اور زُہرہ گزر گیا

یونانی دیو مالا میں وینس یعنی زُہرہ محبت کی دیوی ہے۔ اور سُورج، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ”اگنی دیو“ قرار دیئے جانے کے لیے کِسی دیو مالا کی شہادت کا محتاج نہیں! سُورج اور زُہرہ ایک صدی کے دوران آٹھ سال کے وقفے سے دو مرتبہ مِلتے ہیں۔ اور پھر 105 سال کے لیے جُدا ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نے سُورج اور زُہرہ کے حالیہ مِلن کی گھڑیوں میں سُورج کی طرف دیکھنے سے گریز کا مشورہ دیا۔ ہماری نظر میں یہ زُہرہ پر نِری الزام تراشی کے سِوا کچھ نہیں۔ سُورج کی طرف دیکھنا ویسے کون سا ممکن ہے؟ اور سُورج کی طرف کی طرف دیکھنے سے بینائی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ کب لاحق نہیں ہوتا؟

زُہرہ کا نام سُن کر بہتوں کے دِل میں یہ اِشتیاق پیدا ہوا کہ اُسے اٹکتی مٹکتی گزرتی ہوئی دیکھیں گے۔ ”اہل نظر“ تیار ہوکر، پورے جذب شوق کے ساتھ بیٹھے مگر جب زُہرہ سُورج کے سامنے سے ”گزرا“ تو ارمانوں پر اوس پڑگئی! جو زُہرہ کو دیکھنے کے چکّر میں چَھتوں پر چڑھے ہوں گے وہ بالآخر مایوس ہوکر اُترے ہوں گے۔ بعض کم نظر سُورج کے سامنے سے زُہرہ کے گزرنے کو سُورج کے ماتھے پر چھوٹے سے داغ یا دَھبّے سے تعبیر کر بیٹھے۔ زُہرہ کے گزرنے کو سُورج کے رُخسار کا تِل بھی کہا جاسکتا تھا! کائنات کی وُسعتوں میں رُونما ہونے والے کِسی واقعے کو، بظاہر فلکی اجسام کی ملاقات کو تھوڑے سے جاندار اُسلوب سے، قدرے محبت آمیز انداز سے بھی تو بیان کیا جاسکتا ہے! کِسی ماہ جبیں، نازنیں کی ٹھوڑی پر تِل ہو تو ستائش کا حق ادا کرنے کے لیے پوری لُغت بروئے کار لائی جاتی ہے بلکہ ایک تِل کے عوض سلطنت داؤ پر لگانے کا ارادہ ظاہر کردیا جاتا ہے مگر سُورج کی ٹھوڑی پر قدرت نے تِل لگایا تو ماہرین عجیب و غریب قسم کے وسوسوں کی فصل اُگانے بیٹھ گئے!

سُورج سے زُہرہ کی بالمشافہ ملاقات نِہارنے کے لیے جامعہ کراچی نے بھی خصوصی اہتمام کیا۔ جامعہ کی رصد گاہ کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ اِس نایاب نظارے کو اساتذہ، طلباءاور شہریوں نے دیکھا۔ ہم سمجھ نہیں پائے کہ جب کوئی نظارہ نایاب ہی ٹھہرا تو نے لوگوں نے کیسے دیکھ لیا؟ بیان میں دو مقامات پر بتایا گیا کہ زُہرہ کا مشاہدہ ”خُرد بین“ کی مدد سے کیا گیا۔ اِس ”خُرد نوازی“ کے قربان جائیے۔ ہم نے اب تک یہی پڑھا ہے کہ زُہرہ کا مشاہدہ دور بین سے کیا جاتا ہے۔ خُدا جانے جامعہ کراچی میں خُرد بین سے کون سے زُہرہ یا کون سی زُہرہ کا مشاہدہ کیا گیا! خیر گزری کہ اِس بیان میں رصد گاہ کو ”ص“ سے لِکھا گیا۔ اگر ”س“ سے لِکھ دیتے تو نیٹو حکام فوراً پہنچ جاتے کیونکہ آج کل وہ جگہ جگہ رَسد کی بُو سُونگھتے پھر رہے ہیں!

سُورج اور زُہرہ کے ٹاکرے نے ذہن میں یادوں کی لاٹ کھول دی۔ ایک زمانہ تھا جب زُہرہ بائی انبالے والی کے گلے کی دُھوم تھی۔ مرحومہ کی آواز ایسی تھی کہ سُنیے تو بس سُنتے اور سَر دُھنتے رہیے۔ اُن کے گائے ہوئے گیتوں کی دِل کشی اب بھی ماند نہیں پڑی۔ مگر پھر بے سُروں کا جادو ایسا سَر چڑھ کر بولا کہ زُہرہ بائی انبالے والی کی دِل نشیں آواز کہیں دور انبالے کے خلاءمیں گم ہوکر رہ گئی!

زہرہ بائی انبالے والی کا دور ختم ہوا تو کافی مدت کے بعد انڈین فلم میکر آں جہانی پرکاش مہرہ کی محنت سے سِلور اسکرین پر زُہرہ بائی جلوہ افروز ہوئی۔ سِکندر کے مُقدّر کا سِتارا بن کر چمکنے والی زُہرہ بائی نے اپنے جلووں کی خیرات تقسیم کی تو ایک زمانہ دنگ رہ گیا۔ آسمان پر سُورج اور زُہرہ کا ملاپ دور بین اور سَن فِلٹرز کی مدد سے دیکھا جاتا ہے مگر لوگوں نے زُہرہ بائی کو کِسی قسم کا فِلٹر آنکھوں پر چڑھائے بغیر دیکھنا زیادہ پسند کیا! میڈیا والے چونکہ بہت کچھ دیکھنا اور دِکھانا چاہتے تھے اِس لیے سِکندر اور زُہرہ کا افیئر اچھی طرح نِہارنے کے لیے اُنہوں نے ”لینس“ کا سہارا لیا! سِکندر کے دِل کے اُفق پر زُہرہ بائی کیا طلوع ہوئی، میڈیا کی تو چاندی ہوگئی۔ روز ایک نئی کہانی سامنے آتی تھی۔ زُہرہ بائی کے سلام عشق کا جواب سِکندر نے جب اُتنے ہی دل آویز اور ”دِلاورانہ“ انداز سے دیا تو سنیما اسکرین طلسماتی ہوگئی اور محبت کی نئی داستان رقم ہوئی یعنی دونوں (امیتابھ اور ریکھا) کی مارکیٹ ویلیو بڑھ گئی! سِکندر اور زُہرہ بائی کے قِصّے کچھ اِس انداز و ادا سے زباں زدِ عام ہوئے کہ سِکندر یعنی امیتابھ کی گھریلو زُہرہ بائی یعنی جیہ بہادری کی بہادری بھی بُزدِلی کے کھونٹے سے بندھ گئی! سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ مگر زُہرہ بائی کے روپ میں ریکھا نے جب امیتابھ بچن کی زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کی تب اُسے بول بچّن کی حِدّت کا اندازہ ہوا اور اُس نے یہ بھی جانا کہ زُہرہ انسانوں میں ہو یا سیّاروں میں، اُس کے لیے سُورج کے سامنے جانا اور گھڑی دو گھڑی کی ملاقات کرنا تو ممکن ہے مگر اُسے اپنانے کا خواب شرمندہ ¿ تعبیر نہیں کیا جاسکتا!

فی زمانہ ایک اور زُہرہ ایسی ہیں جنہیں دیکھنے کی تاب کِسی کِسی میں ہے اور وہ ہیں 100 سالہ زُہرہ سہگل! زُہرہ سہگل نے 96 سال کی عمر میں بھی فلم میں کام کیا ہے۔ زُہرہ سہگل کا خُرّانٹ بھرا چہرہ دیکھنے کے لیے لازم ہے قریب بیٹھنے پر بھی آپ دور بین کا سہارا لیں اور دُور کِھسکتے جائیں! فلم کے کِسی بھی فریم میں جب یہ ہوتی ہیں تو پھر کوئی اور آنکھوں کے سامنے ہوکر بھی دِکھائی نہیں دیتا! سُورج سے دور ہٹے ہوئے زُہرہ کو دیکھنا چنداں دشوار نہیں۔ مگر زُہرہ سہگل کی ”آب و تاب“ ایسی ہے کہ تنہا بھی ہوں تو اُن کے جلوے آنکھوں کو چُندھیانے کے لیے کافی ہیں!

نظام شمسی کی وسعتوں میں محو سفر زُہرہ کی فضائی کُرّہ زمین کے فضائی کُرّے کے مقابلے میں 100 گنا کثیف ہے۔ اِس سیّارے پر ہر وقت گندھک کے تیزاب سے بھرے ہوئے بادل کئی سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑتے پھرتے ہیں۔ اِس قدر ہیبت ناک فضاءکا حامل ہونے پر بھی زُہرہ کی ہمت دیکھیے کہ سُورج کو سلام عشق پیش کرنے پہنچ گیا! آسمانی زُہرہ کی جُرات میں اُن سب کے لیے بڑا واضح پیغام ہے جو دِل کی بات کہنے کے معاملے میں تذبذب کا شِکار رہتے ہیں! سراسر اِنسان دُشمن ماحول کے حامل زُہرہ کا اِنسان کو یہی مشورہ ہے کہ جو کہنا ہے سب کہہ دو، ماہرین کی پروا مت کرو!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484343 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More