غریبوں کا بھی کوئی آسرا ہے
(Haji Abul Barkat,Poet/Columnist, Karachi)
نہ تھا کچھ تو خدا تھا،
کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
شاعر نے کیا خوب بات کہی ہے اپنی اس شاعری میں عقل مندوں کے لئے - یہ اشارے
کیا کافی نہیں ہیں مگر پھر بھی ہم انہیں بتانے جارہے ہیں کہ اپنے وجود کو
مخفی رکھنے والا وہی ایک خدا ہے جس نے سورج کی روشنی ، دریا و سمندر کے
پانی ، ہوا ، آگ اور مٹی ، زمین و آسمان کو برابری دے رکھی ہےاورایک جگہ پر
قائم رکھا ہوا ہے- امیر، غریب ، چھوٹے، بڑے کا امتیاز بھی اپنے نذدیک نہیں
رکھا ہے اور ہر مخلوق کا سہارا اور آسرا بنا ہوا ہے-لیکن اس کے باوجود
انسانوں میں آپس میں کشمکس جاری ہے-کوئی بڑا ہوگیا ہے تو کوئی چھوٹا رہ گیا
ہے کسی کو اتنی دولت مل گئی ہے کہ وہ اسے اپنے ملک سے نکال کر کسی اور غیر
ملک کے لاکرز اور بینکوں میں رکھتا ہے جس سے اس ملک کی معیشت کو چار چاند
لگتا جارہا ہے تو اپنے ملک کو گھن لگتا جارہا ہے-ہمارے اپنے ملک کے عوام
ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اگر چہ رزق کا ذمہ ہر انسان کو پہنچانے کا
خود خدا نے لے رکھا ہے- مگر اس نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ محنت و مزدوری
ایمانداری سے کرتے رہو، ملاوٹ نہ کرو ، ٹھیک ٹھیک وزن کیا کرو،ذخیرہ اندوزی
مت کرو ، رشوت کے مال سے بچو،سود ناپاک ہے جس سے اجتناب کرو، ناحق قتل و
غرت گری کرکے ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے ہڑپ مت کرو، ہر ایک کو
معاشرے میں جینے کا حق دو تاکہ تمہارے رزق، مال و دولت میں کشادگی رہے اور
تنگ دستی قریب نہ آنے پائے-تمہاری نسلیں برھتی رہیں-اس کے باوجود جب ہم
اپنے ملک پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایک عالمگیر بے قراری دیکھنے میں آتی ہے
حالانکہ بادشاہوں کا دور بھی ختم ہوا جس کے بعدانگریزوں کی غلامی سے بھی
ہمیں نجات ملی اور پھر بڑی قربانیوں کے بعد ہم آزاد ہوکر ایک اسلامی ریاست
میں زندگی گزارنے کے قابل ہوئے- مگر قدرت کا دستور بھی نرالا ہے سب کچھ
کرنے کے باوجود وہ کسی کو سنوارتا ہے تو کسی کو بگاڑتا ہے اس لئے کہ اگر
کچھ بھی نہ ہوگا تو بھی خود خدا کا وجود ہوگا-
خدا تو خود کسی کو تکلیفیں نہیں دیتا بلکہ یہ سب ہمارے اپنے ہی ہاتھوں اور
زبانوں سے ہمیں پہنچتی ہیں-بد ہی اس کے نزدیک سب سے چھوٹا اور سب سے بُرا
ہے- محنت مشقت کروگے تو بڑے بن جائو گے، اس لئے کہ جو متقی ہے وہی سب سے
بڑا ہے- تم سب ایک ہو جائواور اگر نیک بن کر جیو تو کیا بات ہے ہم تمہیں
عرب سے بھی زیادہ نواز دینگے۔۔۔۔۔۔۔۔!
بجائے اس امیر آدمی کے جو رات بھر بجلی کے پنکھوں اور ائر کنڈیشن میں
سوئے،آٹھ بجے صبح جاگے ، انگڑائی لے ، آنکھیں ملے ، نوکروں کو صلواتیں
سنائے، بیت الخلا جائے ، نہائے اور پھر ناشتہ کرنے کے بعد شطرنج کا دور
شروع کردے، کھانا کھائے ،شام کو ہوا خوری کرے،رات کو گانا سنے،مجرا کرائے،
شراب پیئے اور پھر سوجا ئے غرض کوئی گھڑی محنت و تکلیف کی نہ پائے اور جس
اعلیٰ سے اعلیٰ اور قیمتی جائز و ناجائز چیز کی طرف آنکھ اٹھائے وہ اسکے
لئے دست بستہ دوڑی ہوئی سامنے چلی آئےاور پھر بدقسمت وہ گھری بھی آجائے کہ
بہادر شاہ ظفر کی طرح قید کر دئے جائیں اور تمام مسلمان انگریزوں کےغلام
بنا دئے جائیں-
مگر آج کےنفسا نفسی کے دور میں غریب ہی کیوں نہ ہو ، خدا کی مرضی پراگر
چلے، خوف خدا کو دلوں میں لئے تو پھر تم ہی دنیا میں حکمرانی کروگے، روپیہ
پیسہ کیا چیز ہے اللہ پر اگر ایمان عزیز ہو تو تم امیروں سے بہتر ہو- تم
اپنے سے کمتر اور بے سہارا لوگوں کا آسرا بن جائو گے اور پھر خدا کو پا
لوگے ورنہ ہاتھ ملتے قبر میں کسی نہ کسی بیماری کو لئے پہنچ جائو گے اور
پھر تمہاری اولاد تمہاری حرام کی چھوڑی ہوئی دولت و جائیداد کے بٹوارے کے
لئے ساری عمر لڑ لڑ کر مر جائے گی جس کے بعد بھائی بھائی کا نہین رہے
گا-بلا آخر گناہگار تم ہی ہوگے۔
لیکن اگر غریبوں کا آسرا امیر بن جائیں جیسا کہ امریکہ و یورپ میں ہو رہا
ہے تو پھر مسلمانوں کے تمدن و سیاست میں اسلامی انقلاب برپا ہو جائےگا اور
پھر اس وقت اس سوال کا جواب بھی ہمیں مل جائیگا کہ“ گر غریبوں کا بھی کوئی
آسرا ہوتا تو کیا ہوتا “ کیا اسلام سے دوری ہوتی ، کیا طالبان کا وجود ہو
تا ، کیا ان کے تعاقب میں امریکہ ڈرون حملے کر کر کے بے گناہ مسلمانوں کو
شہید کرتا جاتا اور ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ؟؟؟؟؟ لہٰذا ہم یہ کہنے پر
مجبور ہیں کہ :-
یہ جھنڈا وحدت کا ہے یہاں دوئی نہیں
سوائے یہاں کے اور کہیں یکسوئی نہیں
اسلامی انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے ہم یہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ یکتائی و توحید
کی آواز آندھی کے شور میں دنیا تک پہنچائیں گے مگر سوچئے کہ یہ کون لوگ کہ
رہے ہوتے ہیں کیا ان کی یہ ضمیر کی آواز ہوتی ہے یاکہ دنیاوی لالچ و
حکمرانی کی ان میں خواہش ہوتی ہے- کیونکہ جو لوگ اپنے بچے اور بچیوں اور
اپنی بیویوں کو تواسلامی تعلیمات پر نہیں چلا سکتے یورپ اور امریکہ میں
تعلیم دلانے کو ترجیح دیتے ہیں بجائے اسلامی مدرسوں کے اور انکے اپنے گھروں
میں ٹیلیویزن اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہولتیں ہوں تو وہ کیا اسلامی
انقلاب پرپا کر سکتے ہیں؟
ہمیں تو وہ مخلص و بے لوث لوگ اسلام و ملک کے لئےچاہئیں جن کی بھوک دائی ہو
، پیاس جن کی مائی ہو،بے سرو سامانی جن کی ماں جائی ہو، شہادت انکا عظیم
مقصد ہو بجائے صرف جہاد کا نعرہ لگانے والوں کے ! اس لئے کہ یہ ہی اس میدان
کے حقیقی شہشوار ہیں ورنہ یہ نازوں کے پلے جو مائیکوں پر اعلان کرتے پھرتے
ہیں کہ اسلامی انقلاب لا رہے ہیں سب جھوٹ بول رہےہوتے ہیں، غریبوں کا قیمتی
وقت اور انکا ایمان دونوں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں- انہوں نے غریبوں کو
کچھ نہیں دینا ملک میں سیاست کو چمکائے رکھنا ہے- لال مسجد کی شہادت اور
مدرسہ کی تباہی کے علاوہ علما کرام کی شہادت پر خاموشی اختیار کر کے غریبوں
کے سر کی قیمتیں لگوا لگوا کر خود عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہنا انکا
نصب العین ہے- معذرت کے ساتھ!!!!!! |
|