امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک نابینا بھیک مانگتے ہوئے یہ آواز لگا رہا تھا کہ
اے لوگو میری حالتِ زار پر ذرا رحم کرو ۔ مجھے زیادہ بھیک دو کہ میں دو
اندھے پن رکھتا ہوں۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ ایک اندھا پن تو ہمیں نظر آتا
ہے دوسرا اندھا پن کون سا ہے۔ اُس سے جواب دیا کہ میری آواز بھدی اور بے
ہنگم ہے اور مجھے مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں آتااور اگر دل بھی اندھا ہوتو
یہ تیسرا اندھا پن ہو گا۔یہ بات کہنے سے اُسے زیادہ بھیک ملنے لگی۔ اس
حکایت کے سبق میں امام رومیؒ لکھتے ہیں کہ جب انسان اپنی کمزوری کو تسلیم
کرے گا تو لوگوں کا اُس کی طرف رجحان بن جائے گا۔ اور وہ کمزوری اُس کا حسن
بن جائے گی۔
قارئین!آج کچھ عرصے بعد دل پر کچھ ایسی گزری کہ ایک وقفے کے بعد دل چاہا کہ
قلم اُٹھائیں اور کوئی داستانِ غم آپ کے ساتھ بانٹ لیں۔کیونکہ کہا جاتا ہے
کہ غم اور خوشیاں ہمیشہ بانٹنی چاہئیں۔خوشیاں بانٹنے سے دوسروں کو سُکھ
پہنچانے کا موقع ملتا ہے اور غم کا حال کسی دوسرے کو سُنا دینے سے اپنے دل
کا بار ہلکا ہو جاتا ہے۔ہمارے ایک دوست رافع سلیم نے گزشتہ روز دوپہر دو
بجے کے قریب ہمیں اطلاع دی کہ سابق وزیرِ خزانہ اور بزرگ سیاسی رہنما
کیپٹن(ر) سرفرازخان برطانیہ میں کینسر کی وجہ سے وفات پا گئے ہیں۔یہ خبر سن
کر ہمارے اعصاب پر گویا بجلی سی گری۔کیپٹن (ر) سرفراز خان کے صاحبزادے
ڈاکٹر یاسر سرفراز جو ماہرِ امراضِ بچگان ہیں اور ہمارا اُن سے تعلق زمانہ
طالب علمی سے لے کر پمز کمپلکس ہسپتال میں اُن کی سپیشلائزیشن کے دوران
پروان چڑھتا رہا۔ہماری مشترکہ دوستی میں ڈاکٹر ثاقب اسماعیل بھی شامل تھے
جو آج کل سعودی عرب میں بحیثیت پیڈیاٹرک سرجن کام کر رہے ہیں۔ہم نے فوراً
ڈاکٹر یاسر سرفراز کو فون کیا تو اُن کی آنسوﺅں سے بھرپور آواز نے اس خبر
کی تصدیق کر دی۔
قارئین! قصہ مختصر ہم دیگر دوستوں کے ہمراہ اُن کے گھر پہنچے اور کیپٹن (ر)
سرفراز خان کی وفات کے متعلق طبی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو موقع پر موجود
مختلف ڈاکٹرز سے یہ پتہ چلا کہ کیپٹن (ر) سرفراز خان کو بلیڈر یعنی مثانے
کا کینسر آج سے آٹھ ماہ قبل تشخیص ہوا۔آزادکشمیر میں اس وقت حیرانگی کی بات
ہے کہ کینسر کے حوالے سے ایک بھی سپیشلسٹ موجود نہیں ہے۔اداروں میں سرکاری
یا نجی سطح پر تشخیصی سہولیات کا ہونا تو خارج از امکان ہی
کہئے۔سٹیجنگ(Stagin)کروانے کے لیے کہ یہ پتا چل سکے کہ یہ کینسر کس مرحلے
پر ہے اور خدانخواستہ یہ اپنی میٹا سٹیٹس کرتے ہوئے اپنی مزید شاخیں اور
جڑیں تو نہیں بنا چکا ۔ کیپٹن (ر) سرفراز خان برطانیہ چلے گئے۔وہاں جا کر
پتا چلا کہ اُن کے جگر ، گردے اور پھیپھڑے بھی اس کینسر کا شکار ہو چکے
ہیں۔آٹھ ماہ کے قلیل عرصے میں کیپٹن (ر) سرفراز خان پوری کشمیری قوم کو
اُداس چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔کیپٹن (ر) سرفراز خان کی اس المناک
وفات نے بہت سارے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہر سال گزشتہ
چونسٹھ سالوں کے دوران کینسر سے لے کر دیگر مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے
اہلیانِ کشمیر کو پنجاب، سندھ یا بیرون ملک جانا پڑتا ہے اور کشمیرکے اندر
ضروریات کے باوجود اُن سہولیات کو مہیا نہیں کیا جاتا جس کی کشمیری قوم
مستحق ہے۔شوکت خانم کینسر ہسپتال کے نام پر عمران خان نے جس عظیم کام کا
آغاز لاہور سے کیا تھا آج اُس کی شاخیں کراچی اور پشاور میں بھی پھیل گئی
ہیں۔کیا کشمیر بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال یا ان جیسا
کوئی اور نجی ، رفاعی یا سرکاری ادارہ کشمیر کے اندر کام کرنا شروع کرے اور
کیپٹن (ر) سرفراز خان سے لے کر غربت اور مفلوک الحالی میں گرفتار ایک عام
کشمیری بھی اس مہلک بیماری کے علاج کی سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکے۔ ہر
کسی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔اللہ کے نبیﷺ جو وجہ وجودِ کائنات ہیں وہ بھی
اس جہاں سے پردہ فرما گئے۔ ہم سب نے بھی اپنے خالقِ حقیقی سے ملنا ہے اور
اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ ایک نہ ایک دن سب نے قبر کی مٹی میں
چلے جانا ہے۔لیکن قرآن و حدیث کھول کر پڑھ لیں تو صاف صاف بتا دیا گیا ہے
کہ حکمرانوں پر رعیت کے کیا حقوق ہیں اور کون کون سے فرائض ہیں کہ جو ریاست
نے ایک ماں بن کر اپنے لوگوں کے لیے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ایک خوش آئند بات ہم
نے یہ دیکھی کہ کیپٹن (ر) سرفراز خان کی وفات پر وزیر اعظم آزادکشمیر
چوہدری عبد المجید نے اُنہیں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ تدفین کرنے کا حکم
جاری کیا،میاں محمد نواز شریف، راجہ فاروق حیدر خان، سردار سکندر حیات خان
سے لے کر مسلم لیگ (ن) کی تمام قیادت نے اپنے سینئر رہنما کی وفات پر دلی
رنج و الم کا اظہار کیاتو گزشتہ رات ایک خوشگوار حیرت نے بھی راقم کے دل کو
چھو لیا۔راقم کو رات گئے سابق وزیرِ اعظم سردار عتیق احمد خان نے فون کیا
اور کہا کہ کیپٹن (ر) سرفراز خان نے بے شک حالیہ انتخابات میں ہم سے اپنا
سیاسی راستہ جدا کر دیا تھا لیکن ہم آج بھی اُن کے اعلیٰ کردار ، شفاف ترین
سیاست اور نظریہ الحاقِ پاکستان کے لیے جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں۔مجاہدِ
اول سردار عبد القیوم خان نے بھی انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج
پوری کشمیری قوم آزادکشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور پوری دنیا میں افسردہ
ہے۔کیپٹن(ر) سرفراز خان کی وفات سے اعلیٰ اقدار، رواداری اور وضع داری کا
ایک باب بند ہو گیا ہے۔
قارئین !پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور مسلم کانفرنس یہ
تین جماعتیں آزادکشمیر میں اقتدار اور اپوزیشن میں موجود ہیں۔متحدہ قومی
موومنٹ کے دو رہنما طاہر کھوکھر اور سلیم بٹ بھی حکومت میں موجود ہیں۔ہم ان
تمام اعلیٰ شخصیات سے غالب کی زبا ن میں یہ کہنا چاہتے ہیں۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
بات پرواں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
بک رہا کیا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
قارئین! ہم ان تمام معزز شخصیات سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ لاہور میں میو
ہسپتال ، کنگا رام ہسپتال، سروسز ہسپتال، لاہور جنرل ہسپتال جیسے سرکاری
ادارے کینسر کے علاج کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں اور شوکت خانم ہسپتال
جیسا ایشیاءکا سب سے بڑا ادارہ بھی سماجی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔اسلام
آباد میں نوری ہسپتال موجود ہے جہاں کینسر جیسے موذی مرض کا علاج کیا جاتا
ہے۔کئی نجی اداروں میں بھی راولپنڈی اسلام آباد میں کینسر کے علاج کی سہولت
موجود ہے۔آپ حکمرانوں اور اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے معزز اراکینِ اسمبلی
سے کشمیری قوم یہ درخواست کرتی ہے کہ ”جمہوریت“ کے پودے کو پانی دینے کے
ساتھ ساتھ عوام کے اصل مسائل حل کرتے ہوئے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسئلو
ں پر توجہ دیں اور آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ
کے تحت کینسر کے علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے بیج بو دیا جائے۔اگر
حاجی محمد سلیم جیسی شخصیت برطانیہ سے آکر کروڑوں روپے خرچ کر کے کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے نام سے میرپور میں سٹیٹ آف آرٹ ادارہ بنا سکتی
ہے ، چوہدری ظہور جیسا رئیل سٹیٹ بزنس مین کروڑوں روپے خرچ کر کے میرپور
میں کڈنی ڈائیلاسز سنٹر اپنی مرحوم بیٹی کے نام پر قائم کر سکتا ہے تو یقین
کیجئے کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ کینسر کے علاج کے لیے ادارہ قائم کرنے کا
عزم کر لیا جائے تو حاجی محمد سلیم ، چوہدری ظہور اور حاجی محمد صابر ممبر
برٹش ایمپائر جیسی کئی شخصیات سامنے آسکتی ہیں جو اس ہلاکت آفرین بیماری کے
علاج کے لیے ”کشمیر کینسر ہسپتال“ کے قیام کے لیے سر دھڑکی بازی لگا سکتی
ہیں۔ڈاکٹر مشتاق چوہدری جو بے نظیر بھٹو شہید میرپور میڈیکل کالج کے
پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں اُن سے بھی راقم کی جب بھی گفتگو ہوئی ہے اُنہوں نے
اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ تھوڑا سا اعتماد کی بحالی ہو جائے تو سینکڑوں
کشمیری تارکینِ وطن مختلف رفاعی منصوبوں کے لیے اربوں روپے مہیا کر سکتے
ہیں۔لیکن اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ الزام تراشی اور بحث برائے بحث
سے نکل کر حکومت اور اپوزیشن اس مسئلے کے اور ایک ہو جائیں۔ کیپٹن(ر)
سرفراز خان کی وفات نے پوری کشمیری قوم کو افسردہ کر دیا ہے اور وہیں پر
سوچوں کے یہ دروازے کھول دیئے ہیں کہ ایک غریب کشمیری اگر کینسر کا شکار ہو
جائے تو سسک سسک کر جان دینے کے علاوہ کیا اُس کے پاس کوئی راستہ بھی موجود
ہے۔آئیے اس پر غور کریں۔ |