننے کو ملی
کہ ارفع کریم خالق حقیقی سے جا ملی ا ِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ
رَاجِعُونَ
یہ پھو ل اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ سکا
ایک طرف ارفع کریم کی موت تھی ،مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے ، ہر کوئی
مایوسی کی دکان سجائے بیٹھا تھا ،کوئی امید بر نہیں آرہی تھی ایسے میں ایک
نوجوان کے دل میں یہ خیال ہندیا کی طرح جوش مار رہا تھا کہ وہ اس ننھے پھول
کو جو کھلنے سے قبل مر جھا گیا خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے عزم و ہمت کا
توشہ لے کر ایک کتاب آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے تیار کرے چنانچہ اس نے یہ
کام نام خدا سے شروع کر دیا ۔ کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ اس نے اپنے شرمندہ
خواب کی تعبیر حاصل کر لی ، ا س کے ہاتھ میں ایک کتاب لگ بھگ ساڑھے تین سو
صفحات پر مشتمل تھی جس میں ملک کے نا مور قلم کاروں کے تراشے ، دانشوروں کی
حکمت آموز نصیحتیں اور سب سے بڑھ کر علماءکے عملی افادات جو انہوں نے ارفع
کریم کو پیش کیے موجود تھے ، ارفع کریم کی وفات پر جتنا الیکٹرانک میڈیا نے
کردار ادا کیا ، پرنٹ میڈیا بھی کسی صورت اس سے کم نہیں تھا ، یہ الیکٹرانک
میڈیا ہی کا مرہون منت ہے وہ کالم جو اخبارا ت کی زینت بنے ، نو جوان قلم
کار عظمت علی رحمانی نے بڑی تگ و دو ، عرق ریزی کے ساتھ جمع کر کے ایک کتاب
کی شکل میں یکجا کرکے ”دختر پاکستان “کا تحفہ اس ملک کے باسیوں کو پیش کیا
۔
”دختر پاکستان “کی کراچی آرٹ کونسل میں تقریب رو نمائی اور اس کی پذیرائی
کے بعد اسلام آباد پریس کلب میں بھی اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی ، جس
میں مہمان خصوصی چئیر مین عریبک بورڈ شیخ ولی خان المظفر کے علاوہ معروف
قلم کار ، نوجوان صحافی و اینکر پرسن سلیم صافی ، جیو نیوز کے رپورٹر سبوخ
سید ، پاکستان تحریک انصاف کی نفیسہ خٹک، معروف قلم کارمولاناعبدالقدوس
محمدی اور ارفع کریم رندھاوا کی پھوپھی پرفیسر انجم النساءنے شرکت کی ،
تقریب کا باقاعدہ آغاز مفتی توصیف احمد کی تلاوت سے ہوا اس کے بعد نعت رسول
مقبول ﷺ شہاب الرحمن نے پیش کی ۔ سلیم صافی نے ارفع کریم رندھاوا کی زندگی
پر لکھی جانے والی کتا ب ”دختر پاکستان “کی تقریب رونمائی میں شرکت کرتے
ہوئے کہا کہ مجھے صرف ایک کال کے ذریعے دعوت دی گئی میں حاضر ہو گیاکیونکہ
ارفع کریم کے نام سے ایک یادگار محفل میں کیونکرشرکت نہ کرتا ، اس بچی نے
پوری دنیا میں ہم پاکستانیوں کا سر فخرسے بلند کیا ہے اس نے کم عمری میں اس
وطن کے لیے وہ کچھ کیا جو ہم ساری زندگی بھی نہیں کر سکتے ۔،جیسے ارفع کریم
کے نام میں رفعت تھی اور رفعت کی بلندیوں کو اس نے چھوا اس ”رفعت “والی
ارفع کریم پر لکھی جانے والی کتاب کے مولف ”عظمت علی رحمانی “بھی عظمت کا
مینارہ ثابت ہوں گے ، اس ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ناقدری ضرورہے اب بھی
کئی ساری ارفعیں اس دھرتی پر پروان چڑھ رہی ہوں گی جو کہ کیمرے کی آنکھ سے
دو ر ہیں ۔
جیو نیوز کے رپورٹر سبوخ سید نے چونکہ ارفع کریم کی زندگی میں سب سے پہلے
انٹرویو لیا تھا اس لیے انہوں نے صرف دوران انٹرویو ہونے والی رسمی وغیر
رسمی گفتگو شیئر کی انہوں نے کہا کہ جب میں اس کا انٹر ویو کر نے ا ن کی
پھوپھی انجم النساءکے گھر گیا تو وہ مجھے پُر اعتماد نظر آئی اور ایک بات
جو اس نے کی میں کبھی نہیں بھلا سکتا کہ سبوخ سید انکل ! اگر بل گیٹس نے
”ونڈو “بنائی ہے تو میں ”ڈور “ بناﺅں گی ، ننھی پری ارفع کریم گویا بل گیٹس
کو چیلنج کر رہی تھی سبوخ سید نے یہ بھی کہا کہ اس کی تربیت میں اس کی دادی
کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، وہ بچپن ہی میں شش کلمے ، نماز و دیگر
ضروریات دین کے بارے میں آگاہی حاصل کر چکی تھی ۔ گویا وہ اپنی ذات میں ملا
بھی تھی اور مسٹر بھی۔
چئیر مین عریبک بورڈ شیخ ولی خان المظفر نے اپنے خطاب میں ارفع کریم کو
محبت و عقیدت کے پھو ل نچھاور کیے ، انہوں نے کہا کہ یہ عظمت علی رحمانی کا
کارنامہ اور احسان ہے کہ اس نے ”دختر پاکستان “کے بارے میں مواد اکٹھا کرکے
کتابی شکل میں آئندہ آنے والی نسلوں کی راہ نمائی کی ، انہوں نے کہا کہ ملا
و مسٹر کے درمیا ن خلیج کی فضا کو ختم کرنے میں بھی عظمت نے کردار ادا کیا
ان کے ہر کالم میں اس کی بو محسوس ہوتی ہے ، عظمت علی رحمانی صرف ایک دینی
مدرسے کا طالبعلم نہیں بلکہ وہ کراچی اردو یونیورسٹی کا بھی سٹوڈنٹ ہے ،
اور ایسے وقت بھی اس نے اس کتاب کی رونمائی کی جب اس کے آٹھ سالہ تعلیمی
دور کے سالانہ امتحان میں گنے چنے دن باقی رہ گئے ہیں ۔ دینی مدارس میں
پڑھنے والوں کو قدامت پسندی ،رجعت پسندی اور دہشتگردی کی صف میں کھڑ ا کرنے
والوں کے لیے عظمت رحمانی کی کتاب ”دختر پاکستان “واضح پیغام ہے کہ مدارس
دینیہ اور ان میں پڑھنے والوں کا کردارجلا ہے ۔ بہت عرصے سے ملا و مسٹر کی
تفریق سے باہم نفرتوں اور کدورتوں کے باعث جو خلیج پیدا ہوئی رفتہ رفتہ کم
ہو رہی ہے ، ہمیں دینی مدارس میں پڑھنے والوں اور خصوصاًایسے نو جوانوں کی
حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔
مولف کتاب عظمت علی رحمانی نے اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے سب سے پہلے
تمام مہمانا ن گرامی کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد اس کتاب کے لکھنے کی
وجہ بیان کر تے ہوئے کہا کہ میں سوچا کرتا تھا کہ کامیاب انسان کو ہِ طور
یا کسی اور جگہ سے تو نہیں اترتے وہ بھی اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں ، کھاتے
ہیں ، پیتے ہیں ، ان کے بارے میں سراغ رسانی کا کام شروع کیا کہ ان کی
زندگیوں میں کامیابی کے پیچھے کیا عوامل واسباب پوشیدہ ہوتے ہیں ۔۔۔؟،
کتابوں کی ورق گردانی کو اپنا مشغلہ بنایا ، علم کے ساتھ دوستی کی محبت کے
پیغام کو ہر سو پھیلا، نفرتوں کے کانٹے حتی المقدر کاٹنے کی کوشش کی بالآخر
آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ”دختر پاکستان “کا تحفہ پیش کیا ، یہ اس لیے
کہ پاکستان میں ایک رفع نہیں جو مرگئی بلکہ کئی ”ارفعیں “موجود ہیں ، ان کے
ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے میری دوسری کتاب زیر طبع ہے ، جو عنقریب شائع
ہوگی ۔
پاکستان تحریک انصاف کی نفیسہ خٹک نے کتاب کے مختلف اقتباسات کی روشنی میں
بات کرتے ہوئے ارفع کریم کو اس قوم کا اثاثہ قرار دیا اورر کہا کہ ہم سے
ہمارا یہ اثاثہ چھن گیا ،ارفع کریم ایک فرد نہیں بلکہ نظریہ تھی ، اس کے
نظریے کو عظمت جیسے نوجوانوں نے آگے بڑھانا ہے ۔
ارفع کریم رندھاوا کی پھوپھی جن کی آغوش میں ارفع پلی بڑھی جوان ہوئی ، سب
سے زیادہ قریب ، پروفیسر انجم النساءارفع کریم کے بارے میں خیالا ت کا
اظہار کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں محفل میں سکوت کا سماں بندھ گیا ، انہوں نے
کہا کہ ارفع ارفع تھی ، وہ بہت سے بچوں سے مختلف تھی ، وہ سورج تھی اس کے
ہوتے ہوئے باقی بہن بھائی ، کزن تاروں کی مانند چھپ جاتے تھے ، وہ عظیم سوچ
کی مالکہ تھی وہ بالکل سادہ طبیعت ، خوش اخلاق ،ملنسار اور والدین کا خیال
رکھنے والی بچی تھی ، بل گیٹس سے جب اس کی ملاقات طے تھی تو میں نے کہا
ارفع ان کے لیے کیا تحفہ لے کر جاﺅ گی ....؟ اس نے کہا میں انکل بل گیٹس کے
لیے انگلش نظمیں لکھ کر لے جاﺅں گی ، رفتہ رفتہ یہ تقریب اختتامی مراحل میں
داخل ہو رہی تھی سورج میں زردی چھا رہی تھی ، مغرب کا وقت قریب تھا کہ
معروف کالم نگار مولانا عبد القدوس محمد ی نے ارفع کریم رندھاوا اور ان کی
ایک پھوپھی جو حال ہی میں انتقال کر گئیں ،ا ن کی ارواح کے لیے دعائے مغفرت
کروائی یوں یہ خوبصورت شام ایک یادگار تقریب کو اپنے سینے میں لیے ہوئے
ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی ۔اس کتاب نے جہاں ملا ومسٹر کی تفریق ختم کرنے
میں کردار ادا کیا وہیں مدارس دینییہ کے طلباء کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے
لایا اور طلباءکے حوصلوں کو جلا بخشی کہ وہ بھی قلم اٹھائیں اور ملک وملت
کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ |