اُسامہ کو ”بکرا قسطوں پہ“ بہت پسند تھا
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
مُردہ پرستی شاید کافی نہ تھی
اِس لیے اب ”مُردہ نویسی“ کو بھی پورے جوش و خروش سے گلے لگایا جارہا ہے۔
لِکھنے والوں نے کمال کر دکھایا ہے۔ جس کے بارے میں دُنیا کم ہی جانتی ہے
اُس کے بارے میں اِس تواتر اور تفصیل سے لکھا جارہا ہے کہ پڑھنے والے
پریشان ہیں کہ اپنے پسندیدہ کردار کو ہیرو سمجھیں یا ولن!
امریکہ کا دعوٰی ہے کہ القاعدہ چیف اُسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ہلاک
کیا جاچکا ہے۔ اِس دعوے پر یقین نہ کرنے والوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ
اُنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایبٹ آباد آپریشن جس انداز سے کیا گیا
وہ ہمارے مشہور زمانہ ”پولیس مقابلوں“ کے بھونڈے پن کو بھی شرمسار کرنے کے
لیے کافی تھا! ہماری پولیس کِسی نہ کِسی طرح لاش کے درشن تو کرا ہی دیتی ہے،
امریکہ بہادر سے تو یہ بھی نہ ہوسکا!
اُسامہ بن لادن کے بارے میں کچھ بھی بیان کرنا اب مشکل نہیں رہا۔ جس کِسی
نے بھی دُنیا چھوڑی ہے اُس نے پھر کب اِس فانی دُنیا میں واپس آکر اپنے
بارے میں کہی جانے والی کِسی بھی بات کی تردید کی ہے؟ اگر کل کو بھائی عُمر
شریف دعوٰی کر بیٹھیں کہ اُسامہ بن لادن کو ”بکرا قِسطوں پہ“ بہت پسند تھا
تو القاعدہ کے مرحوم سربراہ کون سا دوبارہ جہان فانی میں وارد ہوکر پریس
کانفرنس کے ذریعے تردید فرمائیں گے؟ اگر کوئی شیف یہ دعوٰی کرے کہ اُسامہ
بن لادن کو بینگن کا بُھرتہ اور کچّے آم (کیری) کا مُربّہ بہت پسند تھا تو
کِس میں ہمت ہے کہ تردید کے لیے اُٹھ کھڑا ہو! اُسامہ سے منسوب کرکے کچھ
بھی کہہ ڈالنے کے ماحول میں آپ ذرا ہماری شرافت ملاحظہ فرمائیے کہ ہم نے اب
تک یہ دعوٰی نہیں کیا کہ اُسامہ بن لادن کو ہمارے کالم پسند تھے اور اِنہیں
پڑھنے کے بعد ہی وہ ناشتے کے لیے گرین سگنل دیا کرتے تھے!
مغرب میں القاعدہ چیف کے حوالے سے کتب کی بھرمار ہے۔ جو جتنی دور کی کوڑی
لاسکتا ہے وہ اسامہ بن لادن کے بارے میں اُتنی ہی لمبی ہانک کر نام اور دام
دونوں کما رہا ہے! اُسامہ بن لادن کو کیا پسند تھا اور کن باتوں یا چیزوں
کو وہ سخت ناپسند کرتے تھے اُن کی فہرست اگر مغرب میں شائع ہونے والی کتب
کی مدد سے مرتب کی جائے تو اچھا خاصا انسائیکلو پیڈیا تیار ہوسکتا ہے! کوئی
لکھتا ہے کہ اُنہیں سادگی بے حد پسند تھی۔ کوئی اُنہیں تعیش پسند قرار دیتا
ہے اور بیویوں کی تعداد کو جواز کے طور پر پیش کرتا ہے! کسی مصنف کا دعوٰی
ہے کہ القاعدہ چیف ہر معاملے پر خوب غور کرتے تھے اور ہر اعتبار سے بصیرت
کے حامل یعنی visionary تھے۔ اِس کے جواب میں کوئی لکھتا ہے کہ اُسامہ بن
لادن غور کرنے کے عادی تو نہ تھے، ہاں طرح طرح کی فِکریں اُنہیں ضرور لاحق
رہا کرتی تھیں! اب اگر جی میں آئے تو تفکرات کی بنیاد پر اُنہیں مُفکّر کہہ
لیجیے!
اُسامہ کی زندگی کے چند ڈھکے چُھپے گوشے اور مخصوص خیالات بیان کرنے کے لیے
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری بھی اب میدان میں آگئے ہیں۔ موصوف اُسامہ
کے حوالے سے یادیں تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مرحوم کو بجلی پسند نہیں
تھی۔ وہ سادہ طرز زندگی کے دلدادہ تھے اور اُن کی نظر میں بجلی بھی تعیشات
میں شامل تھی!
اب ہمیں یقین آگیا کہ اُسامہ بن لادن نے نہ صرف یہ کہ پاکستان میں اچھا
خاصا وقت گزارا بلکہ پاکستانیوں کی ذہنی ساخت بھی بہت حد تک اپنالی! کئی
برسوں کی اَن تھک محنت کے بعد ہماری حکومت نے عام آدمی کو یہ باور کرانے
میں بھرپور کامیابی حاصل کرلی ہے کہ جس طرح دو وقت کی روٹی کا بہتر انداز
سے اہتمام کرلینا اور زیادہ دَھکّے کھائے بغیر آرام دہ گاڑیوں میں کام پر
جانا تعیشات میں شامل ہے بالکل اُسی طرح بجلی بھی اب تعیشات کا حصہ ہے!
یعنی نہ ملے تو دِل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے اور مل جائے تو اللہ کا شکر ادا
کرنے سے نہیں چُوکنا چاہیے! یہ ہماری حکومت ہی کا کمال ہے کہ اب لوگ شاندار
قُوتِ ارادی کا مُظاہرہ کرتے ہوئے بجلی جیسی بُنیادی سہولت کا خواب دیکھتے
ہیں اور اگر کِسی طور وہ خواب کچھ دیر کے لیے شرمندہ تعبیر ہو جائے تو اپنی
قسمت پر ناز کر اُٹھتے ہیں! ہمارے ہاں اب بہت سی ایسی چیزیں زندگی کا حصہ
ہیں جنہیں چارج کرنے کے لیے لوگ بجلی کی آمد کے منتظر رہتے ہیں اور جب بجلی
آتی ہے تو اُن چیزوں کو چارج کرنے سے پہلے لوگ مارے خوشی کے خود چارجڈ ہو
جاتے ہیں! پاکستانیوں میں رہتے رہتے اُسامہ بن لادن پر بھی پیا رنگ ایسا
چڑھا کہ وہ بھی بجلی کو تعیشات میں شُمار کرنے لگے! ایمن الظواہری بیان
فرماتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن بجلی کو تعیشات میں شمار کرنے کے ساتھ ساتھ
یہ بھی کہتے تھے کہ مجاہدین کو سادہ زندگی بسر کرنی چاہیے اور بجلی وجلی کے
چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اُسامہ بن لادن سے متعلق ایمن الظواہری کے اِس
بیان کی روشنی میں بجلی سے محروم بیشتر پاکستانی خود بخود مجاہدین کے زُمرے
میں داخل ہوگئے ہیں! اور صاحب! اِس میں غلط بھی کیا ہے؟ فی زمانہ پاکستان
میں بجلی کا حصول جہاد سے کم نہیں! ہمیں تو یہ ڈر ہے کہ بجلی کو ترسے ہوئے
پاکستانی (یعنی مجاہدین) کہیں حکومت کو ”شہید“ نہ کر بیٹھیں!
مرزا تنقید بیگ سے جب ہم نے اُسامہ کی خالص پاکستانی سوچ کا ذکر کیا تو
کہنے لگے ”اُسامہ بن لادن کی عمر کا بڑا افغانستان میں گزرا۔ اور پھر رہی
سہی کسر پاکستان آکر پوری ہوگئی۔ بجلی کے معاملے میں کبھی افغانستان جو کچھ
تھا وہ اب پاکستان ہے۔ دونوں ہی ممالک کے عوام بجلی سے محرومی کی زندگی بسر
کرتے رہے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ اُسامہ بن لادن کو بجلی کے بغیر جینے
والے دونوں ممالک میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آیا اور اُنہوں نے پاکستان کو
بھی خاصی اپنائیت کے ساتھ، تورا بورا سمجھ کر اپنا مسکن بنایا! معاملہ جب
یہ ہو تو بجلی کے استعمال کو تعیش تو قرار دینا ہی تھا۔“
ہم نے عرض کیا اگر یہ انقلابی اور جہادی سوچ نسیم حجازی دیکھ لیتے تو ایک
اور شاہکار ناول ضبطِ تحریر میں لے آئے۔ اِس بات پر مرزا بگڑ کر بولے
”اُسامہ جیسے ہیرو تو خود نسیم حجازی کے ناولوں کی پیداوار، بلکہ نتیجہ
ہیں! یہ نسیم حجازی ہی کا دم تھا کہ تہی دست قارئین کے دِلوں میں بھی لڑنے
بھڑنے کا جذبہ پیدا کردیا کرتے تھے اور لوگ ’چشم تصور کی آنکھ سے‘ اپنے آپ
کو میدان جنگ میں دشمنوں یعنی کافروں کے کُشتوں کے پُشتے لگاتے دیکھنے لگتے
تھے! ایمن الظواہری کو اِس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ وہ اُسامہ بن
لادن کا نام لیکر جہادیوں میں قرون وسطیٰ والا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں
جب بجلی وغیرہ نہیں تھی اور برقی آسائشات سے زیادہ جہاد پر توجہ مرکوز رکھا
کرتے تھے!“
مرزا کی ”مزاحیہ حِس“ اپنی جگہ مگر جناب! ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے
ہماری حکومت ہی نے ایمن الظواہری سے یہ بیان دِلوایا ہے تاکہ لوگ بجلی سے
مُتنفّر ہوں اور اُس کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیں! پاکستان میں اور بھی
بہت سے اِشو ہیں۔ اُن سب کے بارے میں اُسامہ سے منسوب باتیں پھیلاکر عوام
کا غُصّہ آسانی سے ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے!
ہم اپنی سابق رائے سے رجوع کرتے ہوئے اب اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
اُسامہ بن لادن واقعی اِس دنیا میں نہیں کیونکہ اگر وہ ہوتے تو زمانے بھر
کی بے سر و پا باتیں اپنی ذات سے منسوب ہوتی دیکھ کر تڑپ اُٹھتے اور چُپ کا
روزہ توڑ اُن سب ضرور لتاڑتے جو اُن کے بارے میں بے پَر کی اُڑاتے پھر رہے
ہیں! |
|