ڈیوڈ بن گوریان سے نیتن یاہو تک
(Rauf Amir Papa Beryar, Kot Addu)
درویش کا قول ہے اسلحے بارود
عسکری وحشت ابلیسی سفاکیت اور انسانیت سوز سازشوں کو بروئے کار کسی کمزور
قوم پر جارہیت مسلط کرنا نہ تو مردانگی ہے اور نہ ہی مہذب و باوقار قوم کا
شیوہ ۔جو ایسی دریدہ دہنی ڈھاتا ہے اسے انسانیت کے دائرے میں شامل کرنا خود
تکذیب انسانیت کے مترادف ہے۔ فلسطینی قوم کی تاریخ ویسے تو درجنوں دل اندوہ
سانحات سے پر ہے مگر ایک دن ایسا بھی ہے جب غزہ سے بیت المقدس تک مغربی
کنارے سے غزہ تک رنج و الم کے بادل چھا جاتے ہیں جہاں فضاوں میں اہیں ہی
اہیں کلیجہ چیرنے کو دوڑتی ہیں۔عربی زبان میں اس دن کو تکبہ ڈے کہا جاتا ہے
جو بادی النظر میں فلسطینیوں کا دس محرم ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف فلسطینیوں
کے ہاں64 سال پہلے انہی دنوں میں شام غریباں برپا تھی تو دوسری طرف ارض
فلسطین پر اسرائیلی ریاست کی تخلیق ہوئی تھی۔ امریکہ و برطانیہ کی شہہ پر
بیت المقدس کے سینے میں اسرائیل نام کا زہریلا خنجر گھونپ دیا گیا جو آج تک
محکوم دھرتی فلسطین کے وارثان کا خون بہا رہا ہے۔ اسرائیل1947 کے نکبہ ڈے15
مئی کو دہشت گرد یہودی تنظیم کے پر جوش قاتل ڈیوڈ بن گوریان کی پہلی وزارت
عظمی کے ساتھ عالمی نقشے پر نمودار ہوا۔ ۔یہ فلسطینیوں کے لئے خون آشام دن
تھا۔گوریان کے صہیونی ڈریکولائی آدم خور لشکر کے قاتلوں نے نہ صرف ہزاروں
وارثان قبلہ اول کو تڑپا تڑپا کر شہید کیا بلکہ ایک ملین گھروں کو مسمار
کرکے مالکان کو جلاوطن کردیا۔ دن بھر ہوا خوری کرنے والے پرندے بھی رات گئے
اپنے گھونسلوں میں واپس آجاتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ6 دہائیاں پہلے یوم
نکبہ پر جلاوطن کئے جانیوالے فلسطینیوں کے واپس گھر لوٹنے کی کوئی امید
موجودہ حالات کے تناظر میں بر لاتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ امت مسلمہ کی
ناچاکیوں اور حکمرانوں کی بذدلی کے کارن ارض فلسطین پر صہیونیوں کے جس ظلم
و ستم نے نکبہ ڈے پر رقص بسمل کیا تھا وہ آج تک جاری و ساری ہے مگر سلام ہے
ان فلسطینی حریت پسندوں کو جو ابتدائے آفرینش سے لیکر آج تک مسلسل اسرائیل
کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔unoنے اپنا پر فریب بھرم رکھنے کی خاطر
فلسطینیوں کے حق میں کئی قراردادیں پاس کی ہیں مغربی کنارے پر ناجائز یہودی
بستیوں کی تعمیر کو روکنے آزادphalastine ریاست کا قیام اور دوریاستی
DIAGRAMوغیرہ شامل ہیں مگر صہیونی رزیل ان قراردادوں کو کبھی خاطر میں نہیں
لاتے۔unoکی قرارداد نمبر194 کی شق11 کے مطابق جلاوطن فلسطینیوں کو واپس
لوٹنے کا حق تفویض کیا گیا مگر یہ حق بھی سلب ہوگیا۔ڈیوڈ بن گوریان صہیونی
انتہاپسندلشکر کو ہلہ شیری دیتے کہ چاروں اطراف میں تاحدنظر پھیل جاؤ
فلسطینیوں کو مار مار کرارض فلسطین سے نکال دو۔ صہیونیوں کی پر تشدد تو سیع
پسندانہ اور استعماری پالیسی کا اغاز گوریان نے کیا تھا اس پر انسانی شکلوں
کے عالمی بھیڑئیے آج بھی غرا غرا کر معصوم و بے سائباں فلسطینیوں کو
بھنبوڑتے اور موت کے سپرد کردیتے ہیں ۔1947 میں نکبہ ڈے پر ڈھائے جانے والے
مظالم میں سے فلسطین کے گاؤں بیت دراس میں منصفہ شہود پر انے والے وحشیانہ
واقعے کو عالمگیر شہرت ملی جس نے انسانیت کو شرمادیا۔ شرم سے سرجھکادئیے
اور صہیونیت کا خونخوارانہ چہرہ دنیا بھر میں عیاں ہوا۔ بیت دراس میں
نومولود بچوں سمیت سینکڑوں عورتیں ایک گھر میں محصور تھیں۔قبضہ گیروں نے اس
پر اتنا بارود فائر کیا کہ بچوں کی ہڈیاں تک راکھ بن گئیں۔ گوریان سے لیکر
نیتن یاہو تک بننے والے سارے اسرائیلی منتریوں کے ہاتھ بے گناہ فلسطینیوں
کے خون سے رنگے ہوئے ہیں سارے دہشت گرد تنظیموں کے کرتے دھرتے اور مافیا
ممبران تھے۔نیتن یاہو بھی گوریان کی سوچ و فکر پر کاربند ہے۔ اسرائیل کا
حکمران طبقہ خوش ہے کہ فلسطین کی نئی نسل نکبہ ڈے کی شام غریباں کو بھلا دے
گی مگر سچ تو یہ ہے کہ تل ابیب کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوسکتی ۔کچرے ست
کچرے کو علیحدہ تو کیا جاسکتا ہے مگر خوشبو سے خوشبو کو علیحدہ کرنا ممکن
نہیں۔64 سالوں میں لاکھوں فلسطینیوں کا خون مقدس بہہ چکا جسکی مہک جنون
جرات رندانہ اور جوش جہاد کے روپ میں ہر فلسطینی بچے بوڑھے ماؤں بہنوں کے
خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ فلسطینی قوم اسرائیل جبر کا مقابلہ کر رہی ہے
کرتی رہے گی اور وہ دن دور نہیں جب کوئی صلاح الدین ایوبی یروشلم میں فاتح
کی حثیت سے یہ حکم دے رہا ہوگا یہودیوں کو عزت و احترام کے ساتھ ارض مقدس
پر رہنے کی اجازت ہے ایوبی فورس کا کوئی سپاہی کسی محکوم یہودی فوجی قیدیوں
اورمخالف فوجی کو کوئی گذند نہ پہنچائے۔ کیا تہذیب یافتہ خطے مغرب میں کوئی
ایسا رہنما حکمران یا جرنیل ایسا ہے جو ایوبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ
حکم دے کہ اسرائیلی یہودی بستیاں خالی کردیں کیونکہ یہ فلسطینیوں کی ملکیت
ہیں؟ کیا کوئی سپرپاور جرات رکھتی ہے کہ وہ انسانیت کی کارفرمائی اور شرف
ادمیت کی عظمت کی خاطر فلسطین کو ازاد ریاست بنانے کا اعلان کردے؟ کیا کوئی
ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل اور مغرب کے نام نہاد حقوق انسانیت کے
علمبردار صہیونیوں کی سفاکیت میں برابر کے حصہ دار ہیں کیا درویش کے قول کی
روشنی میں دہشت گردی کے نام پر لاکھوں مسلمانوں کے ان عالمی قاتلوں کو
انسانیت کے دائرے میں شامل کیا جاسکتا ہے فیصلہ قارئین اور استعماری غنڈے
ہی کریں تو بہتر ہوگا- |
|